0

۔،۔ دولت مندی کا کلچر ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔

0Shares

۔،۔ دولت مندی کا کلچر ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔

پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے لہذا صرف منتخب عوامی نمائندے ہی ایسا نازک اور مشکل فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔کوئی دوسرا ادارہ قانون سازی کا فریضہ ار انجام نہیں دے سکتا۔آئین و قانون کسی بھی قوم کی امنگوں کا ترجمان ہو تا ہے لہذا اسے بڑی سوچ بچار اور دیدہ ریزی کے بعد مدون کیا جاتا ہے۔پاکستان کے ہاں ۳۷۹۱؁ کا آئین ہے جو متفقہ ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی نوعیت کا ہے اور پھرکتابی شکل میں موجود ہے جبکہ کچھ اقوام ایسی بھی ہیں جن کے ہاں لکھاہوا آئین موجود نہیں ہے۔جمہوری نظام کی ماں ریاست (برطانیہ)کے ہاں لکھا ہوا آئین نہیں ہے بلکہ وہ روائیت پسندی سے ہی امورِ مملکت سر انجام دیتے ہیں۔ملکی آئین کے تحت حکومتیں تشکیل پاتی ہیں اور پھر قائدین اپنے دور اندیش فیصلوں سے قوم کے لئے منزل کا تعین کرتے ہیں۔منزل کا تعین قائد کا سب سے اہم کام ہو تا ہے۔۳۲ مارچ ۰۴۹۱؁ کو قائد نے جس منزل کا تعین کیا تھا اس نے ۴۱ اگست ۷۴۹۱؁ کو حقیقت کا جامہ پہنا تھا۔کسی بھی قائد کے فیصلے آنے والی نسلوں کو متاثر کرتے ہیں لہذا قائد کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ذاتی منعفت کی بجائے قومی منعفت کو ترجیح دے۔جب اقتدار کو دوام دینا مقصود ِ اول قرار پائے تو پھر قومی یکجہتی اور ترقی ہوا میں معلق ہو جاتی ہے۔ جنوبی افریقہ کے قائد نیلسن منڈیلا کا قول ہے (حکمرانوں کو اقتدار کی فکر ہوتی ہے جبکہ قائدکا مطمہِ نظر قوم کی تشکیل ہوتا ہے)۔قائد کی نگاہ میں بالا و پست ایک ہوتے ہیں۔ اس کی نگاہ میں سب کا مفاد مقدم ہو تا ہے۔قوم اس وقت مشکلات کے بھنور میں پھنستی ہے جب کوئی لیڈر خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھ لیتا ہے اور کسی سے مشورہ طلب کرنا اپنی تو ہین سمجھتا ہے۔آئین نے حکمرانوں کو اتنے وسیع اختیارات تفویض کر رکھے ہیں کہ حکمرانوں کابھٹک جانا نوشتہ دیوار ہو تا ہے۔پارلیمانی جمہوریت میں ہر کوئی حکمران کی نظرِ التفات کا منتظر ہوتا ہے لہذا خوشامد اور مسکا روزمرہ کا معمول بن جاتا ہے۔ایسی ایسی خوبیاں تلاش کر ے پیش کی جاتی ہیں جن گا گماں خود حکمرانوں کو بھی نہیں ہوتا۔شائد ایسے ہی خوشامدیوں کی وجہ سے حکمران خود کو مافوق الفطرت شہ سمجھنے لگ جاتے ہیں لہذا ان کی ذہنی افتادِ طبع بگڑنے لگ جاتی ہے۔مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ حکمرانوں کے چاروں طرف گھیرا ڈال لیتا ہے اور با آوازِ بلند اپنے حکمران کی مدح سرائی شروع کر دیتا ہے جس سے حکمران خوش تو ہوجاتا ہے لیکن اپنے بے سرو پا فیصلوں سے قوم کا بیڑہ غرق کر دیتا ہے۔کچھ سیاسی فیصلے اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے ہوتے ہیں لہذا وہ تباہ کن ہوتے ہیں۔حسد اور کینہ پروری ایسے فیصلوں کی بنیاد ہو تی ہے۔مخالفین کی مشکیں تو کس دی جاتی ہیں اور ان کیلئے اقتدار کے راستے مسدودبھی کر دئے جاتے ہیں لیکن اس سے قوم پر جو تباہی آتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہو تی ہے۔،۔پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تباہی میں ۵۸۹۱؁ کے غیر جماعتی انتخابات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ایک جمہوری مزاج کی قوم کو ایک انتہائی بھونڈے اور بے ڈھنگے انداز میں دولت مندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذولفقار علی بھٹو کی پی پی پی کا راستہ روکنے کیلئے جنرل ضیا الحق نے جس راہ کا انتخاب کیا وہ تباہ کن تھی لیکن اس کے مشیروں نے جنرل ضیا الحق کے اس فیصلے کی مدح سرائی میں جس طرح زمین و آسمان کے قلابے ملا ئے وہ بیان سے باہر ہے۔غیر جماعتی انتخابات نے ذات برادری،قییلے،رنگ و نسل، دولت مندی اور روپے پیسے کے جس کلچر کو فروغ دیا اس سے آج تک چھٹکارا نہیں پایا جا سکا۔یہ پہلے انتخابات تھے جس میں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا اور ووٹ کو دولت کی قوت سے خریدا گیا۔