۔،۔امریکہ کا نیا تشخص۔ طارق حسین بٹ شان۔،۔
امریکہ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس کا منتخب صدر پوری دنیا کے معاملات پر نظر رکھتا ہے۔قومی مفادات کے ساتھ ساتھ دنیا بھرکی اقوام کے مفادات کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔امریکی معاونت اور امداد سے بہت سی کمزور اقوام اپنے قدموں پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔چوہدری دستِ شفقت رکھے تو سفرِ زندگی آسان ہو جاتا ہے۔پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو امریکی امداد نے اپنے مالی،معاشی اور صنعتی معاملات میں ترقی کی جانب محوِ سفر ہونے میں انتہائی مددو معاون بنایا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی دلی خوہش تھی کہ پاکستان امریکہ کا اتحادی بنے اور وزیر خا رجہ سر ظفراللہ نے جس طرح اس خواہش کو حقیقت کا جامہ پہنایا قائدِ اعظم نے اس پر ان کی ستائش کی۔بھارت روس دوستی کے معاہدے کے بعد پاکستان کے پاس امریکہ سے تعلقات استوار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔چین اس زمانے میں خود غلامی کا طوق پہنے ہوئے تھا لہذاس سے معاونت کا کوئی تصور نہیں تھا۔امریکہ اس دور میں سپر پاور تھا لہذا بھارت روس اتحاد کی سازشوں سے محفوظ رہنے کے لئے امریکہ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا تھا۔جو کچھ دسمبر ۱۷۹۱ کو ووقوع پذیر ہوا اسے روکنے کیلئے ہی امریکی کیمپ کا انتخاب کیا گیا لیکن بد قسمتی سے بھارت روس اتحادنے پاکستان کے حصے بخرے کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔جس بات کا خدشہ تھا وہی ہو کر رہا۔ روس کے توسیع پسندانہ عزائم سے بچنا ضروری تھا اور ایسا امریکی کیمپ میں جانے سے ممکن ہو سکتاتھا۔بھارت کی جارحیت پسندی نے پاکستان کے خلاف جس طرح ستمبر ۵۶۹۱ میں جنگی ماحول پیدا کیا امریکہ کی معاونت نے پاکستان کو ایک منی سپر پاور کے سامنے کھڑا ہونے کے مواقع فراہم کئے اور پھر فوج اور قوم نے جس طرح جرات و بسالت کی تاریخ رقم کی وہ دنیا بھر کے لئے حیران کن تھا۔،۔امریکی پشت پناہی نہ ہوتی تو پاکستان کو انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔و ہ ملک جس کے پاس دفتر ی معاملات چلانے کیلئے کرسی اور میز دستیاب نہیں تھا وہ ستمبر ۵۶۹۱ میں بھارت جیسی بڑی طاقت سے ٹکرا کر اسے شکست سے ہمکنار کرے گا تو دنیا شسدر تو ہو گی۔امریکہ اگر پاکستان کو اسلحہ اور فوجی سازو سامان مہیا نہ کرتا تو پھر ہمارا جو حشر ہوتا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔دسمبر ۱۷۹۱ میں روس اور بھارت کے گٹھ جوڑ ھ نے پاکستان کی علاقائی سالمیت کے خلاف جس طرح سازش کی امریکی سر پرستی نے بھارتی عزائم کو قابو میں رکھنے کیلئے مثبت کردار ادا کیا۔کنگ آف ڈیپلومیسی ہنجری کسینجر کی شہرہ آفاق کتا ب (ہنری کسینجر کی یادداشتیں) میں پاک امر یکی تعلقات پر بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے۔چھٹا بحری بیڑہ مشرقی پاکستان کے لئے نہیں بلکہ مغربی پاکستان کو بھارتی تسلط میں جانے سے روکنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔اس کتاب میں اس امریکی دھمکی کا بھی ذکر ہے جوامریکی صدر نکسن نے بھارتی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی کو دی تھی کہ وہ مغربی پاکستان پر حملہ سے دور رہے وگرنہ بھارتی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اندرا گاندھی پر مغربی پاکستان کو فتح کرنے کا بھوت سوار تھا۔اس کا خیال تھا کہ اس وقت پاکستان انتہائی مایوسی اور کمزوری کی حالت میں ہے لہذا اسے فتح کرنا بہت آسان ہے۔امریکی دھمکی نے بھارت کو اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنچانے سے روکا یہی پاک امریکی تعلقات کی بنیاد ہے اور جسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ساؤتھ ایشیا میں پاکستان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی نقطہ امریکی پالیسی سازوں کی نظروں میں تھا۔ایران کے بعد پاکستان ہی ان کے لئے ایک اہم ملک ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہتے اورجس کا مظاہرہ افغانستان سے امریکی افواج کے محفوظ انخلاء سے سمجھا جا سکتا ہے۔،۔روس کی افغانستان میں شکست اور اس کی علاقائی شکست و ریخت کے بعد دنیا نے ایک نئی صورت اختیار کی اور نئے ورلڈ آرڈر میں امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا تو امریکہ اور بھارت میں نئی دوستی کا آغاز ہوا جس سے پاک امریکی تعلقات کو کافی زک پہنچی کیونکہ امریکہ اب بھارتی منڈی کی وجہ سے بھارت کو علاقے میں لیڈنگ کردار دینا چاہتا تھا۔اسے چین سے بھی دھڑکا لگا رہتا ہے لہذا چین کو حدود میں رکھنا بھی ضروری ہے اور وہ بھارتی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس وقت پاکستان دو کشتیوں میں سوار ہے۔اسے بیک وقت امریکہ اور چین کے ساتھ چلنا ہے جبکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔دونوں ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔پاکستان اس وقت تنے ہوئے رسے پر چل رہا ہے جس کی وجہ سے سی پیک متاثر ہو رہا ہے اور پاکستان میں بڑے پراجیکٹ تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔افغانستان کی وہ جنگ جو ۹۷۹۱ میں روسی جارحیت کے خلاف تھی اس میں امریکہ اور پاکستان ایک صفحہ پر تھے۔امریکی امداد نے جنرل ضیا الحق جیسے سفاک حکمران پر ڈالروں کی بارش کی کیونکہ دونوں کا مدعا روس کو زک پہنچانا تھا۔روس ہمارے لئے خطرہ تھا تو اس کا سوشلزم امریکہ اور یورپ کے لئے بہت بڑا آسیب تھا جس سے جان چھڑانی ضرور ی تھی اور وہ پاکستان کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ روس کے حصے بخرے ہو ئے تو امریکہ کو صبرو قرار نصیب ہوا کیونکہ روس کا زوال اس کی پالیسی کا نقطہ ماسکہ تھا جس نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنا دیا۔اس مسند تک پہنچنے کیلئے امریکی ڈالروں نے ہر جگہ اپنا کرشمہ دکھایا۔،۔مجاہدین کی جرات و جوانمردی کے ساتھ ساتھ امریکی اسلحہ،مالی امداد اور پاکستانی معاونت روسی پسپائی کے بنیادی عنا صر ہیں۔دنیا بھر کو اپنے ساتھ نتھی کرنے کیلئے امریکہ نے غیرملکی امداد کی بے تحاشہ تقسیم کی جس نے امریکہ کی معاشی اور مالی حیثیت کمزور کیا۔اس بات کا احساس ڈولنڈ ٹرمپ کو ہے لہذا وہ ایسی امداد سے ہاتھ کھینچ لینا چاہتے ہیں۔ ستمبر ۱۰۰۲ میں نائین الیون وقوع پذیر ہوا تو امریکہ اور پاکستان ایک دفعہ پھر ایک صفحہ پر تھے۔جنرل ضیا الحق کی طرح جنرل پرویز مشرف کی سیاسی بقا بھی امریکی امداد سے نتھی تھی۔جنرل کولن پاول کا فون تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس کے بعد جنرل پرویز مشر ف کی حکومت امریکہ کے سامنے لیٹ گئی اور پاکستان کو افغانستان پر یو ٹرن لینا پڑ گیا تھا اور دہشت گردی کی نا ختم ہونے والی جنگ شروع ہو گئی تھی جس سے پاکستان دھشت گردی کا مرکز بن گیا۔اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور جنرل پرویز مشرف کی قربتیں کوئی سر بستہ راز نہیں ہیں۔امریکی صدر کا مقصد افغانستان کے مسئلہ پر پاکستان کی حمائت تھی جو انھیں مہیا کی گئی۔ اس حمائت کے بدلے جس طرح پاکستان پر ڈالروں کی بارش کی گئی وہ سب کے سامنے ہے۔ذولفقار علی بھٹو کی شہادت ایک فوجی حکومت میں ہوئی جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی فوجی حکومت کے دور میں وقوع پذیر ہوئی لیکن امریکہ لب بہ مہر رہا۔امریکہ نے انسانی حقوق کی پامالی پر بھی اپنی آنکھیں بند کر لیں جسے پاکستانی عوام نے انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا۔میاں محمد نواز شریف کو اگر امریکی مداخلت پر دس سالہ معاہدے کے بعد سعودی عرب جلا وطن کیا جاسکتا تھا تو قائدِ عوام کو ایک جھوٹے مقدمہ کی بنیاد پر دی گئی سزا کو بھی معطل کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا جس نے پاک امریکی تعلقات کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔،۔