-,-جہاں سرحدوں کے ساتھ دل بھی ملتے ہیں-   فوزیہ مغل-,- 0

-,-جہاں سرحدوں کے ساتھ دل بھی ملتے ہیں- فوزیہ مغل-,-

0Shares

-,-جہاں سرحدوں کے ساتھ دل بھی ملتے ہیں- فوزیہ مغل-,-

میرا سفر اس شہر سے شروع ہوا جسے علم و ادب اور فلسفے کا گہوارہ کہا جاتا ہی فرینکفرٹ یہ وہ شہر ہے جہاں گوئٹے نے اپنی آنکھیں کھولیں اور شوپن ہاور نے اپنی انکھیں بند کی تھیں مگر فکر کے ایسے چراغ جلائے کہ اج بھی یہاں کی گلیوں میں قدم رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ ماضی اور حال ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں بلند و بالا عمارتوں جدید بینکوں اور تجارتی مراکز کے بیچ کہیں گوئٹے کے الفاظ اور شوپن ہاور کی فلسفیانہ گہرائی اپنی تمام تر حقیقتوں کے محسوس ہوتی ہےفرینکفرٹ کی مصروف فضا سے روانہ ہو کر جب ٹرین نے جنوب کا رخ کیا تو مناظر بدلنے لگے کھڑکی کے باہر پھیلے سبزہ زار چھوٹے دیہات اور دور تک پھیلے پہاڑی سلسلے گویا سفر کو ایک طلسمی رنگ دے رہے تھے اور یوں میرا یہ سفر مجھے لے آیا Weil am Rhein جرمنی کے اس خوبصورت شہر میں جو تین ملکوں کی سرحدوں کے سنگم پر واقع ہےاسٹیشن سے باہر نکلی تو سامنے ہی 8 نمبر ٹرام کھڑی تھی جو مجھے تین ملکی پل کی طرف لے جانے کے لیے تیار تھی ٹرام کی کھڑکی سے جھانکتے ہوئے شہر کے پرسکون مناظر نے سفر کو اور بھی دلکش بنا دیا دو اسٹاپ بعد ہی میرا پڑاؤ آیا تین ملکی پلیہ پل جرمنی کے شہر وائل ام رائن فرانس کے قصبے ہونیگو سوئٹزرلینڈکے شہر باسل کو جوڑتا ہے اور یہ دنیا کا سب سے طویل پیدل و سائیکل کا پل ہے اس پل کو جرمن و فرانسیسی تعاون سے تعمیر کیا گیاجس میں یورپی یونین نے بھی حصہ ڈالا تعمیر کے دوران جدید اسٹیل ڈیزائن استعمال کیا گیا افتتاح کے موقع پر ہزاروں افراد نے شرکت کی اور آج یہ جگہ صرف آمد و رفت کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور سیاحتی علامت سمجھی جاتی ہے جہاں تین ملکوں کی سرحدیں بھی ملتی ہیں اور لوگوں کے دل بھی۔پل کے اوپر پہنچتے ہی یوں لگا جیسے میں محض ایک پل پر نہیں بلکہ تین ملکوں کی سرزمین پر کھڑی ہوں دریائے رائن کے اوپر بنا یہ پل ناصرف جرمنی فرانس اور سوئٹزرلینڈ کو جوڑتا ہے بلکہ یہاں کی فضا میں تین ملکوں کی اپنائیت کی گہری جھلک محسوس کی وہ یہاں کے لوگ تھیانتہائی پرخلوص اور ملنسار۔ جب میں اس پل پر کھڑی تھی تو اچانک مجھے ایشیا اور خصوصاً اپنے وطن عزیز پاکستان کی یاد آئی دل میں یہ خواہش ابھری کہ کاش ہمارے خطے میں بھی سرحدیں صرف زمین پر ایک جغرافیائی لکیر کی مانند ہوں دلوں کو تقسیم کرنے والی دیوار نہ ہوں سرحدیں انسانوں نے کھینچی ہیں مگر دلوں کو کوئی لکیر جدا نہیں کر سکتی اصل پل وہ ہیں جو محبت خلوص اپنائیت اور فن و ثقافت کی ہم آہنگی کے لیے تعمیر ہوتے ہیں ایسے پل جو وقت اور فاصلے کو مٹا کر انسانیت کو قریب لے آتے ہیں جہاں دکھ سکھ میں سب ایک ہو جائیں خوشی اور غم سب کے درمیان بانٹے جائیں اس لمحے دل عجیب طرح مطمئن ہوا کہ میرا وطن پاکستان ترقی کی راہ پر جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے وہ دن دور نہیں جب ہمارے ہاں بھی ایسی ہی فضا قائم ہو گی جہاں امن بھائی چارہ اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوگی۔ اس کے بعد مجھے میرا سفر وق لے آیا ویٹا کیمپس تک جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد عجائب گھر ہے یہاں دنیا کے مشہور معماروں کے شاہکار ایک ہی جگہ جمع ہیں ان میں سب سے نمایاں ہے Vitra Fire Stationجسے میری پسندیدہ عظیم معمار زوہا حدید نے ڈیزائن کیا یہ ان کی پہلی تعمیر شدہ عمارت تھی اس کے زاویے اور خطوط دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے عمارت میں حرکت ہے جیسے دیواریں ہوا کے دوش پر کھڑی ہو یہاں کھڑے ہو کر میرا دل مجھے واپس ماضی میں لے گیا گوتھک فنِ تعمیر کے عظیم شاہکاروں کی طرف جو ہمیشہ سے میرے ذوق کا حصہ رہے ہیں بارسلونا کا عظیم سگراڈا فیمیلیا چرچ اور کولون کیتھیڈرل کے فلک بوس مینار یاد آ گئے جن میں روحانیت اور بلند خیالی جھلکتی ہیاور پھر سامنے کھڑی زوہا حدید کی عمارت نے مجھے احساس دلایا کہ فن صرف ماضی میں قید نہیں وہ حال اور مستقبل میں بھی نئی شکلوں کے ساتھ زندہ رہتا ہے واپسی کے سفر میں میری نظر ایک اور پل پر پڑیFriedensbrücke اچانک مجھے یاد آیا کہ فرینکفرٹ میں دریائے مائن پر بھی اسی نام کا ایک پل ہے یہ مماثلت عجیب سی خوشگواری کا سبب بنی اسی کے قریب میری نگاہ ایک جدید شاپنگ سنٹر پر جا ٹھہریDreiländer Galerie باہر سے دیکھنے پر یہ مجھے بالکل فرینکفرٹ کے مشہور شاپنگ مال مائی سایل کی یاد دلا رہا تھا مگر میں اپنا وقت خریداری میں ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے اندر جانے کے بجائے اس کے دوسرے رخ پر نکل آئی۔ وہاں ایک الگ ہی دنیا میرا انتظار کر رہی تھی ایک رنگا رنگFest کے اسٹال سجے ہوئے تھے جہاں جرمنی فرانس سوئٹزرلینڈ اٹلی اور تھائی لینڈ کے کھانے نمایاں تھے ہر اسٹال اپنی ثقافت کی جھلک لیے اپنے اپنے قومی جھنڈوں کے ساتھ کھڑا تھا جہاں خواتین و نوجوان لڑکیاں نہ صرف اپنے روائتی ذائقے بلکہ لباس اور انداز سے اپنی تہذیب کی نمائندگی کر رہی تھیں قریب ہی موسیقی کا پروگرام جاری تھا کچھ لمحوں کے لیے مجھے ایسا لگا جیسے میں چند گھنٹوں میں بیک وقت کئی ملکوں کی ثقافت ذائقے اور روایاتی میزبانی کے حصار میں ہوں یوں یہ محض ایک سفر نہیں تھا یہ ایک فکری اور جمالیاتی سفر تھا جس نے مجھے گوئٹے اور شوپن ہاور کی فکری دنیا سے لے کر Dreiländerbrückeکی سرحدی ہم آہنگی اور پھر زوہا حدید کے جدید خوابوں تک پہنچادیا تھا۔

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں