0

۔،۔نوٹوں کا ڈھیر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔نوٹوں کا ڈھیر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
اُس دن بھی حسب روایت بہت سارے لوگ مجھ حقیر فقیر سے ملنے کے لیے میرے آفس پہنچنے سے پہلے ہی ملاقات کے لیے سراپا انتظار تھے میں ملاقاتیوں کے ہجوم کی طرف بڑھا تو ایک ڈرائیور تیزی سے میری طرف بڑھا اور بولا جناب فلاں سیٹھ صاحب کی بیگم صاحبہ صبح سے آپ کا انتظار کر رہی ہیں ان کو بہت جلدی اور ضرور ی کام ہے لہذا آپ پہلے ان سے مل لیں بیگم صاحبہ بہت دولت مند ہیں جس پر مہربان ہو جائیں اُس کی نسلوں کو بھی سنوار دیتی ہیں غربت کے اندھیروں سے نکال کر امارت کے بلند روشن چوبارے پر بیٹھا دیتی ہیں بیچارہ ملازم اپنی بیگم کے قصیدے پڑھنے میں مصروف تھا وہ جیسے جیسے بیگم صاحبہ کی دولت کے قصیدے پڑھ رہا تھا میرے اندر کا باغی دیہاتی انگڑائی لے کر بیدار ہو رہا تھا میں بے نیازی سے ڈرائیور کو چھوڑ کر ایک بوڑھی عورت جو اپنی بیٹی کے ساتھ آکر ایک طرف کھڑی تھی اُس کے پاس جا کر شفقت سے لبریز لہجے میں اِس کا حال دریافت کیااُس کا مسئلہ سن کر اُس کو مختلف ازکار دیتے پھر ایک اور بوڑھے شخص کی طرف بڑھ گیا جو فالج زدہ پتھر بنا ڈوبنتی بے نور آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا اُس کے پاس جا کر پیار بھری مسکراہٹ سے کہا آپ بہت جلدی اللہ کے فضل سے مکمل تندرست ہو جائیں گے میرے امید بھرے میٹھے بولوں سے بیمار شخص کے پتھریلے چہرے پر حرکت سی ہوئی آنکھوں کی دھند لاہٹ میں امید کے جگنو ٹمٹمائے اور آنکھوں سے تشکر کے آنسو بہنے لگے کچھ وقت فالج زدہ شخص کو دینے کے بعد اب میں نے ملاقاتیوں پر نظر ڈٖالی کہ کون زیادہ تکلیف میں جلدی توجہ طلب ہے کہ اُسی وقت ڈرائیور نے مجھے پھر کندھے سے پکڑا اور ایک طرف لے جا کر سرگوشی کے لہجے میں بولا جناب آپ ان بھوکے ننگوں میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں میں بار بار آپ کو کہہ رہا ہوں وہ بڑی پجارو جیپ میں میری بیگم صاحبہ آپ کو بلا رہی ہیں آپ کے لیے ٹھنڈا جوس فروٹ اور تحائف لے کر آئی ہیں آپ خدا کے لیے اپنی اور میری روزی پر لات نہ ماریں میرے ساتھ چل کر اپنی خالی جھولی کو نوٹوں سے بھر لیں ایسے مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے ورنہ بیگم صاحبہ زیادہ انتظار نہیں کریں گے کسی دوسرے آستانے بابے کے در پر جاکر دولت کی برسات کر دیں گی بلکہ انہیں کسی بابے درویش کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے وہ جس بابے کو حکم دیں گی وہ حاضر ہو جائے گا اور ہاں وہ ایک لاکھ روپے سے کم کسی نذر نیاز نہیں دیتیں آپ کا ہجوم شہرت دیکھ کر ایک لاکھ سے پانچ لاکھ بھی دے سکتی ہیں جس پر ان کی نظر آجانے پر دولت پانی کی طرح بہا دیتی ہیں صبح صبح اپنی جیب گرم کریں کیونکہ وقت برباد کر رہے ہیں میں ابھی اِس امیر زادی کو اور انتظار سوئی پر لٹکانا چاہتا تھا لیکن بار بار ڈرائیور کے تنگ کر نے پر سوچا پہلے جا کر اِس دولت کی دیوی کے درشن کر لوں اور ایک اور پتلہ خاکی کا مطالعہ بھی کہ اِس امیر زادی کو کونسی ضرورت حاجت مجھ گناہ گار تک لے آئی ہے یہ پہلی خاتون میرے پاس ایسی نہیں آئی تھی بلکہ تقریبا روزانہ ہی کوئی امیر زادہ آجا تا ہے اُس کی کو شش ہوتی ہے پیسے دے کر دوسروں سے پہلے علیحدگی میں خاص ملاقات کر لوں لیکن جب اُسے پتہ چلتا ہے کہ میں مشت غبار پیسے نہیں لیتا تو وہ پریشان ہو جاتا ہے ہمارے معاشرے میں جو امیر زادے ہیں ان کو ہر چیز پیسے دے کر خریدنے کی عادت ہوتی ہے مجھے بہت سارے ایسے لوگ مل کر یہ کہہ چکے ہیں سر میں نے بہت ساری باتیں کرنی ہوتی ہیں آپ کے پاس وقت نہیں ہو تا لہذا میں کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جا کر تین ہزار دے کر خوب باتیں کرتا ہوں زیادہ موڈ ہو تو دس ہزار دے کر ایک گھنٹہ باتیں کر کے اپنے من کی بھڑاس نکال لیتا ہوں کچھ دیوانے مجھے سرگوشی میں کہتے ہیں سر آپ کا جو بھی معاوضہ ہے میں خوب جی بھر کر دوں گا برائے مہربانی مجھے سب سے پہلے الگ جاکر مل لیں یا پھر رات یا چھٹی کے دن کا وقت دیں جب صرف میں ہوں گا اور آپ ہوں گے ایسے لوگوں کا مطالبہ جب میں پورا نہیں کرتا ان کو خاص علیحدگی میں نہیں ملتا تو یہ میرے پاس آنا چھوڑ دیتے ہیں کسی دوسرے بابے کے پاس جو اِن کے گھر آکر اِن کو روحانی سروس بھی دیتا ہے اِن کے مزاج کی باتیں بھی کرتا ہے پھر من پسند معاوضہ لے کر چلا جاتا ہے بہت سارے لوگوں نے اپنے دوستوں سے یہ شکایت اکثر کی ہے کہ بھٹی صاحب کے پاس رش بہت ہو تا ہے ہم زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرسکتے یا لوگوں کے سامنے ملاقات نہیں کر سکتے اِس لیے ہم نے بھٹی صاحب کے پاس جانا چھوڑ دیا ہے ہم نے اپنی مرضی کا بابا تلاش کر لیا ہے جو ہماری مرضی کے مطابق مرضی کی جگہ اور وقت پر ملتا ہے ان دولت مندوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات کے پاس ہے میرا کام ہے کوشش دعا اللہ کے نام یا قرآنی آیات کا وظیفہ بتایا حق تعالی کو راضی کر نے کا طریقہ بتایا خلوص نیت سے کو شش کرنا تاکہ رب کائنات مان جائے اور مسئلہ پریشانی حل ہو جائے ایسا ہی دولت مندی والاکیس آج بھی میرے پاس آیا تھا میں نے جان چھڑانے کے لیے ڈرائیور سے کہا چلو میں تمہاری بیگم صاحبہ کی بات سنتا ہوں لہذا اُس کے ساتھ چل کر اُس لمبی چوڑی مہنگی غیر ملکی جیپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا پچھلی سیٹ پر بیگم صاحبہ پورے کروفر کے ساتھ براجمان تھیں فرش ٹھنڈے جوس کا گلاس میری طرف بڑھایا پھر لاکھ روپے والی نوٹوں کی گڈی میری طرف بڑھائی اور بولی پروفیسر صاحب یہ میری طرف سے نذرانہ ہے قبول فرمائیں جب میں نے انکار میں سر ہلایا کہ آپ اپنے پاس رکھیں میں نہیں لیتا تو بولیں تھوڑے ہیں تو اور لے لیں ہزار کے نوٹوں کی بہت ساری گڈیاں نکال نکال کر سیٹ پر رکھ کر بولیں یہ سارے نوٹ آپ لے لیں قبول فرمائیں میں نے پھر انکار کیا تو بولیں چلو آپ میرا کام کر دیں میں آپ کو خوش کر دوں گی جیسے آپ کہیں گے تو میں بولا کیا کام ہے تو بولیں میرا بیٹا میری بات نہیں مانتا بیگم کا غلام ہے اپنی بہو کو طلاق دلانی ہے اِس کام کے لیے میں منہ مانگے روپے دوں گی میرے انکار پر وہ مختلف آفر یں کرتی رہیں جب وہ باز نہ آئیں تو میں نے دروازہ کھولا اور نیچے اُتر گیا دولت مند بیگم صاحبہ چلی گئیں میں زندگی میں مصروف ہو گیا د س سال گزر گئے کہ ایک دن پھر وہی دولت مند بیگم صاحبہ پھر میرے سامنے موجود تھیں لیکن بہت برے حالات میں خوراک کی نالی لگی تھی ساتھ ہی پیشاب کی نالی لگی تھی اب وہ نہ نہ کھا سکتی تھیں نہ واش روم جا سکتی تھیں مجھے دیکھ کر بولیں پروفیسر صاحب میں بہت غلط انداز میں آئی تھی آج معافی مانگنے اور یہ پوچھنے آئی ہوں کہ میری بیماری کیسے ختم ہو گی بوڑھی عورت ہاتھ جوڑے صحت کی بھیک مانگ رہی تھی تو میں بولا تکبر کی چادر اتار کر عاجزی کی چادر اوڑھ لو پھر اپنی دولت کا زیادہ حصہ خدمت خلق ضرورت مندوں میں بانٹ دو تم صحت مند ہو جاؤ گی بوڑھی چلی گئی اور میں سوچنے لگا دولت کا نشہ غرور بھی کیسے انسان کو فرعون بنا دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں