۔،۔ایک نئی عالمی صف بندی کی بازگشت۔امن کی طرف بڑھتا قدم۔ تحریر۔ محمد آفتاب سیفی عظیمی۔،۔
دنیا ایک نازک مگر غیر متوقع موڑ پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ ایران کی جانب سے قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایک محدود اور غیر مہلک حملہ اور اس پر صدر ٹرمپ کی غیر معمولی نرم ردعمل نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کیا یہ اشارہ ہے کہ عالمی طاقتیں اب لڑائیوں سے تھک چکی ہیں؟ کیا موجودہ بحران کے پس منظر میں ایک نیا عالمی نظام ابھرنے والا ہے؟ اور کیا پاکستان جیسے ممالک کیلئے اب وہ وقت آ چکا ہے کہ وہ جنگوں سے فاصلے پر رہ کر خود کو امن کے ایک نئے ماڈل کے طور پر پیش کریں؟ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ کشیدگی، جو کبھی بڑے پیمانے کی جنگ کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی تھی، اچانک ایک نرم لہجے میں ڈھل گئی ہے۔ قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی حملہ محض علامتی رہا — نہ کوئی جانی نقصان، نہ کوئی سخت پیغام۔ اس کے برعکس، صدر ٹرمپ کا بیانیہ حیران کن طور پر مفاہمت پر مبنی رہا۔ یہ منظرنامہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عالمی قوتیں اب شاید کسی بڑی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ داخلی سیاسی دباؤ، معیشتوں پر بوجھ، اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال نے بڑی طاقتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ جنگ کی بجائے امن، معاہدات اور تعاون کو ترجیح دیں۔اسی تناظر میں دنیا تیزی سے قطب بندی کی جانب بڑھ رہی ہے — لیکن اس بار یہ صف بندی جنگ کے بجائے معاشی، ٹیکنالوجیکل، اور سٹریٹیجک تعاون پر مبنی ہوگی۔ روس اور چین کی قیادت میں بننے والا نیا عالمی اتحاد اب صرف عسکری اتحاد نہیں رہا بلکہ وہ عالمی مالیاتی نظام، توانائی کی منڈیوں اور ڈیجیٹل سیکیورٹی کے نئے سانچوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی طویل عرصے سے قائم بالادستی کو اب شدید چیلنج درپیش ہے۔یہ تمام تبدیلیاں اس نئی“ورلڈ آرڈر کی چاپ”کا پیش خیمہ ہیں جس کی بنیاد اب دنیا کے جنوب مشرقی خطوں، ایشیائی بلاکس اور علاقائی خودمختاری پر استوار ہو رہی ہے۔ سابق سوویت ریاستیں ہوں، وسط ایشیا، یا مشرق وسطیٰ — یہ سب ایک نئی صف بندی کے دھارے میں آ چکی ہیں، جہاں امریکہ اور نیٹو کا پرانا تسلط کمزور ہوتا جا رہا ہے۔اس بدلتے عالمی منظرنامے میں پاکستان کے پاس ایک تاریخی موقع موجود ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا نئے اتحادی ڈھونڈ رہی ہے، پاکستان اگر ہوشیاری، خاموشی اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے خود کو جنگوں سے دور رکھے، تو وہ نہ صرف خطے میں ایک متوازن طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے بلکہ نئے عالمی نظام میں ایک مصالحت کار، ثالث اور اعتماد کا مرکز بن سکتا ہے۔لیکن اس کردار کے لیے پاکستان کو صرف خارجی توازن نہیں بلکہ داخلی استحکام بھی درکار ہے۔ اس نئی عالمی بازیگری میں حصہ لینے کے لیے پاکستان کو معاشی طور پر خودکفیل، سفارتی طور پر غیر جانب دار اور اندرونی طور پر جمہوری و منصف مزاج بننا ہوگا۔ادھر دنیا کی نظریں بھی بدل چکی ہیں۔ اب محض جغرافیہ یا ایٹمی صلاحیت نہیں، بلکہ ایک ملک کی اندرونی گورننس، شفافیت اور عوامی نمائندگی اس کی بین الاقوامی ساکھ کا معیار ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ خود کو صرف مغرب کے ساتھ جُڑے رہنے تک محدود نہ رکھے بلکہ چین، روس، ترکی، خلیجی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ متوازن، آزاد اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات استوار کرے۔تاہم، اس عالمی کردار کو ادا کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے داخلی ڈھانچے کو بھی انصاف، شفافیت اور جمہوری اصولوں پر استوار کرنا ہوگا۔ ایک ایسا ملک جو خود اپنی عوام کو عدل، حقوق، اور شفاف نظام نہ دے سکے، وہ دنیا میں معتبر ثالث یا قیادت کے مقام کا دعویدار نہیں بن سکتا۔یہ عمل فوری نہیں ہوگا — یہ وقت اور قربانی مانگتا ہے۔ وہ طبقے، ادارے اور افراد جو سچ میں پاکستان کو عالمی سطح پر باوقار بنانا چاہتے ہیں، انہیں وقتی ذاتی فوائد اور مراعات سے دستبردار ہونا ہوگا۔ انہیں قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اصلاحات، برداشت، اور استحکام کیلئے کام کرنا ہوگا۔ تاریخ انہی کو یاد رکھے گی جنہوں نے قوم کی سمت درست کرنے میں کردار ادا کیا — اور یہی لوگ آنے والے کل کے اصل ہیرو ہوں گے، یہی اصل کھلاڑی ہوں گے۔اب وقت ہے کہ پاکستان بصیرت، تدبر اور تحمل کے ساتھ دنیا کو بتائے کہ وہ ایک نئے، پرامن، اور ذمہ دار عالمی نظام کا نہ صرف حمایتی ہے، بلکہ ایک لازمی ستون بھی بننے کو تیار ہے-