۔،۔بی بی شہید کی سالگرہ۔اے آراشرف۔،۔
۔،۔بی بی شہید کی سالگرہ۔اے آراشرف۔،۔
تاریخ کے آئینے میں اگر دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے جس کی ہم سب آج سالگرہ منا رہے ہیں وہ عالم اسلام کی پہلی منتحب خاتون وزیراعظم تھیں مخترمہ بے نظیر بھٹو کی کامیابیوں کی فہرست اوراُنکے زریں اقوال جن کا تذکرہ سینٹر سید سجاد بخاری نے اپنی۔۔کتاب۔۔72-دن۔۔میں بھی تحریر کئے ہیں جن میں چند ایک قارئین کی نظر کرتا ہوں ۱۔ہر آغازکا ایک انجام ہوتا ہے اور ہر انجام کا ایک آغاز ہوتا ہے اس لئے مسلمان کا ایمان ہے۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔۲۔پاکستان پیپلزپارٹی مظلوموں اور پسے ہوئے طبقات کی پارٹی ہے یہ پارٹی استحصال زدہ اور امتیاززدہ افراد کی پاڑٹی ہے یہ اُن لوگوں کی پارٹی ہے جو معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں۔۳۔،ہم نے اپنی زندگیاں۔آزادی،اپنی جوانی،اپنا ذہنی سکون آزادی جمہوریت کے لئے قربان کر دیئے۔ بی بی شہید کی داستان غم اور صعوبتوں کی تفصیل بھی اُتنی ہی پُردرد،غمناک اور پُراشوب نظر آتی ہے بی بی شہید کاچھ افراد پر مُشتمل ایک چھوٹا سا خوشحال کُنبہ تھا جسے حب الوطنی کے جرم میں طاغوتی قوتوں کی سازشوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیاشفیق باپ کوپاکستان کو ناقابل تسخیرقلعہ بنانے اور ناکردہ گناہونں کے جرم میں پھانسی دے دی گئی جبکہ دونوں بھائیوں ایک کو کراچی اور دوسرے کوفرانس میں شہید کر دیا گیا مخترمہ صنم بھٹو نے سیاست سے کنارہ کش رہ کربرطانیہ میں سکونت اختیار کر لی اب اس خاندان کی آخری رکن مخترمہ بے نظیر رہ گئیں تھیں جو اپنے باپ شہید ذوالفقارعلی بھٹوکے خواب اور مشن کی تکمیل چاہتی تھیں اُنہیں ۷۲ دسمبر۷۰۰۲ کو روالپنڈی کے لیاقت باغ میں بے دردی سے شہیدکر دیا گیا۔مخترمہ اسقدر بہادر،نڈراور اعصاب کی مضبوط ترین خاتون تھیں۔ سُنا ہے کہ امریکن ایڈورڈ کینڈی نے اپنے دو بھائیوں کے قتل کے بعد صدارت کی خواہش کو ہمیشہ کیلئے دفن کردیا تھا لیکن مخترمہ جان لیوا حملوں کے باوجود اپنے باب کے مشن کو بہادری اور مضبوط اعصاب کے ساتھ جاری رکھنے کا عزم کر چکی تھیں۔ آج دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے موجود ہیں اپنی قائد مخترمہ بے نظیر کی ۸۶ویں سالگرہ بڑی دھوم دھام اور شان وشوکت سے منا رہے ہیں دوسرے ہموطنوں کی طرح جرمنی کے مختلف شہروں میں بھی بی بی شہید کی سالگرہ کے کیک کاٹے گئے۔فرانکفرٹ میں اس پروقار تقریب کا اہتمام پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے صدر سیدزاہدعباس،نائب صدر جناب کفائت حسین سلہریا،سیکرٹری جنرل جناب محمد فاروق چوہدری،مرکزی راہنما جناب راسدنسیم میرزا،جناب علی اکرام یونس اورجناب عنصربٹ نے کیااس تقریب کے مہمان حصوصی پاکستان ایسوسی ایشن کے صدر سید وجیع الحسن تھے۔اس موقع پر رکن قومی اسمبلی جنا ب قادر خاں مدوخیل،مخترمہ شاہدہ رحمانی اور جناب ندیم اصغرکائرہ نے فون پر جیالوں سے خطاب کیا۔بہت سارے دیگر پارٹی عہدیداروں کے علاوہ جناب حسنیں رضوی اور سید جعفر حسین نے بھی خطاب کیا اور جناب بلاول بھٹو کی انقلابی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا میری نظر میں وہ لوگ بہت عظیم اور انتہائی قابل صد اخترام ہوتے ہیں جہنیں اُنکے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی لوگ اپنے دلوں میں بسائے رکھتے ہیں پھر شہید کاتو مقام ہی بہت بلند اور سواہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ خبردار شہید کو مُردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پارہے ہیں۔بی بی شہید وہ صرف نام ہی کی بے نظیر نہ تھیں بلکہ حب الوطنی اور کردار کی بھی بے نظیرتھیں۔وہ جو کہتے ہیں۔جن کے رتبے ہیں سوا۔اُن پہ سوا مشکل ہے۔ مخترمہ کی زنندگی کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ۱۲ جون ۳۵۹۱کو پیدا ہوئیں اورہم کہہ سکتے ہیں اُنکی شاندار زندگی کا دور بس ۴۷۹۱تک ہی محدود تھااس کے بعدتاریکی کا آغاز ہو گیا تھا۔شہید ذوالفقار علی بھٹواُنہیں ہی اپنا سیاسی جانشین تصور کرتے تھے اور شاید اسی مقصد کے حصول کیلئے اپنے وزارت عظمہ کے دور میں وہ اُنہیں شملہ مذکرات کے موقع پر ساتھ لیکر گئے تھے پھر جب وہ اکسفورڈ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آئیں تو ۵جولائی۷۷۹۱ کو جنرل ضیاالحق نے حکومت کا تختہ اُلٹ کر بھٹو شہید کو حراست میں لے لیا اس کے بعد مخترمہ پر صعوبتوں اورمصبتوں کے تیر برسنے شروع ہوگئے۔جو امر ضیاالحق کی حکومت تک جاری و ساری رہے مگر مرتے مرتے دونو ں باب بیٹی اپنے مادر وطن کوایٹم بم اور مزائیل ٹکنالوجی کا تحفہ دے گئے۔شریک حیات جناب آصف علی زرداری کو بھی بی بی شہید سے شادی کے جرم میں قید اورطرح طرح کی دیگر صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اُنکی زبان کاٹنے کی بھی کوشش کی گئی اور یہ سلسلہ جنرل ضیاالحق سے لیکر سابق صدر جناب پرویز مشرف تک ہر ایک حکومت نے اُن پرتشدد سے لیکر کردار کُشی تک کا ہر ہربہ آزمایا مگر اُنکے عزم اور ارادے کوکمزور نہ کرسکے یہ سب کچھ دیکھ کر ہی مرحوم مجید نظامی جیسے عظیم صحافی نے اُنہیں مرد حر کا خظاب دیاتھا۔جناب آصف علی زرداری بھی اپنی شریک حیات کی طرح مضبوط اعصاب کے مالک اور مرد آہن ثابت ہوئے بی بی کی شہادت کے موقع پراگر وہ چاہتے تو سندھ میں ایک زبردست تحریک شروع کرسکتے تھے مگر اس موقع پر۔پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اُنہوں نے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیااب جناب بلاول بھٹو بھی اپنی ماں اور ناناشہید ذوالفقار علی بھٹوکے نظریہ کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