۔،۔ لندن میں کینیاء کے سفارتخانہ کے باہر ارشد شریف کی یاد میں شمعیں روشن۔ نذر حسین۔،۔

٭لندن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے کینیاء کے سیارتخانہ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ان کا کہنا تھا کہ ہمیں انصاف چاہیئے ارشد شریف کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کینیاء کی ذمہ داری ہے٭

شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/برطانیہ/لندن۔برطانیہ میں موجود کینیا کے سفارتخانہ کے سامنے برٹش پاکستانی (معین) جنہوں نے لندن میں بہت بڑے تعزیتی پروگرام کا اہتمام کیا،موم بتیاں (شمعیں) جلائی گئیں، بہت زیادہ تعداد میں اوورسیز پاکستانیوں نے شرکت کی اورارشد شریف کی مغفرت کے لئے اجتماعی دعائیں کی گئیں۔ معین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم سارے اوورسیز پاکستانی اپنے سارے سیاسی حوالہ جات(اختلافات)کو بھلا کر شہید ارشد شریف کو عزتدینے اور حلف اُٹھانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ ان کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ آپ کینیا کی ایمبیسی کے سامنے کھڑی ہیں،کیا سمجھتی ہیں کہ کینیا میں ان کی کسی سے دشمنی تھی یا۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کو کینیا کی سرزمین پر مارا گیا اس لئے احتجاج اور جواب بھی کینیا ہی سے لیا جانا چاہیئے۔جیسا کہ پولیس کی شناخت کی کمی وجہ تھی اس لئے ان کی ایمبیسی کے سامنے یہ مظاہرہ رکھا گیا ہے،جبکہ معین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت پاکستان سے بھی سوال بنتا ہے کہ ایسی کون سی وجوعات تھیں جس کی وجہ سے ارشد شریف کو پاکستان چھوڑنا پڑا، وہ انسان جس نے اپنی جان پاکستان پر وار دی،اس کو پاکستان سے کیوں روانہ کیا گیا،جرنلسٹ فریڈرش سب جو ارشد کے دوست بھی تھے اور اے آر وائی کے ورکر بھی ہیں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کن سے ارشد شریف کی شہادت کا مطالبہ کرتے ہیں جس پر انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا۔ایک تو پوری دنیا میں ایسے حادثات نہیں ہوتے بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں پہلا واقعہ ہے اور ساید آخری ہو ایسا کسی کی ماں کو نہ دیکھنا پڑے،کسی کے بیوی بچوں کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے جن میں آج ارشد شریف کے بیوی بچے اور ماں ہے۔بڑا سوال پاکستان کیوں چھوڑنا پڑا،وہ مجبوری کی حالت میں کینیا گیا وہاں انہیں ایسے قتل کیا گیا جیسا کہ کسی لاوارث کو مارا جاتا ہے۔یہ لازمی ہے آزادانہ تفتیش کی جائے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیئے۔ ارشد شریف نے22 فروری 1973 کو کمانڈر محمد شریف کے آنگن کراچی میں آنکھیں کھولیں،جن کو 23 اکتوبر 2022 کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، واضح رہے ان کے والد کمانڈر محمد شریف 2011 میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ارشد شریف کے چھوٹے بھائی میجر اشرف شریف اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے ہلاک ہو گئے، اپنے والد کمانڈر اشرف شریف کی موت کی خبر سنتے ہی بنوں چھاونی چھوڑ کر نکلے جبکہ ڈرائیور یا اسکارٹ سے انکار کر دیا، چند ہی کلو میٹر دور ان کی گاڑی نامعلوم جوعات کی بنا پر سڑک سے ہٹ کر ایک درخت سے ٹکرا گئی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے٭کمانڈر اشرف شریف اور ارشد شریف کے چھوٹے بھائی میجر اشرف شریف کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا٭ارشد شریف ایک پاکستانی صحافی، مصنف اور ٹی وی اینکر پرسن تھے، ان کو تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل تھی۔قومی اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں جبکہ خاص طور پر برطانیہ کے لئے ملک میں بہت سے سیاسی واقعات کا احاطہ کیا۔ 23 مارچ 2019 کو انہیں صحافت میں ان کی خدمات کے سلسلہ میں صدر پاکستان نے ٭پرائیڈ آف پرفارمنس٭ ایوارڈ سے نوازا۔ آپ 2022 تک میزبانی کے شعبہ سے وابسطہ تھے آخری دنوں میں۔اے آر۔وائی۔ نیوز پر پروگرام پاور پلے کے لئے میزبان رہے، آپ نے آج۔ٹی۔وی۔ میں بطور نیوز ڈائریکٹر بھی خدمات سرانجام دیں اس سے پہلے ارشد شریف دنیا ۔ٹی۔وی۔ کی نیوز ٹیم کی بطور ڈائریکٹر نیوز اور پروگرام (کیو) کے میزبان رہے۔ اگست 2022 کے دوران میں ان کے ایک پروگرام کی وجہ سے ان کی ٭اے۔آر۔وائی٭ کی ملازمت چلی گئی جس کے بعد سے لے کر اپنی موت کا سندیسہ ملنے تک وہ اپنا۔یو۔ٹیوب۔ چینل چلا رہے تھے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کے حامی صحافی کے طور پر مشہور تھے۔آج 27 اکتوبربروز جمعرات ان کو سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔میڈیا پرسن کے مطابق ارشد شریف دونوں بھائیوں کے فارم ہاوس میں تھے، وہاں کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے فارم ہاوس جانے کے لئے نکلے تھے جہاں پر ارشد شریف کے رہنے کا بندوبست کیا گیا تھا٭دوسرے فارم ہاوس سے 14 سے 15 کلو میٹر دور ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔اسی اثناء میں خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون پر واقع کے بارے میں بتایا جبکہ بھائی نے یہ سب کچھ سننے کے بعد خرم کو کہا کہ گاڑی کو بھگا کر فارم ہاوس پہنچو۔اب خرم کے بیان کے مطابق جب وہ وہاں پہنچے تو ارشد شریف شہید ہو چکے تھے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اور لوکل میڈیا کے مطابق سوالات وقار احمد اور خرم احمد دونوں بھائیوں پر اُٹھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق کینیا میں ارشد شریف کی موجودگی کا صرف تین سے چار لوگوں کو پتا تھا۔ ان کے مطابق سلمان اقبال، ارشد شریف کے پروڈیوسر عادل واجہ اور ارشد شریف کی والدہ کو علم تھا کہ وہ کینیا میں وقار اور خرم کے پاس موجود ہیں جبکہ اس بات کا علم ان کی اہلیہ کو بھی نہیں تھا اب بات کہ یہ انفارمیشن لیک کیسے ہوئی؟خرم کے بیان کے مطابق ان کی چلتی ہوئی گاڑی پر اندا دھند فائرنگ ہوئیجبکہ گاڑی کی ونڈ اسکرین پر صرف دو گولیوں کے نشانات ہیں۔ دوسرا میڈیکل رپورٹ کے مطابق گولیاں بہت نزدیک سے ماری گئیں، پولیس رپورٹ کے مطابق ان کی گاڑی نہ روکنے پر ان کا تعاقب کیا اس دوران فائرنگ کی گئی؟اب کس کی بات پر یقین کیا جائے؟