۔،۔ظُلم وبربریت کی انتہا۔اے آراشرف۔،۔


گزشتہ روزوزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا براہ راست عوام کے سوالوں کے جوابات اور اُنکی شکایات پرفوری کاروائی کے احکامات جاری کرنے کا دیکھ کردل کوبہت تسلی ہوئی اور اس بات کی مزید خوشی ہوئی کہ ایک اورسیز خاتون کو آپ کے حکم پر اُسکے مکان کا قبضہ۔مافیا سے آزاد کراکے اُسے واپس دلادیا گیا یہ توایک حققت ہے کہ ہمارے وزیراعظم عوام کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔میں بھی اس موقع کو غنیمت جان کراپنی شکائت گوش گزار کرنا چاہتا تھا مگر یہ سوچ کررابطہ نہیں کیا کہ ہم میڈیا والوں کو کسی نہ کسی مقام پرموقع میسر آ ہی جاتا ہے بہتر ہے یہ موقع کسی دوسرے مضروب فرد کو مل جائے۔اس میں تو شک نہیں کہ وزیراعظم تارکین وطن کے مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کر رہے ہیں۔ مگر ریاست میں قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ گروہ اسقدر مضبوط اور دلیر ہو چکے ہیں کہ وہ کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے حصوصاََوہ تارکین وطن کی املاک پر قبضہ تو اپنے باپ کا مال سمجھتے ہیں میری وزیراعظم سے استدعا ہے کہ ایک ایسا صدارتی ارڈیننس لایا جائے جو قابل دست اندازی پولیس ہو۔ تاکہ قبضہ مافیا اورجرائم پیشہ افراد کو عبرتناک سزائیں دی جا سکیں ٍ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ۔چراغ تلے اندھرا۔ مرحومہ نورمقدم کے ساتھ ہونے والی ظُلم وسفاکی کی و اردات جہاں ہوئی وہ وفاقی حکومت کا شہر اسلام آبادہے جو پاکستان کا دارالحکومت ہے جہاں نہ صرف ریاست کی تمام ترانٹیلی جینس ایجنسیاں ہمہ وقت موجود ہوتی ہیں بلکہ غیر ممالک کی انٹیلی جینس بھی موجود ہوتی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ چند کلومیٹر کے فاصلے پرافواج پاکستان کا ہیڈکواٹر بھی ہے لیکن اسکے باوجود ملزم ظاہرجعفر کتنی دیدہ دلیری اور بے خوفی سے مظلوم وبیکس مرحومہ نور مقدم کے ساتھ سفاکی کی تمام تر حدیں عبور کرتا ہے لیکن پاس موجودافراد بھی اسقدر بے حس اوربزدل ثابت ہوتے ہیں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے ایک مظلوم اوربیکس عورت پر ظُلم ہوتا دیکھتے رہے۔ اگر وہ ہمت کرکے ظالم کا ہاتھ روک لیتے یابروقت پولیس کو اظلاع دے دیتے تو شاید مرحومہ قتل ہونے سے بچ جاتی رپورٹ ہے کہ مرحومہ نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد اور سفاکی سے تنگ آکراپنی جان بچانے کی غرض سے مکان کی پہلی منزل سے چھلانگ بھی لگا دی تھی جسکی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگئی تھی اس حالت میں وہ وہاں سے فرار چاہتی تھی مگر گیٹ پر موجود چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا اور ملزم اُسے گھسیٹ کر اوپر لے گیا اور اُس پر شدید تشدد کے بعد اُسکا سر تن سے جدا کر دیا یہ تو ایک دل سوز واقعہ ہے جو میڈیا کی نظر میں آگیا لیکن دیانتداری سے دیکھا جائے تو اسلام آباد سمیت ریاست کے کونے کونے میں اس قسم کی ایسی ہزاروں ظُلم کی داستانیں موجود ہیں جو عوام اور میڈیا کی نظر سے اوجھل ہیں۔میری اس ساری تمہید کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرے میں اسقدر بے حسی خودغرضی سراعت کر گئی ہے کہ کوئی کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں؟یا پھرہمارے مقتدرادارے بھی ذمہ داری سے قانون پر عملدرمدکرکے جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔یہ تو ایک ہمارے پڑوسی ملک کے سفیر کا معاملہ تھاجسے میڈیا نے بھی احسن انداز سے رپورٹ کیا میں اس موقع پر اسلام آبادپولیس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جس نے محنت اور جانفشانی سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کسی دباؤ کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے ملزم کو گرفتار کیا اگر ریاست کی پولیس اسی جوش و جذبے کا مظاہرہ کرتی رہے تو ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم پرکافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے مملکت خداداد پاکستان جس کی بنیاد ہی لاالہ الااللہ کے مُتبرک اور باعزت نام کے نعرے سے شروع ہوئی تھی جس کے قیام کے وقت بچے بچے کی زبان پربس ایک ہی نعرا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الااللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کے تحت ریاست کا نظام چلے گا جہاں عدل وانصاف کا دور دورہ ہوگااورآئین و قانون کی حکمرانی ہوگی اُس ریاست میں کسی بھی شہری پر ظُلم وبربریت کی انتہا ہونا نہ صرف نظریہ پاکستان کی بلکہ مقتدر اداروں کی بھی توہین ہے جن پر ریاست کے امن وامان قائم رکھنے اورجرائم پر قابو پانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔مادروطن میں جس تیزی سے قتل و غارت،اغوا برائے تعاون،ریپ،ڈاکہ زنی،دھوکہ دہی،چوری،کرپشن اور منشیات فروشی کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اگران کی روک تھام کیلئے آہنی ہاتھوں سے اقدامات نہ اُٹھائے گئے توپھر وہ مقصد جس کے حصول کیلئے ہمارے آبا واجداد نے قربانیاں دی تھیں اور مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا وہ مقصد فوت ہو جاتا ہے ہماری دعا ہے کہ ہر پاکستانی کو اللہ تعالیٰ اپنی مادروطن کی حفاظت اور ترقی کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہییں اور ظُلم کوروکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