0

۔،۔ ہار اور جیت ۔،۔۔ (طارق حسین بٹ شانؔ ۔،۔

0Shares

۔،۔ ہار اور جیت ۔،۔۔ (طارق حسین بٹ شانؔ ۔،۔

ایک غیرجانبدار مبصر،تجزیہ نگار اور آبزرور کی حیثیت سے میں نے پچھلے کئی انتخابات میں جو کچھ دیکھا تھا ۴۲۰۲؁ کا انتخاب ان سب سے بالکل مختلف تھا۔ جمہوری روح کی تو ساری سیاسی جماعتیں دعویدارہوتی ہیں لیکن کیا ان کے دعوے واقعی حقیقت سے قریب تر ہوتے ہیں یا یہ کہ فریب کاری کا بیانیہ (ہماری گل ہو گئی ہے) ان کی پہلی ترجیح ہو تی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسی جماعتیں بیساکھیوں پر کھڑا ہونے میں اپنی عافیت تلاش کرتی ہیں یا پھر عوامی رائے کو حرضِ جان بنا کر عوامی تائید سے اقتدار تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔اکثر جماعتیں عوام پر تکیہ کرنے کی بجائے مقتدرہ کی قدم بوسی سے اپنی فتح کا محل تعمیر کرنا پسند کرتی ہیں۔ایسی جماعتوں کو شائد عوامی فیصلہ اور وزڈم پر یقین نہیں ہوتا اس لئے ان کے پاس مقتدرہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔دولت کے پجاریوں اور عوامی محبت کے دعوے داروں کے درمیان ایک لطیف سا پردہ ہوتا ہے جو کہ لطیف ہونے کے باوجود انتہائی اہم ہو تا ہے۔عوامی محبت میں مبتلا انسان کا ماخذ خود کو مطلاطم لہروں کے کو سپرد کرنے کے مترادف ہو تا ہے جبکہ دولت کی پجاریوں کیلئے سارے جائز و ناجائز حربوں سے اقتدار کی مسند کا حصول پہلی ترجیح ہو تی ہے۔ ایک طرف جیلیں اور صعوبتیں ہوتی ہیں جبکہ دوسری طرف مقتدرہ کی تھپکیاں اور نوازشیں ہو تی ہیں جو اقتدار کی نوید سناتی ہیں۔ ایک طرف عوامی رائے کاخون ہو تا ہے جبکہ دوسری طرف عوامی محبت کی چاشنی روح کی سرشاری کا موجب بنتی ہے۔مقتدرہ ایک حقیقت ہے لیکن کیا حتمی فیصلہ مقتدرہ کو کرنا ہے یا اس کاآئینی اختیار ۵۲ کروڑ انسانوں کے پاس ہے کہ ان کے حکمران کون ہو ں گے؟پوری دنیا میں انتخابات ہو تے ہیں لیکن ایسے انتخابات تو نہ دیکھے نہ سنے۔ایک سیاسی جماعت جس کا قائد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، جو نااہل کیا جا چکا ہو،جسے تیز ترین عدالتی کارو ائی سے لمبی لمبی سزائیں سنائی گئی ہوں،جس کی جماعت کو غیر فعال بنایا گیاتھا،جس کی جماعت کاکوئی انتخابی نشان نہیں تھا،جس کی صفِ اول کی قیادت فرار تھی یا جیلوں میں مقید تھی،جسے جلسے جلوس کی اجازت نہیں تھی،جسے انتخابی مہم چلانے سے محروم کیا گیا تھا،جسے ریلیوں اور کارنر میٹنگز سے بزور دور رکھا گیاتھا حتی کہ جس کا نام ٹیلیویژن پر لینے کی پابندی تھی۔اتنے جبر، جور اور سفاکیت کے بعد اس انسان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر میدان میں پھینک کر اسے الیکشن پر مجبور کیا گیا تھا۔ لیکن ان سارے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود اس انسان نے الیکشن لڑا اور دنیا کو دکھا دیاکہ آمریت کے سائے میں اس طرح بھی الیکشن لڑا اور جیتا جا تا ہے۔یہ ایک معجزاتی کیفیت ہے جس کا اظہار اس انسان کی ذات سے ظہور پذیر ہوا ہے جو پابندِ سلاسل ہے۔(جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر ڈالا ظالم تیری خوشی کے لئے) گو یا کہ ووٹ کی حرمت کی خاطر اس نے جہانِ جبر سے ٹکر لی جبکہ اس یدھ میں اس کی جان بھی جاسکتی ہے لیکن وہ ہے کہ باز آنے کو تیار نہیں ہے۔(راہِ وفا کا بنا ہوں راہی۔،۔ سہوں گا تنہا میں سارے عذاب)۔،،۔لمحہ موجود میں پوری دنیا اس انسان کی جرات اور اس کی بے باکی کی معترف بنی ہوئی ہے۔ایک ناممکن مہم کو اس نے جس طرح اپنی فہم و فراست اور جرات و بسالت سے ممکن بنایا ہے دنیا ابھی تک حیرت و ا ستعجاب کے دریا میں غوطہ زن ہے۔کوئی انسان اپنی جان کو داؤ پر نہیں لگاتا لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک انسان نے تمام ریاستی ہتھکنڈوں کے باوجود اپنی راہ نہ بدلی۔وہ کوہِ گراں کی طرح ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور پھر عوام نے اپنے ووٹ کو اس پر جس طرح قربان کیا ناقابلِ بیان ہے۔اس انسان کے خلاف جبر کا ہر حربہ آزمایا گیا لیکن پھر بھی مطلوبہ نتائج بر آمد نہ ہو ئے تواس کے خلاف دھاندلی کا حربہ آزمانے ی ٹھانی۔مقتدرہ حیرت زدہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی نفرت کا نشانہ بننے والا ا نسان جیت جائے؟ یہ نہیں ہو سکتا،اور اگر ایسا محیر العقول واقعہ ہو جائے تو سارے نتائج کو بدل ڈالو؟ اب اس کا آسان طریقہ تو یہی تھا کہ نتائج کو خاموشی سے بدل دیا جاتا اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔۸ فروری کی شب شکست خوردوں کو فتح یاب کیا گیا اور جو فتح یاب تھے ان کی جیت کو شکست میں بدلا دیاگیا۔ایک فارم ۷۴ کا اجراء ہونے کی دیر تھی کہ جیت کو ہار میں بدل دیا گیا۔کتنا آسان نسخہ ہے کہ بے شمار جنجھٹ پالنے کی بجائے ایک ڈپٹی کمشنر(ڈی سی) کی ڈیوٹی لگا دی جائے کہ اس نے حکمِ بالا کی ہدایات کی روشنی میں کس کو جتوانا اور کس کو ہروانا ہے؟کسی بھی پولنگ سٹیشن پر بلوے،لڑائیوں اور جھگڑوں کی بجائے ائیر کنڈیشنڈ روم میں فارم ۷۴ کو اپنے امیداوار کے حق میں جاری کر کے سارے انتخاب کو بدل لیا جائے۔یہ دھاندلی کا وہ عظیم نسخہ ہے جس سے بد امنی، انتشار اور خانہ جنگی کے سارے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ اس طریقہ سے دھاندلی بھی ہو جاتی ہے اور عوام کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ عوام کو شک میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ انتخاب میں کون جیتا اور کون ہارا ہے؟ رات کو جیتنے والے صبح صادق کے وقت شکست خوردہ لشکر میں ڈال دئے جاتے ہیں۔