ہر طرف کاروباری حضرات،وڈیروں،جاگیر داروں اور صنعتکاروں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئے اور یوں پارلیمنٹ پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔انہی انتخابات سے الیکٹیبلز کی نئی اصطلاع ایجاد ہوئی جس کے سامنے سیاسی جماعتیں بے بس ہو گئیں۔ اب وہی الیکٹیبلز ہر سیاسی جماعت کی مجبوری بنے ہوئے ہیں۔۔الیکٹ ایبلز کی شان و شوکت دیکھنے والی ہے۔تمام سیاسی جماعتیں ان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں اور ان کیلئے اپنے دروازے کھول کے بیٹھی ہوئی ہیں تا کہ ان کی شمولیت سے جماعت کو مضبو طی نصیب ہو جائے۔میاں محمد نواز شریف کا ظہور انہی انتخابات کا مرہونِ منت ہے۔ انھوں نے اپنی جیت کیلئے جس طرح پیسہ پانی کی طرح بہایا اورپھر فتح و کامرا نی سے ہمکنار ہو ئے اس کی نظیر ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ وہ ساری سیاست جو نظریات اور پروگرام کی بنیادوں پر کھڑی تھی قصہِ پارینہ بن گئی۔دولت مندوں نے سیاست کو یرغمال بنا لیا اور پھر خریدو فروخت کا ایک ایسا کلچر متعار ف ہوا جس میں ہما ری قومی شناخت دفن ہو گئی۔کبھی چھانگا مانگا، کبھی سوات اور کبھی اسلام آباد میں گھوڑ وں کی منڈیا ں سجتی رہیں اور قوم حسرت و یاس سے یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ جنرل ضیا الحق اپنی اس چال سے وقتی طور پر تو فاتح بن گیا لیکن اس نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قوم کو جس طرح مختلف خا نوں میں تقسیم کر دیا اس سے قوم آج تک سنبھل نہیں سکی۔،۔ایک طرف تو ۹۷۹۱ ؁روس کی افغانستان پر چڑھائی کا سال تھا۔ پاکستان کی استقامت نے روسی پیش قدمی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا تو امریکہ بھی میدان میں کود پڑا۔غیر ملکی تسلط کے خلاف افغانیوں کی قربانیوں اور آئی ایس آئی کی حکمتِ عملی نے روس کو ناکوں چنے چبوا دئے۔ افغانستان کی جنگ زورو شور سے جاری تھی اور روسی جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ملکی سلامتی کے پیشِ نظر جنرل ضیا الحق کو ریلیف مل گیا تو جنرل ضیا لحق نے افغا ن مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دینے کا فیصلہ کیا۔جنرل ضیا الحق کے اس غلط فیصلہ سے پاکستان کا پر امن معاشرہ اسلحہ اور ہیروئین کی آماجگاہ بن گیا۔اسلامی جہاد کا اس زور شور سے ڈھول پیٹا گیا کہ جہاد مخالف عناصر کی آواز اس میں دب کر رہ گئی۔ پاکستان کی اکثریت روسی جارحیت کے خلاف تھی لیکن افغانیوں کو پاکستان میں پناہ دینے کی مخالف تھی کیونکہ وہ اافغانیوں کے ہاتھوں اسلحہ اور لوٹ مار کا ڈائرکٹ نشانہ بنے ہوئے تھے۔انھیں علم تھا کہ افغانیوں کی آمد سے پاکستان کا پر امن معاشرہ جنگ و جدل کا مرکز بن جائیگا۔عوام کے خدشات درست تھے اور آنے والے سالوں میں عوام نے یہی سب کچھ بھگتا لیکن جنرل ضیا الحق اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ہمیں میاں محمد نواز شریف کی سیاست کو جنرل ضیا الحق کی سوچ کے اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔۵۸۹۱؁ سے شروع ہونے والامیاں برادران کا سیاسی سفر دولت کی چکا چوند کے گرد کھومتا ہے جس پر وہ اب تک اپنی سیاست کی لیلا رچائے ہوئے ہیں۔حکمران کی حیثیت سے جنرل ضیا الحق کے فیصلے پاکستان کیلئے انتہائی مہلک ثابت ہوئے۔وہ اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر یہ سب کچھ کر رہے تھے لیکن ۷۱ اگست ۸۸۹۱؁ کو ان کا یہ جابرانہ اقتدار آگ کے شعلوں کی نذر ہو گیا اور وہ جماعت جسے وہ اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنا چاہتے تھے اسی کو مسندِ اقتدار پر فائز کرنا پڑا۔لہذا ہر قائد کیلئے ضروری ہے کہ وہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد سے مقدم سمجھے اوراپنے ذاتی اقتدار کی خاطر قوم کے مقدر سے نہ کھیلے۔قائد کی زندگی مختصر ہوتی ہے لیکن ریاست کو صدیوں قائم رہنا ہو تا ہے لہذاریاست کی بقا کو مقدم سمجھنا سب کیلئے لازم ہونا چائیے۔ریاست ہے تو سیاست ہے۔۹ مئی ۳۲۰۲ ؁ کو بلوائیوں کی دہشت گردی ایک ایسی ہی قابلِ مذمت مشق ہے جس نے قومی مفاد کو پاؤں تلے روندھا اور شہداء کی یادگاروں کی تذلیل کی۔کیا کوئی ذی ہوش اور محبِ وطن انسان ایسا کر سکتا ہے؟؟؟؟۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں