۔،۔۔این آر او دے ہی دیں۔اے آراشرف۔،۔
۔،۔۔این آر او دے ہی دیں۔اے آراشرف۔،۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تحریک انصاف کی حکومت کب تک اپنی ناکامیوں کا الزام سابقہ حکومتوں پر ڈال کر عوام کوجھوٹی تسلیاں دیتی رہے گی یہ حققت ہے کہ صدا انسان پرایک سا وقت نہیں رہتا وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اقتدارو وزوال یا اُونچ نیچ یہ سب مکافاتی اعمال ہیں ہر کسی کو دیر یا بدیر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوتا ہے جو انسان بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔کل کے حکمران آج کے ملزم یا مجرم قرار پاجاتے ہیں حقیقی اور دائمی حکمرانی صرف صرف رب ذوالجلال کی ہے وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت۔ جسے چاہے اُس کے سر پر تاج شاہی سجا دے اور جسے چاہے پل بھر میں تونگر سے فقیر بنا دے جب سے ہمارے محبوب وزیراعظم جناب عمران خان نیازی کے سر پر۔سائیہ بال ہما۔پڑا ہے اُنکے مزاج میں بھی حاصی تبدیلی رونما ہوئی ہے سُنا تھا کہ۔ سب سے طاقتور نشہ اقتدار کا ہوتا ہے۔جس کسی کو بھی اقتدار کی مضبوط کرسی یا بادشاہت کا تخت نصیب ہوا ہے اُسکی گردن میں بھی سریافٹ ہوجاتاہے جو اُسے جھکنے کے عمل سے روکتا ہے۔لیکن یہ بھی ایک حققت ہے کہ پھلداردرخت ہمیشہ جھکا رہتا ہے اور جو جھکتا نہیں وہ پھرٹوٹ جاتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ جناب عمران خان عقل ودانش سے فیصلے نہیں کرتے بلکہ میں تو یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اچھی بات اگر کسی دشمن کی بھی ہو تو اُسے اپنانے میں دیر نہیں کرنا چاہیے میں اس نازک صورت حال کے پیش نظرچھوٹی مُنہ بڑی بات کے مُترادف میں اس موقع پر سابق صدر جناب آصف زرداری کی مثال دے سکتا ہوں میری اس بات سے بہت سارے لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ حققت ہے کہ سابق صدر نے مفاہمت کی پایسی اپنا کر اکثریت نہ ہونے کے باوجود پانچ سال تک حکومت کی مدت پوری کی تھی۔ تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ جناب عمران خان نے اپنے۶۲۱ دن کے دھرنوں اور اپنی ۲۲سالہ سیاسی جدوجہد کے دوران عوام سے جو وعدے اور دعوئے کئے تھے وہ ایفا ہونا تو دور کی بات۔ اسوقت مہنگائی کے بے قابو جن کو بھی حکومت کنٹرول کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے بلکہ یوں کہیں کہ۔ عام آدمی کے مُنہ سے نوالہ تک بھی چھین لیا گیاہے روزمرا کے استعمال کی اشیا مثلاََ آٹا،چینی،پیاز اورسبزیاں وغیرہ غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں اس میں شک نہیں کو کہ جناب عمران خان کو عوامی مینڈیٹ مادر وطن سے بدعنوانی کے خاتمہ اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا ملا تھامگر اب تک کی کارکردگی کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو دو جملوں کا سوا ہمیں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی اور یہ دو جملے ہمارے محبوب لیڈر کا تکیہ کلام بن چکے ہیں اور جوبچے بچے کو زبانی یاد ہیں کہ۔میں این آراو۔نہیں دونگا اور۔ گھبڑانا بالکل نہیں۔کا تقرار با ربار سُننے کو ملتے ہیں جہاں تک دھاندلیوں اور بدعنوانیوں میں ملوث افراد کا تعلق ہے اُنہیں بے شک۔ این آر او۔نہ دیں مگر بیچاری عوام کو تو جس نے آپ سے بہت ساری اُمیدیں باندھ رکھیں تھیں اُنہیں تو کم از کم۔این آراو۔دے ہی دیں۔میں پہلے بھی غالباََ اپنے کسی کالم میں تحریر کر چکا ہوں کہ غریب آدمی کی ساری محنت اور کمائی اپنے اہل و عیال کے پیٹ کی آگ بجھانے کی دوڑ میں کچن سے شروع ہو کچن ہی میں دفن ہو جاتی ہے ایک مزدور جو سارادن محنت کر کے زیادہ سے زیادہ پندرہ سے بیس ہزار کما لیتا ہے اُاس میں سے مکان کا کرایہ،بجلی کا بل اور گیس کا بل ادا کرنے کے بعدذرا سوچیں اُسے کچن کا پیٹ بھرنے کیلئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔یقیناََ ہرفرد کی طڑح جناب عمران خان نے بھی ریاست مدینہ کے قیام کا خواب دیکھا ہوگامگر یہ بھول گئے جس طاہرو مطاہر ہستی نے ریاست مدینہ کا تصور دیا تھا وہ کوئی عام انسان نہ تھے اُنہیں خدا نے پوری انسانیت کیلئے رحمت بنا کر بھجا تھا جو ہم سب کے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی تھی جہنوں نے چالیس سال تک کفار مکہ میں رہ کر اس انداز سے تبلیغ کی کہ کفار کو یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ اُن ساتھ رہنے والا کوئی معمولی انسان نہیں وہ نبی آخرالزماں ﷺ ہیں جہنوں عدل و انصاف کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک مشعل راہ کی حثیت رکھتی ہیں ہماری دعا ہے کہ ہمارے وزیراعظم سُنت نبیﷺ پرعمل کرکے ریاست مدینہ کا خواب پورا کریں سردست تو مہنگائی کی سونامی سے نجات دلا کر عوام کوہی۔این آراو۔ دے دیں –