-,-قائداعظم کا پاکستان-سید علی جیلانی-,-
-,-قائداعظم کا پاکستان-سید علی جیلانی-,-
مسیحی برادری کی جانب سے کرسمس تقریبات کا سلسلہ دسمبر کے وسط سے ہی زور پکڑجاتا ہے جو پچیس دسمبر کو کرسمس کے حوالہ سے کی جانے والی عبادات سے عروج پر پہنچتا ہے پوری دنیا میں مسیحی برادری کرسمس سے نئے سال کی آمد تک خوشیوں کا ہفتہ بھر پور طریقہ سے مناتی ہے اور پاکستانی قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت پچیس دسمبر کو مناتی ہے یہ دن ساری قوم کے لئے خوشی اور مسرت کا دن ہے 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہونے والے اس عظیم لیڈر نے ایک ہجوم کو متحد کر کے ایک قوم بنادیا اور پھر اس قوم کی شناخت کو پوری نیا میں منوادیا مسولینی جناح آف پا کستان کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا امریکہ اپنے کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی دانشورانہ صلاحیتوں گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب کی مسلسل اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلاموں کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا اور مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی راہ پر راغب کیا قائداعظم نے مسلمانوں کیلئے جسطرح علیحد ہ آزاد اسلامی ریاست کی جدوجہد کی اسکی مثال نہ توماضی میں ملتی ہے نہ مستقبل میں ملنے کی اُمید ہے قائد اعظم نے تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں متعدد بار یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائیگی اور پاکستان کے نظام آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائیگا قائداعظم سیکولر ہوتے تو پھر وہ برصغیرکے مسلمانوں کی قیادت کرنے کی بجائے ہندوئوں کے ساتھ مل کرمسلمانوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کوشش کرتے جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اپنے سرلیتے ہوئے اس انداز میں دوقومی نظریہ کو اجاگر کیاکہ پاکستان ایک آزاد ملک بن کردنیا کے نقشے میں شامل ہوگیا بانیٔ پاکستان اور ان کے رفقاء کا پاکستان کے حوالے سے تصور بالکل واضح تھا اور انہوں نے بے شمار مواقع پر کھل کر کہا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اس کے نام پر قائم رہے گا اور پھر اسلام کا ہی نظام یہاں کا طرز حکومت ہو گا ہماری یہ خوش قسمتی تھی کہ مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد بھی منظور ہو گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کو اسلام کی راہ پر چلانے کیلئے ایک قاعدے کا تعین ہوا تاریخ گواہ ہے کہ جس روز اس نظریہ اسلام کو کمزور کرنے کے لئے سازشیں اور کام شروع ہوا اسی دن سے پاکستان کی بنیاد کھوکھلی ہونا شروع ہوئی اور پھر ہم نے دیکھا کہ وہ اہل بنگال جو پاکستان بنانے میں پیش پیش تھے اور جن کے ساتھ زمین رنگ نسل زبان تمدن کا مغربی پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا صرف اسلام کو یہاں قائم نہ کرنے کی وجہ سے ہم سے الگ ہوئے کیونکہ ہمیں بلکہ سارے وطن کو باہم جوڑنے والا رشتہ اور تعلق اسلام ہی تھا جو باقی تمام تعلقات اور رشتوں پر آفاقی طور پر بالا تھا یہ رشتہ باقی تمام رشتے ختم کر کے انہیں ملا کر اپنے ماننے والوں کو سب سے مضبوط تعلق میں جوڑ دیتا ہے قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”انصاف اور مساوات میرے رہنماء اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں جو ملک قائداعظم نے دنیا میں ایک مثال بنانے کے لیے حاصل کیا آج اس میں کس طرح کی ہوا کورنگ دیا جارہا ہے ہمیں پہلے ایک مسلمان ہونے کے ناطے پھر پاکستانی ہونے کے ناطے سوچنا ہوگا کہ ہمارے قائد کے جو سنہری فرمودات ہیں ان پر ہم کتنا عمل کررہے ہیں کیا قائداعظم نے پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ ہم اقتدار کی خاطر ملک کو دولخت کردیں؟ کیا لا اللہ الاللہ کی بنیاد اس لیے ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حق تلفی کریں کیا پاکستان کی بنیادوں میں لہو اس لیے ڈالا گیا کہ اسکے وجود میں آنے کے بعد بھائی بھائی کا خون پیئے گا کیا قائداعظم کی روح تڑپ کے ہم سے نہیں پوچھ رہی کہ ان کا بنایا پاکستان دولخت کیسے ہوا کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ جس ایمان اتحاد تنظیم کا زکر میں بار بار کرتا تھا وہ کہاں ہے پوری زندگی قانون کی پاسداری کرنے والے جناح یقینا ہم لوگوں کو جب سر عام قانون کی دھجیاں بکھیرتے دیکھتے ہوں گے تو ان پر روز قیامت ٹوٹتی ہو گی آئین کو روندنے والے آمروں کے دور اقتدار کے طویل عرصے کو دیکھ کر بھی جناح حیرت سے سوال پوچھتے ہوں گے کہ میں تو خود قانون دان تھا قانون اور آئین کو توڑنے کا سبق میں نے تو کبھی آپ سب کو نہیں دیا سیاستدانوں کے شاہانہ پروٹوکول اور شاہی رہن سہن وہ بھی سرکاری خرچ پر یعنی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر یقینا جناح کو انتہائی ناگوار گزرتا ہو گا قائداعظم خود پاکستان کے پہلے گورنر جنرل تھے لیکن انھوں نے تو کبھی بھی سرکاری خزانے سے ایک پائی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کی کیا سفارش اور رشوت کا کوئ سبق قائداعظم نے دیا جب جناح ہمارے حکمرانوں اور ایسٹیبلیشـمنٹ کو بیرونی طاقتوں کے آگے جھکتے دیکھتا ہوں گے تو یقینا سوال کرتے ہوں گے کہ کیا یہ آزادی میں نے اس لیئے حاصل کی تھی کہ مٹھی بھر افراد قوم کے ان داتا بن بیٹھیں اور انہی سامراجی قوتوں کے آگے جھکتے رہیں جناح یقینا حیرت سے یہ بھی پوچھتے ہوں گے کہ ہم لوگ اپنے ہیروز کی کہی ہوئی باتوں اور ان کے نظریات کو کتنی جلدی بھول جاتے ہیں کیا ہم سب اتنی جلدی بھول گئے کہ جناح نے آزادی کی لڑائی محض گوروں کے خلاف نہیں بلکہ سٹیٹس کو کے حامی ان نام نہاد سیاسی و مزہبی ٹھیکیداروں اور قومیت و لسانیت کے علمبرداروں کے خلاف بھی لڑی تھی اپنی تصاویر دفاتر پر آویزاں دیکھ کر جناح حیرت سے سوال پوچھتے ہوں گے کہ تصاویر میری لگا کر میرے ہی وطن کے مظلوموں کا استحصال کرتے ہوئے کچھ شرم نہیں آتی فلاحی ریاست کے تصور کویکسر تبدیل کر کے محض چند بااثر افراد اور ادراوں کو فائدہ دینے والی ریاست کو دیکھ کر یقینا جناح رنجیدہ ہو جاتے ہوں گے اور سوال پوچھتے ہوں گے کہ میرے فلاحی ریاست کے تصور کو تہہ و تالاج کس نے کیا اور کس دن ہم ان کے سوچے گئے ریاست کے نظریئے کو اپنائیں گے انھوں نے وہ کام کر دکھایا جو ابو الکلام کی علمیت نہ کر سکی جو عطاللہ شاہ بخاری کی خطابت نہ کر سکی اور احرار کی حریت اور حسین احمد مدنی کا تقوی نہ کر سکا جب بھی پچیس دسمبر کا چاند نکلتا ہے تو روشنی کی شعاعیں آزادی کا دیپ جلاتی ہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا الحمداللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا کیا ہم موجودہ پاکستان کو کہہ سکتے ہیں یہ ہے قائداعظم کا پاکستان-