۔،۔شطرنج کی بساط پر چال چلنا۔ یہ کھیل کیا ہے۔ نذر حسین۔،۔

٭ایک بادشاہ،ایک وزیر،دو اونٹ،دو گھوڑے، دو ہاتھی اور آٹھ پیادے یا سپاہی مہرے کے طور پر موجود ہوتے ہیں (عربی شطرنج،فارسی شطرنج،مشرق فارسی چترنگ) فارسی لفظ شطرنج سنسکرت سے ماخوذ ہے۔شطرنج کی ایک پرانی شکل ہے جیسا کہ ساسانی سلطنت میں کھیلا جاتا تھا۔اسے بادشاہوں کا کھیل بھی کہا جاتا ہے٭

شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ۔ میرے مخالف نے چال چل دی اور اب میری چال کے انتظار میں ہے، میں کب سے سفید خانوں۔سیاہ خانوں میں رکھے کالے، سفید مہروں کو دیکھتا ہوں، میں سوچتا ہوں یہ مہرے کیا ہیں، اگر میں سمجھوں یہ جو مہرے ہیں،صرف لکڑی کے ہیں، کھلونے ہیں تو جیتنا کیا ہے اور ہارنا کیا ہے۔نہ یہ ضروری ہے نہ وہ۔ اگر خوشی ہے نہ جیتنے کی، نہ ہارنے کا بھی کوئی غم ہے تو کھیل کیا ہے۔ میں سوچتا ہوں جو کھیلنا ہے تو اپنے دل میں یقین کر لوں۔ یو میرے سچ مچ ہیں بادشاہ ہوں،وزیر و پیادے ان کے آگے ہے دشمنوں کی وہ فوج رکھتی ہے جو کہ مجھ کو تباہ کرنے کے سارے منصوبے، سارے ارادے، مگر میں ایسا مان بھی لوں تو سوچتا ہوں یہ کھیل کیا ہے۔ یہ جنگ ہے جس کو جیتنا ہے، یہ جنگ ہے جس میں سب ہے جائز۔کوئی یہ کہتا ہے مجھ سے۔ یہ جنگ بھی ہے یہ کھیل بھی ہے۔ یہ جنگ ہے پر کھلاڑیوں کی۔یہ کھیل ہے جنگ کی ہزق۔ میں سوچتا ہوں یہ جو کھیل ہے،اس میں اس طرح کا اصول کیوں ہے کہ کوئی مہرہ رہے کے جائے، مگر جو ہے بادشاہ اس پر کبھی کوئی آنچ بھی نہ آئے، وزیر کو ہی ہے اجازت کہ جس طرف بھی وہ چاہے جائے۔ میں سوچتا ہوں جو کھیل ہے اس میں اس طرح کا اصول کیوں ہے۔ کہ پیادہ جو اپنے گھر سے نکلے پلٹ کر واپس نہ جانے پائے۔ میں سوچتا ہوں اگر یہ ہی ہے اصول، تو پھر اصول کیا ہے۔ میں ان سوالوں سے جانے کب سے الجھ رہا ہوں۔میرے مخالف نے چال چل دی۔