کچھ ایسے امیدوار بھی منظرِ عام ہر آئے جھنیں محض اس وعدے کے بعد فاتح قرار دا گیا کہ وہ جیت کر مقتدرہ کی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔بندہ راتوں رات اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر نہا دھو کر اور پاک صاف ہو کر اپناقبلہ بدل لیتا ہے۔جماعت بدلنے کے اعلان کے بعد اس کی غیرت کو ذبح کر دیا جاتا ہے تو اسے مکتی مل جاتی ہے۔وہ نا پسندیدہ سے پسندیدہ بن جاتا ہے۔اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔،۔میرا ایمان ہے کہ جس کسی نے بھی یہ گھناؤنا کھیل کھیلا ہے وہ ایک دن اعترافِ جرم ضرور کرے گا۔ابھی تو کمشنر لیاقت علی چٹھہ کی باغی ویڈیو نے ہر سودھوم مچائی ہوئی ہے۔مقتدرہ اور اس کی حلیف جما عتیں پریشان ہیں اور عالمِ پریشانی میں ان سے کوئی جواب بن نہیں پا رہا۔یہ انسانی نفسیات ہے کہ کوئی بھی انسان سچ کا اظہار کئے بغیر اس جہانِ فانی سے رخصت نہیں ہونا چاہتا۔ہر دور کا سچ کسی نہ کسی طرح انسانوں کے پاس پہنچ جاتا ہے تا کہ دوسرے اس سے اجتناب کریں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ کچھ انسان پھر بھی ظلم ور نا انصا فی سے باز نہیں آتے اور ذاتی مفادات کی دوڑ سے کنارا کش نہیں ہوتے۔ ذولفقار علی بھٹو کی زندگی کے آخری ایام کے ایک ایک لمحے کی تفصیل کتابی شکل میں ہمار ے سامنے ہے۔ انھیں پھانسی کا فیصلہ سنانے والے ججزکے مجبور ہونے کا اعتراف ان کی بے چینیوں کی علیحدہ کہانی سنا رہا ہے۔کس طرح فیصلے لئے جاتے ہیں اور کس طرح بے گناہوں کو سرِ دار لٹکا دیا جاتا ہے اس سے پورا عالم واقف ہے۔حریت پسند دلوں پر راج کرتے ہیں جبکہ ظالم انسانی نفرت کی علامت بن کر لعنت سمیٹتے رہتے ہیں۔ سچائی کا جو شخص بھی راستہ روکتا ہے خود ہی ذلیل و خوار ہو جاتا ہے۔(ظلم و ستم کی وہ آندھی چلی۔،۔ گر گئے ہیں ہاتھوں سے سارے رباب)۔کون ہے جو ہزار ہا سال زندہ رہے گا،ہر انسان کو ایک مقررہ مدت کے بعد اس جہاں سے رختِ سفر باندھنا ہو تا ہے،کوئی ذولفقار علی بھٹو کی طرح رخصت ہو تا ہے، کوئی نیلسن مینڈیلا کی طرح انسانی عظمت اور برابری کا استعارہ بن جاتا ہے اور کوئی مقتدرہ کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر اپنی عاقبت خراب کر لیتا ہے۔عوامی محبت کیلئے آزما ئشو ں اور صعوبتوں کی کٹھا لیوں سے گزرنا ضروری ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مقام بھی آزمائش کے بغیر نہیں ملا کرتا۔ذولفقار علی بھٹو نے جیل میں جنرل ضیا الحق کے ظلم و جبر کے سامنے گردن جھکانے سے انکار کیا تو صدیوں کا سفر پلک جھپکنے میں طے کر لیا۔جان تو گئی لیکن وہ انسانی جرات کا ایسا دلکش استعارہ بنا کہ اس کی جرات و بسالت کے ذکر پر روح وجد میں آ جاتی ہے۔کیا کسی اور انسان نے بھی ذولفقار علی بھٹو والی راہ کا انتخاب کر لیا ہے؟۔کیا اس کا انجام بھی ذولفقار علی بھٹو جیسا ہو گا یا وہ عوامی محبت کے بل بوتے پر فتح کا حقدار ٹھہرے گا؟؟؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں