۔،۔تارکین وطن اور قبضہ مافیا۔اے آراشرف۔،۔


وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے جس بہادری اور دانش مندی سے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان سے امریکی افوج کے انخلا کے موقع پر امریکہ کو اپنے ہوائی اڈے فراہم کرنے کے سوال پردوٹوک الفاظ میں انکار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین کو استعمال کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دے گا کیونکہ پاکستان پہلے ہی پرائی جنگ میں اپنی سترہزار انسانی جانوں کے علاوہ تقریباََڈیڑھ سو ارب کی املاک کا نقصان برداشت کر چکا ہے وزیراعظم نے یہ بیان دیکر ہر پاکستانی کا دل جیتا ہے۔اور اورسیز پاکستانی بھی اپنے وزیراعظم سے توقع کرتے ہیں کہ اُنکی املاک پر جو۔قبضہ مافیا۔اپنی غنڈہ گردی اور طاقت کے ذریعے زبردستی قبضہ جما لیتے ہیں اُنکے خلاف اسمبلی سے ایک ایسا ناقابل ضمانت بل یا ارڈینس بھی پاس کروائیں جو قابل دست درازی پولیس ہو۔تاکہ ایسا جرم کرنے والوں کو پولیس فوری طورپرگرفتار کرسکے اور مضروب افراد کی املاک کا قبضہ واپس دلا سکے۔ اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے دل میں تارکین وطن کے مسائل کے فوری حل کیلئے ایک جذبہ،ہمدردانہ سوچ اور انقلابی اقدام اُٹھانے کی خواہش موجود ہے جسکا عملی ثبوت اُنہوں نے تارکین وطن کوووٹ کا حق دینے کا بل لا کر دیا ہے مگر کچھ ایسے سنجیدہ مسائل ہیں جو تارکین وطن کو ہمیشہ درپیش رہتے ہیں سب سے بڑا سنجیدہ اور اہم مسئلہ تارکین و طن کی املاک پر۔ قبضہ مافیا۔کا زبردستی قبضہ جماکر اُنہیں ایک عدالتی حکم امتناعی کے سہارے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نا اور خوار کرنا ہوتا ہے تارکین وطن کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ دیر پاکستان میں رک نہیں سکتے اُنہیں ہر صورت اپنے کام پر واپس جانا ہوتا ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دیارغیر میں ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے مقدمہ کی اُس طریقے سے پیروی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جس طریقے اور ماحول کی پاکستانی عدالتی نظام میں ضرورت ہوتی ہے اُنکی اسی کمزوری کا مخالف فریق فائدہ اُٹھانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور مقدمہ کی کاروائی کو تاریخ پر تاریخ ڈلوا کرزیادہ سے زیادہ تاخیرکر کے اس مقدمہ کو اپنی مرضی کیمطابق چلوانے کی کوشش کرتے ہیں اوردور بیٹھا مدعی بیچارہ عدل و انصاف کی اُمیدمیں انتظار کر کر کے یا تو تھک ہاڑ کر مقدمہ کی پیروی چھوڑ دیتا ہے یا پھر اس غم میں دنیا ہی سے کوچ کر جاتا ہے اور ان دونوں ہی صورتوں میں۔چھڑی خربوزہ پر چلے یا خربوزہ چھڑی پر چلے۔فائدہ۔قبضہ مافیا۔ہی کو پہنچ جاتاہے بالکل اس ضرب المثل کی طرح کہ۔نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔۔ اور پھر۔ قبضہ مافیا۔کے۔پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں۔والا معاملہ ہو جاتا ہے۔اس ساری اذیت سے بچنے کیلئے تارکین وطن آسان طریقہ یہی تصور کرتے ہیں کہ۔مرتا کیا نہ کرتا۔مجبور ہو کر اپنی املاک۔اونے پونے داموں۔ فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔میں ذاتی طور پر بھی۔ ایک ایسے ہی۔ قبضہ مافیا۔کی ہوس کا شکار ہوا ہوں جس نے زبردستی میری اراضی پر قبضہ جما لیا میں نے مقدمے بازی سے بچنے کی غرض سے کچھ رقم پیشگی لیکراس سے بیعہ نامہ تحریر کر لیامگراب وہ نہ تو مطلوبہ رقم ادا کررہا ہے اور نہ ہی اراضی کاقبضہ واپس دے رہا ہے بلکہ رجسٹری کے بغیر ہی اس نے میری اراضی دوسرے افراد کو فروخت کرکے ناجائزتجاوزات کھڑی کر دی ہیں۔میں نے اس سلسلہ میں۔کونصلیٹ جنرل پاکستان کی وساطت سے دو درخواستیں وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں فوری کاروائی کیلئے ارسال کی ہیں اس سلسلے میں کونصلیٹ جنرل اوراُنکے عملے کا مشکور ہوں جہنوں انتہائی ہمدردی کے ساتھ میری دونوں درخواستوں کو وزیراعظم پاکستان کے اورسیزپاکستانی شکائت سیل کو ارسال کر دیں ہیں اور اُمید کرتا ہوں کے وزیراعظم پاکستان اور متعلقہ ادار ے میری درخوستوں پر فوری کاروائی کرکے عدل و انصاف سے فوری فیصلہ صادر فرمائیں گے اور قبضہ مافیا کو قانون کے مطابق سزادلوائیں گے۔