۔،۔کردار یا اقتدار۔اے آراشرف۔،۔
۔،۔کردار یا اقتدار۔اے آراشرف۔،۔
پاکستان کی ۳۷سالہ تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو حصو ل اقتدار کی دوڑ میں ایسے ایسے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں جہنوں نے اپنے کردار کو داغدار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور وہ بڑی آسانی سے اپنے کردار کی قربانی دیکراقتدارکی کرسی پربراجمان ہوتے رہے ہیں اور پھر اشرافیہ کی تختی گلے میں لٹکا ئے پھرتے ہیں۔ کہاوت ہے کہ۔نوسو چوہے کھا کے۔بلی حج نوں چلی۔ہمارے نام نہاد سیاسی راہنما یا ایسے حکمران جو شب خون کے ذریعے عوام کی گردنوں پر سوار ہو جاتے رہے ہیں اُنکے مُنہ سے آئین اور قانون کی بالا دستی کی باتیں مذاق معلوم ہوتی ہیں وہ جو کہتے ہیں۔بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی میرا مقصد تاریخ بیان کرنا ہرگز نہیں مجھے صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ کس طرح لوگ اقتدار کی خاطر اپنا کردار داؤ پر لگاتے رہے ہیں جس ریاست میں بڑے اجتماعوں کے دوران ملک کے دو منتحب وزیراعظموں کو دن دہاڑے گولیاں مار کر شہید کر دیا جائے۔ جہاں کاربار ریاست چلانے کیلئے اپنی پسند کا آئین اور قانون نافذ کردیا جائے وہاں عدل و انصاف مہیا کرنے کے دعوئے خواب ہی تصور کئے جاتے ہیں۔جب صدر ایوب خاں مرحوم نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اپنی سہولت کیلئے بنیادی جمہوریت کا نظام رائج کروایا جسمیں صرف ۰۸ ہزار بی ڈی ممبروں کوصدر پاکستان منتحب کرنے کا اختیار دیا گیاپھر جناب یحییٰ خان اقتدارپر قابض ہوئے توہمیں سقوط ڈھاکہ جیسا ناقابل فراموش زخم اُٹھانا پڑا پھراقتدار شہید ذوالفقار علی بھٹو کومنتقل ہوا جہنوں نے اپنی قائدانہ صاحیتوں اور انتھک محنت سے مادر وطن کونہ صرف ۳۷ کا آئین دیا بلکہ ازلی دشمن بھارت میں قید ۰۹ ہزارفوجی نوجوانوں کو بھی رہاکروایامگر جلد ہی آمر جنرل ضیاالحق کی نظر بداُسکے تمام ترمنصوبوں کو کھا گئی اور ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا نے والے منتحب وزیراعظم کو ناکردہ گناہوں کے جرم میں پھانسی دے دی گئی او رپھر ستم ظریفی یہ ہے کہ انمیں سے کسی ایک کو بھی آج تک انصاف نہیں ملایہ پوری قوم کے لئے باعث شرم ہے کہ ابھی قائداعظم محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ کے قبر کی مٹی بھی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ارباب اقتدار نے قائد کے تمام تر فرمودات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں قائم کرنا شروع کر دیں اور ایک عرصہ تک ریاست بغیر آئین اور قانون کے کاروبار مملکت چلاتی رہی حکومت کی رٹ اسقدر کمزور تھی کہ مادر وطن کے پہلے وزیراعظم کے قاتلوں کا بھی سراغ لگانے میں ناکام رہی۔کردار۔ ایک بہت ہی اہمیت کا حامل لفظ ہے لغت میں اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں جیسے۔کام،اعمال،عادات،طریق طرز،قاعدہ،چلن، وغیرہ۔جب کسی شخصیت کوجانچنا یا پڑکھنا ہوتا ہے تو اُسکے کردار ہی کوسامنے رکھ کرکوئی رائے قائم کی جاتی ہے اسیطرح لفظ اقتدار کے بھی لغت میں کئی معنی بیان کئے گئے ہیں۔جیسے مقدرت،زور، طاقت،اختیار،حکومت،شان و شوکت وغیرہ آج ہم جس موضوع پر بحث کرنے جا رہے ہیں یاجسارت کر رہے ہیں وہ ہمارے وطن عزیز میں ہماری سیاسی جماعتیوں اور ریاست کے بااختیار مُعتمدقومی اداروں کا کردار ہے جن کا ملک کی سیاست میں با لواسطہ یا بلاواسطہ رول رہا ہے۔اقتدار پر قابض ہونے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جسکی ضرب المثل بھی مشہور ہے۔جسکی لاٹھی اُسکی بھینس۔یعنی لاٹھی گولی کی سرکار۔ دنیا کی تاریخ میں حکمرانی کا شرف بھی زیادہ تر اُنہیں کے حصے میں آتا رہا جو سب سے زیادہ ظالم جابر اور طاقتور تھے اور جو خلق خدا کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مثل دینے کی قوت رکھتے تھے۔جیسے۔ہلاکو خاں، چنگیزخاں اور ہٹلر کا دور یا پھر اورنگ زیب عالمگیر کا دور حکومت جس نے اپنی نیک نامی اور کردار کی قربانی دیکر اقتدار کی ہوس میں اپنے سگے بھائیوں کو قتل کروا دیا تھا اور اپنے باپ کو قیدکردیا تھا۔اسیطرح اسلامی تاریخ بھی ظلم وستم کی داستانوں سے بھرپور نظر آتی ہے جہاں باکردار اور نیک نام افراد کو اپنی عزت نفس کو بچانے کے لئے گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی دوسرا طریقہ جو آجکل مہذب دنیا میں رائج ہے وہ جمہوری انداز حکومت ہے یعنی عوام کی رائے سے قائم کردہ حکومت کا ہے مہذب اورترقی یافتہ ممالک میں تو یہ نظام کامیابی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے مگرترقی پذیر اور غریب ممالک میں اس نظام کو دیمک لگ چکا ہے اس میں شک نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے وطن عزیز پر دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار پر قابض رہی ہیں مگر اب تحریک انصاف کی حکومت ہے اقتدار کی رسہ کشی میں حزب اختلاف اورتبدیلی سرکار دونوں ہی بھول چکے ہیں کہ اصل اہمیت کردارکی ہوتی ہے جبکہ اقتدار کا۔ہُما۔اگر آج میرے سر پر سجا ہے تو کل کسی دوسرے کہ سر کی زینت بھی بن سکتا ہے اس پربھروسہ یا گمان بیوقوفی کے زُمرے میں آتا ہے کسی زمانہ میں قیصروکسرٰی کی شہنشاہی اور اقتدار کے بڑے چڑچے تھے پھر اسکی جگہ برطانوی راج نے لے لی بزرگوں سے سُنا کرتے تھے کہ اُنکی اتنی وسیع و عریض حکومت تھی کہ اُس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ذرا تھوڑا سابقہ ا دواڑ کا جائزہ لیں تو نمرود اور فرعون دو ایسے حکمران تھے جہنوں نے اپنی خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھااور خلق خدا کو اپنے ظالمانہ طرز حکمرانی کے زور پر اُنہیں خدا ماننے پر مجبور کرتے تھے جو ایسا نہیں کرتے تھے اُنہیں عبرتناک سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا تھا بنی اسرائیل کے واقعات اللہ کی کتاب قران مجید میں تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے ہونہار وزیراعظم عوام سے جو وعدے کر کے اقتدارسنبھالا تھا اُنہیں پورا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ہمیں کائنات کے سب سے اعلیٰ وارفع انسان ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کر نا پڑے گا اور اُنکی سُنت طیبہ کو اپنانا ہوگا پھردیکھیں اقتدارکی دیوی قدم بوسی کیلئے ہمہ وقت تیارنظرآئے گی۔ہمارے نبیﷺ مسلم اُمہ کیلئے بالخصوص اور کائنات کے ہر فرد کیلئے بالعموم ایک رول ماڈل کی حثیت رکھتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ اُنﷺکے تمام تر اصولوں اور کردارکو مشعل راہ بنا کر اُن پر مِن و عن عمل کریں۔