0

۔،۔سرکاری آفیسر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔سرکاری آفیسر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
طاہر مسعود دس سال امریکہ میں گزارنے کے بعد پاکستان آگیا تھا وہ بلکل بدلا بدلا ساتھا دس سال پہلے والا سرکاری آفیسر بیور کریٹ عقل مند چالاک ذھین ہر قدم سوچھ کر رکھنے والا تیز طرار جو حالات کے مطابق خود کو دفوری طور پر ڈھال لیتا تھا پھر اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کر تا تھا وہ میرے پاس پندرہ سال پہلے آیا تھا جب اُس کی نوکری زوروں پر تھی چند سیاسی ٹولوں اور بڑے افسران کو ساتھ ملا کر لوٹ مار میں دن رات لگا ہوا تھاجو شخص لوٹ مار کر تا ہے اُس کا ضمیر پرندہ کبھی کبھی پھڑپھڑاتا ضرور ہے پھر پکڑے جانے کا خوف بھی لوٹ مار کر نے والے ایسے بیور کریٹ نجومیوں دست شناسیوں بابوں کے پاس جاتے ہیں وہاں پر خوب نذر نیاز تحائف دے کر پہلے ان عاملوں کا قرب حاصل کرتے ہیں پھر اپنے خوفوں کو دور کر نے کے لیے سوال کرتے ہیں میں اِس سیٹ پر کب تک ہوں میں نظر بد کا شکار تو نہیں ہو گا موجودہ گورنمنٹ کب تک چلتی نظر آتی ہے میں اپنے آفیسر کو مزید کیسے رام کر سکتا ہوں اکثریت نے گھر سے باہر معشوق بھی پال رکھی ہوتی ہے اُس کے نخرے ناراضگی دور اور رام کر نے کے طریقے وظیفے وغیرہ یہ شیطانی ذہانت کے حامل لوگ عام لوگوں کے دماغوں نفسیات سے کھیلتے ہیں زیادہ تر شراب نوشی زنا کی لت میں بھی پڑے ہوتے ہیں یہ فخریہ اپنی شراب نوشی اور زنا کے قصے دوستوں میں بیٹھ کر سناتے ہیں زیادہ تر کا تعلق دیہات غریب گھرانوں سے ہو تا ہے جب دولت کی ریل پیل پر کشش عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں بچپن جوانی کی ساری حسرتیں پوری کر تے ہیں بڑے آفیسروں کے مراثی بن کر ان کی نوکری اور عوام کے وسائل کی خوب چیر پھاڑ کر تے ہیں انہوں نے ٹھیکے دار رکھے ہوئے ہیں جو اِن کے خرچے اٹھاتے ہیں میں ایسے ہی ایک افیسر کے گھر گرمی کے موسم میں گیا تو ہر کمرے میں واش روم میں اے سی سرعام چل رہاتھا میں کہاجناب بجلی بہت مہنگی ہو گئی ہے آپ کے گھر کی کولنگ بتا رہی ہے کہ جب سے گرمی آئی ہے آپ کے سارے اے سی نان سٹاپ چل رہے ہیں تو آفیسر صاحب مسکرائے بلکہ زور دار فلک شگاف قہقہ مارا اور بولے پیر صاحب آپ کے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا میں نے کونسا بل دینا ہو تا ہے سرکاری اخراجات بل میں جاتے ہیں یا پھر دو ٹھیکے دار رکھے ہوئے ہیں جو میرے گھر کے سارے بل ادا کر تے ہیں کچن کا خرچہ اٹھاتے ہیں پھل فروٹ وغیرہ بھی انہی کے ذمے ہے میں جب کسی اچھی سیٹ پر آتاہوں تو ان کو ان کی قیمت پر ٹھیکے دیتا ہوں جس سے ان کی کسر نکل جاتی ہے وہ اچھے برے وقتوں میں میرا خیال رکھتے ہیں مجھے بھی جب وقت ملتا ہے تو میں پھر ان کا خیال رکھتا ہوں ان آفیسروں کی ایک بہت خاص چالاکی یہ ہوتی ہے کہ جب یہ کسی خاص سیٹ پر آتے ہیں تو لوگ اپنے کاموں کے لیے اِن کے پاس آتے ہیں کہ پھر اِن آنے والوں میں سے دولت مندوں کو اپنے جال میں دوستی میں پھنساتے ہیں اِن دولت مندوں میں ہر قسم کے دوکاندار فیکٹری مالکان دولت مند ہوتے ہیں اِن کو پتہ ہوتا ہے کس دولت مند کو کس طرح نچوڑنا ہے کس طرح اپنے جال میں پھنسا کر اِن کی دولت کو لوٹنا ہے عام دولت مند خود بیچارے اِس نشے میں دھت ہو تے ہیں کہ اہم سرکاری آفیسر سے دوستی ہو گئی جو کسی مشکل وقت میں نہایت ذہین چالاک ہوتے ہیں لوگوں کی نفسیات سے کھیل کر خوب خوب لوٹ مار کر تے ہیں بیورو کریسی کا حصہ ہوتے ہیں ایک دوسرے کے مفادات کا بھر پور خیال بلکہ مدد کرتے ہیں کوئی اِن کو پوچھنے والا نہیں ہو تا جس سے اِن کو پوچھنا ہو تا ہے وہ تو اِن کے ساتھ پہلے ہی ملا ہو تا ہے یہ اپنے بچوں کی شادیاں سالگرہ اُس وقت کرتے ہیں جب یہ کسی اہم عہدے پر ہوتے ہیں اُس وقت کرتے ہیں پھر اِن کو جو تحائف ملتے ہیں ان کی تعداد دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے کیونکہ یہ کسی بھی کلاس کا عطر ہوتے ہیں نہایت ذہین عقل مند شارپ اِس لیے دوسروں کو اپنی انگلیوں پہ نچاتے ہیں جب یہ طاقت اقتدار اور دولت کے جھولے جھولتے ہیں دوسروں کوبے عقل اور کیڑے مکوڑے سمجھ کر اپنے قدموں تلے روندتے ہیں جب سیٹ پر ہوتے ہیں اِن کے موبائل کی گھنٹی نان سٹاپ بجتی ہے اور یہ تکبرانہ موڈ میں فون نہیں سنتے یا کسی اہم کال کو سنتے ہیں لیکن جب یہ ریٹائر منٹ کی زندگی گزار تے ہیں اور موبائل فون پر چپ کے تالے لگ چکے ہوتے ہیں بار بار موبائل فون کی طرف دیکھتے ہیں کوئی کال نہیں آتی پھر ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں مجھے خدمت خلق میں تقریبا تیس سال ہو چکے ہیں میں اِن کے عروج و زوال کو قریب سے خوب خوب دیکھ چکا ہوں کہ عروج میں یہ کس طرح تکبر کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور پھر زوال کے وقت کس طرح بھیگی بلی بن جاتے ہیں جب یہ لوگ اپنے عروج پر ہوتے ہیں جوانی کی طاقت عہدہ دولت دماغ پر خمار چڑھ جاتا ہے اپنی اصل بھول جاتے ہیں اپنا بچپن جوانی بھی پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ خدا نے یہ کائنات انسان عروج زوال بنا کر بھول نہیں گیا بلکہ اِس کی ڈیزائنگ ایسی خود کار ہے کہ آپ اِس کی ڈیزائنگ ایسی خود کار ہے کہ آپ اِس دھرتی پر جو ظلم قہرڈھاؤ گے وہ بھر کر جاؤ گے قبر کا گڑھا قبول ہی اُس وقت کر تا ہے جب آپ جو کرو گے وہ بھر کر مٹی کے نیچے دفن ہو گے اب ہم طاہر مسعود کی طرف آتے ہیں پندرہ سال پہلے خوب لوٹ مار کر کے بہت سارا روپیہ کما کر امریکہ چلا گیا اِس کی دو بیٹیاں تھیں ایک بیٹا تھا اِس لیے بہت چالاکی سے دولت کمائی ساری امریکہ میں شفٹ کی پھر نوکری چھوڑ کر دولت انجوائے کر نے کے لیے امریکہ شفٹ ہو گیا اب دس سال بعد واپس آیا تو مجھے بار بار اکیلے میں ملنے کا کہتا رہا آج جب میں ملا تو بولا پروفیسر صاحب آپ پاکستان میں جب بھی بہت خدمت خلق خوف خدا کا احساس دلاتے لکھتے تو میں مسکرا تا تھا کہ میں اپنی ذہانت چالاکی سے کامیابی کی ساری سیڑھیاں ایسے ہی چڑھتا رہوں گا لیکن یہ میر ی بھول تھی میں امریکہ گیا جیسے ہی بچے جوان ہوئے انہوں نے نعرہ مارا ہماری زندگی پر کنٹرول نہ کریں ہمیں جینے دیں پھر میری مخالفت کے باوجود ایک لڑکی نے ہندو سے دوسری نے کالے سے شادی بلکہ بغیر شادی کے بچے پیدا کر لیے گھر چھوڑ دیا بیٹا ہم جنس پرستوں کے ہتھے چڑھ گیا میں اور میری بیوی لاکھ منع کر تے رہے بچے غیروں کے ہو گئے یہاں میری ذہانت چالاکی بلکل کام نہ آئی قدرت کا نظام حرکت میں آیا میری سزا کا عمل شروع ہو گیا تنگ آکر پاکستان آگیا آپ بتائیں اب میں کیا کروں تو میں بولا جو لوٹ مار کی ہے وہ خدمت خلق میں غریبوں میں لگاؤ شاید خدا کو ترس آجائے طاقت میں انسان بھول جاتا ہے کہ خدا کی لاٹھی بھی ہے جب وہ حرکت میں آتی ہے تو عقل لگ پتہ جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں