۔،۔تارکین وطن کے مسائل۔اے آراشرف۔،۔


جرمنی سے سید شہبازحسین شاہ انجم نے اپنے ایک خط میں ریاست مدینہ کے قیام کے دعویدار وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ تارکین وطن کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھنے کی بجائے اُنکے لئے کم از کم بنیادی سہولیات کی فراہمی کو تو یقینی بنائیں کہنے کو تویہ معمولی بات ہے مگر یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک شخص ایک عرصے کے بعد وطن عزیز آتا ہے تو اُسکے دیارغیرمیں استعمال شدہ موبائل فون پربھی ٹیکس لگاکراُسکی خدمات کامعاوضہ وصول کیا جاتا ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔کیا اُسے اتنا بھی حق نہیں کے اپنے ساتھ لایا ہوا فون بغیر جرمانہ کہ استعمال کر سکے؟پھر ریاست مدینہ نے کونسی ایسی سہولت کا اعلان کیا جس پر تارکین وطن فخر کر سکیں؟ تبدیلی سرکارکی حکومت ہو یا حزب اختلاف کی یہ سب لوگ بڑی اچھی طرح جانتے ہپں کہ تارکین وطن کی حثیت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے تارکین وطن بیرون ملک میں اپنی محنت و مزدوری سے کمائی دولت جو تقریباََ ۲۲ ارب ڈالڑ سے زایدکی ہے ہر سال وطن عزیز کو ارسال کر کے پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن انکے احسانات کا بدلہ اُنکاشکریہ ادا کرنے کی بجائے بدلے میں انکی املاک پر رشتے داراپنا حق رشتہ داری استعمال کرتے ہوئے جائیدادوں پر زبردستی قبضہ جما کر۔پنجابی کی کہاوت۔کہ اَگ لین آئی گھروالی بن بیٹھی۔کا کردار ادا کرتے ہوئے سالم مرغی ہی ہڑپ کرنے کی فکر میں مصروف رہتے ہیں جبکہ قبضہ مافیا نے علیحدہ ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر رکھی ہے اور ریاستی ادارے بھی اُنکی دیدہ دلری اور غنڈہ گردی کے آگے بے بس نظر آتے ہیں کیونکہ اُنہیں بھی کسی نہ کسی ایسی شخصیت کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جو اُنکے ناجائز کاموں کوبھی جائز قرار دے دیتے ہیں اور وہ اپنی ستم وتشدد کی پالسی اپنا کر زبردستی کی کند چُھری سے مطلوبہ بکرے ذبیح کرتے رہتے ہیں اسطرح وہ ان مظلوموں کے حقوق پرڈاکہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اورریاستی ادارے بھی مظلوموں کی دادرسی کرنے کی بجائے ظالم کے ہم نوا بن جاتے ہیں اگر کوئی سخت جا ن اپنا حق حاصل کرنے کیلئے قانونی کاروائی کا سہارا لیتا ہے تواسے جان سے مار دینے کی دھمکیاں آنا شروع ہوجاتی ہیں اور مختلف حربوں سے اُنہیں ہراساں کیا جاتا ہے یا پھر اُنہیں جھوٹے مقدمات میں اُلجھادیا جاتا ہے اوروہ بیچارہ۔مرتا کیا نہ کرتا۔کے مُترادف مجبو راََوہ اپنے حق سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اپنے ویزا کے ختم ہونے کیخوف کی بنا پرمقدمہ بازی سے گریزکرتاہے یا پھریہ سوچ کر کہ۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔اپنی نصف سے زیادہ املاک کا تاوان ادا کرکے صبر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت تارکین وطن کے حقوق کاتحفظ کرنے کے بلندبانک دعوئے اور سبزباغ توضرور دکھاتی ہے مگر یہ سب وعدے صرف اورصرف بیانات تک ہی محدودہوتے ہیں لیکن عملی طورپر ابھی تک کسی بھی حکومت نے کوئی مُثبت اورٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے جس سے تارکین وطن کوکوئی مُثبت ریلیف مل سکے ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان تارکین وطن کے مسائل کے حل کیلئے کافی سنجیدہ نظر آتے ہیں یہ بات وقتناََفوقتناََ اُنکے بیانات سے بھی ظاہر ہوتی ہے مگراُس وقت تک تارکین وطن کو ریلیف نہیں مل سکتی جب تک یہ حکومت صدارتی ارڈنینس کے ذریعے ناجائز قبضہ کرنے والوں کے خلاف ناقابل ضمانت اور قابل دخل اندازی پولیس کوئی بل پاس نہیں ہو جاتا ایسا قانون ہی قبضہ مافیا کو لگام ڈالنے میں اہم ثابت ہوگا اور تارکین وطن کی مشکلات میں بھی کمی آئے گی اگر وزیراعظم پاکستان واقعی تارکین وطن کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ ہیں تو پھر فوراََ اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروائیں اُمید ہے وزیراعظم پاکستان ایسا بل پاس کروانے کیلئے سنجیدگی غور فرمائینگے۔