۔،۔ بادشاہ سلامت ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔
پاکستان ایک ایسا ستم رسید ہ ملک ے جس کی پیشانی اداروں کے بے رحمانہ سلوک سے سے داغ داغ ہے۔عدلیہ کا متناعہ کردار سب ے لئے باعثِ ندامت ہے۔ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق عدلیہ نے ہر اس ادارے کو سر پر بٹھایا جوطاقت کا منبہ تھا۔جسٹس منیر سے شروع ہونے والی کہانی پرت در پرت روپ بدل کر ہر بار ہمارے سامنے ہر ایک نئی صورت میں جلوہ گر ہو جاتی ہے اور ہمیں ہماری بے بسی کی یاد دلاتی ہے۔کمال یہ ہے کہ ہر بار چیف جسٹس آف پاکستان ہمیں آئین و قانون کادرس پڑھاتے نہیں تھکتے اور ہمیں لگا تار یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلے وقت کی ضرورت تھے اور انہی فیصلوں میں پاکستان کی سرخرو ئی پنہاں تھی۔غلام محمد جیسے بیمار شخص کو گورنر جنرل بنانا اور پھر اسے مقتدر حلقوں کا باگزار بنانا کس کی پشت پناہی اور چشمِ آبرو کا مرہونِ منت تھا؟ٹرین ایک دفعہ پٹری سے اتر جائے تونقصان کا خمیازہ بھگھتنے کے بعد اسے دوبارہ پٹری پر چڑھاناانتہائی کٹھن کام ہو تا ہے۔یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا۔محلاتی سازشوں سے سکند ر مرزا کا ظہور ہوا اور پھر مسیحائے وقت جنرل محمد ایوب خان نے زمامِِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے کر سیاستدانوں کوبیک جنبشِ قلم سیاست کی قلمرو سے بے دخل کر دیا اور یوں ۲۲ دولت مند خاندانوں کی تخلیق کے ساتھ گیارہ سالوں تک اقتدار کے مزے لوٹے۔(نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔)۔جمہوریت کا ایساسوا ستیاناس ہوا کہ پھر جمہوری ڈور جمہوریت پسند ہاتھوں کی گرفت میں کبھی نہ آ سکی۔طاقتوروں نے جی بھر کر اپنے قدم جمائے اور پھر ۵ جولائی کو جنرل ضیا الحق نے ذولفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کے انتہائی ذ ہین و فطین قائد کو ۴ اپریل ۹۷۹۱ کو تختہِ دار پر لٹکانے کا فریضہ مولوی مشتاق حسین اور انوا ر الحق جیسے کہنہ مشق ججوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچایا۔تسبیحوں پر پڑھے گے لاکھوں ورد بھی عدلیہ کی داغ دار پیشانی کو بے داغ نہ کر سکے۔کیا کوئی ایسا منتر ہے جو اس داغ کو دھو سکے؟ ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ عدلیہ پچھلے کئی سالوں سے ذولفقار علی بھٹوکا ریفرنس سننے سے کنی کترا رہی ہے۔کئی دفعہ یاد ہانیاں کروائی گئی ہیں لیکن عدلیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگیتی۔وہ قائد جو پاکستان کا حقیقی محسن ہے آج تک ایک مجرم کی حیثیت سے دفن ہے۔اس عدالتی قتل سے پوری دنیا آگاہ ہے لیکن عدلیہ پھر بھی اس فیصلے کو عدالتی قتل قرار دے کرپاکستان کے بطلِ حریت کو مجرموں کی صف سے نکال کر قومی ہیرو کا درجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔،۔ایک اور طالع آزما جنرل پرویز مشرف نے ۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ کو ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر شب خون مارا اور پھر ہوائی جہازکی فرضی کہانی تخلیق کر کے دس سالوں تک اس ملک پر راج کرتا رہا۔چیف جسٹس ارشاد حسن نے انتہائی فراخ دلی سے اس شب خون کو آئینی چادر عطاکرنے کے ساتھ ساتھ جنرل پرویز مشرف کو آئین بدلنے کا اختیار بھی تفویض کر دیا۔یہ سلسلہ کئی سالوں پر محیط رہا اور اس عرصہ میں ملک کے دونوں مقبول قائدین کو جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔اشرافیہ کے سارے مہرے جنرل پرویز مشرف کی مٹھی میں قید ہو گے۔اشرافیہ اپنے مفادات سمیٹتی رہی اور جنرل پرویز مشرف سیاہ و سفید کا مالک بن کر حکمرانی کرتا رہا۔امریکہ کی نوازشیں اور نائین الیون کے حادثہ نے جنرل پرویز مشرف کو بے پناہ طاقت عطا کر دی۔عدلیہ ریت میں سر دبائے سچائی سے آ ّنکھیں چرائے وقت کو دھکا دیتی رہی۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے علاوہ سینکڑوں ہم وطنوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا گیا۔عدلیہ لب بمہر یہ سب تماشہ دیکھتی رہی۔کسی کا ضمیر جاگا،نہ کسی کی غیرتِ ملی نے جوش مارا اور نہ ہی آئین و قانون کی محبت نے جابرِ وقت کو جھنجوڑنے کی جراتِ رندانہ کا مظاہرہ کیا۔امریکی صدر کی حمائت نے جنرل پر ویز مشرف کو بالکل خود سر بنا دیا تھا۔و ہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔اس کیلئے اقتدار کاتسلسل اس کی غیرت اور وقار سے بلندتر تھا۔ اشرافیہ،اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور امریکہ جس کی پشت پر ہواس کا خود سر ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن سہانے دن سدا نہیں رہتے۔ظلم و جبر اورجورو ستم کی شبِ تاریک کو ایک دن ڈھل جانا ہو تا ہے لیکن کوئی بھی اس کا ادراک کرنے سے معذور ہو تا ہے۔آمر ریاستی طاقت سے سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے جب طاقت بے اثر ہو جاتی ہے۔بقولِ حبیب جالب (تم سے پہلے جو اک شہر یہاں تخت نشیں تھا۔،۔ اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا)۔ خدائی طاقت کا یہ خود ساختہ بھوت دیکھتے ہی دیکھتے ایک ڈراؤنے خو اب میں بدل جاتا ہے اور وہ کچھ ہو جاتا ہے جو ماورائے وہم و گمان ہو تا ہے۔،۔ ابھی جنرل پرویز مشرف کے سیریل کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ چیف جسٹس میاں ثا قب نثار سیاستدانوں کو وطن کی گلیوں پر نثار کرنے کیلئے میدان میں کود پڑے۔بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر منتخب وزیر اعظم کو ان کے عہدہ سے فارغ کر کے انھیں زندانوں کی بے رحم سختیوں کے حوالے کر دیا۔نامور وکیل حمامد خان کے انٹرویونے عدلیہ کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔ شائد یہ عالمی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی وگرنہ خطرہ تھا کہ ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح اس کا انجام بھی موت کی صورت میں بر آمد ہوتا۔جمہوری حکومتوں کی قبل از وقت غیر آئینی تحلیل اور عدلیہ کی تصدیق نے پاکستان کے سیاسی معاملات میں جو مدو جزر پیدا کیا اس نے پاکستان کی سیاست کو پرا گندہ کیا۔آج کل عدلیہ جمہوری حکومت کے خلاف سینہ سپر ہے۔ایسے قوانین جو کئی عشروں سے رو بعمل ہیں انھیں کھنگالنے کی کوشش ہو رہی ہے اور بلوائیوں کی حوصلہ افزائی کی خاطرجمہوری حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا جارہا ہے۔کچھ لوگ عدلیہ کو ایساکرنے پر اکسا رہے ہیں لہذا عدلیہ اپنی عزت کوخود ہی رسوا کرنے پر تلی ہو ئی ہے۔ عدلیہ کی اندرونی لڑائی تو جگ ہنسا ئی کا موجب ہے لیکن عدلیہ میں بیٹھے ہوئے ا یک مخصوص گروہ کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہو رہی۔پارلیمنٹ کی قانون سازی اور قرار دادوں کو ہوا میں ڑایا جا رہا ہے، کبھی سٹے دے دیا جاتا ہے، کبھی کمیشن کو کام سے روک دیا جاتا ہے اور کبھی حکومت کی کھلے عام سرزنش کی جاتی ہے۔ووٹ نہ گننے کے غیر آئینی فیصلے کے خلاف پٹیشن کئی مہینوں سے زیرِ التواء ہے۔چیف جسٹس بادشاہ سلامت بنے ہوئے ہیں حالانکہ آئین میں ان کا کردار واضح ہے۔پاکستان میں بادشاہت نہیں بلکہ جمہوریت ہے لہذا اندازِ شاہی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا جو کوئی بھی بادشاہ سلامت بننے کی کوشش کرے گا رسوائی اس کا مقدر ہو گی۔اگر عدلیہ بلوائیوں کی حوصلہ افزائی کارو یہ اپنائے گی تو ملکی سلامتی کا اللہ ہی حافظ ہے۔پوری قوم اس ایک بات پر یک آواز ہے کہ نو مئی کے سانحہ میں ملوث افراد کو عبرت ناک سزا ملنی چائیے تا کہ دوبارہ کوئی گروہ اس طرح کے ریاست مخالف کردار کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ریاست کی مضبوطی اسی میں ہے کہ بلوائیوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں لیکن عدلیہ ایسا نہیں سوچ رہی وہ اب بھی ریاست مخالف رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے۔ (فتنہ کفر سے بھی سنگین جرم ہے لہذا اس کا خا تمہ ضروری ہے) جبکہ عدلیہ کسی غیر کی محبت میں اسے بھی تسلیم کرنے سے گر یزاں ہے۔،۔