۔،۔حاضری۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں حسب معمول دفتر پہنچا تو ایک پانچ سالہ معصوم خوبصورت رنگ برنگے شوخ کپڑوں میں ملبوس بچی دوڑتی ہوئی میری طرف آئی میرا ہاتھ پکڑا اور چوم کر بولی باباجی سلام بچی کا انداز اِس قدر معصومیت سے بھرا ہوا تھا کہ میری آنکھیں بھر آئیں دل سے دعا نکلی اور سوچنے لگا کن والدین کی نیک تربیت یافتہ بچی ہے میں نے بچی کو پیار کیا اور پوچھا میری خوبصورت پری کا کیا نام ہے تو وہ بولی میرا نام مقدس ہے اور وہ میری ماں صبح سے آپ کا انتظار کر رہی ہے جو اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ سراپا انتظار تھی میں نے بچی کا ہاتھ پکڑا اور اُس کی ماں کی طرف بڑھنے لگا قریب پہنچا تو خوشگوار حیرت کا زور دار جھٹکا لگا یہ تو نور بی بی تھی جو کئی سالوں کے بعد ملنے آئی تھی وہ لڑکی سے عورت بن گئی تھی سرخ و سفید گلاب جیسے رنگ کے ساتھ احتراماً کھڑی تھی اب وہ پتلی کمزور لڑکی کی بجائے صحت مند جسم کی مالک بلکہ تھوڑی سی موٹی ہو گئی تھی مجھے قریب پاکر سر جھکایا میں نے شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تو وہ چہک کر بولی دیکھ لو بابا آپ مجھے بھول گئے ہو لیکن میں آپ کو بلکل بھی نہیں بھولی شائد ہی کو ئی نماز یا دعا بلکہ سانس ایسی آئی ہو جس میں آپ کو یاد اور دعانہ کی ہو آپ ہی کے حکم پر یہ شہر چھوڑ کر سینکڑوں کلومیٹر دور چلی گئی اگر اِس شہر میں رہتی تو کب کی منوں مٹی کے نیچے چلی جاتی آج اگر زندہ ہوں تو رب تعالیٰ کے کرم خاص اور آپ کی راہنمائی کی وجہ سے ہوں میں اُس کے پاس سامنے بینچ پر بیٹھ گیا وہ ماضی کو یاد کرنے لگی ساتھ میں اُس کی آنکھوں سے مسلسل ساون بھادوں اُس کے رخساروں کو بھگونے لگا وہ قیامت خیز اُن دنوں کو یاد کر رہی تھی جب اُس نے تین بار خود کشی کی کو شش کی لیکن ہر بار موت کی دہلیز سے واپس آجاتی حق تعالیٰ نے اُس کی زندگی کو خزاں سے بہار میں بد ل دیا موت خود کشی کے تاریک سایوں کی جگہ زندگی کے رنگوں نے لے لی وہ رو رہی تھی میری آنکھوں کے کنارے بھی بھیگ رہے تھے میں نے نور بی بی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا چل پگلی وہ ماضی تھا اللہ نے تم کو حرام موت سے بچا لیا مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک نیک بیٹی دے دی یہ اولاد بھی تو اللہ کا کرم ہے اور تمہارا پیار کرنے والا خاوند جو تم پر جان دیتا ہے تو وہ بولی خاوند تو مجھے طلاق دے رہا تھا آپ کی دعاؤں سے اُس نے مجھے قبول کیا ورنہ بابا میں طلاق کے بعد موت کو ہر حال میں گلے سے لگا لیتی بابا آپ نے مجھے کہا تھا زندگی میں کبھی اِس شہر میں نہ آنا جس کے مکینوں نے تمہاری زندگی دوزخ بنا دی تھی لیکن آپ کی کشش مجھے دوبارہ لے آئی ہے دوسری ایک اور بات بھی کہ آپ نے کئی بار مجھ سے اجازت لی کہ آپ میری دکھی داستان کو کالم میں لکھیں تاکہ لوگوں کو فکری راہنمائی ہو سکے اور میرے جیسے بنگالی بابو جادوگروں عاملوں کے شکنجے میں پھنسے لوگ نجات پا سکیں لیکن میں آپ کو ہر بار روک دیتی تھی لیکن بابا میں آج آپ سے خود درخواست کرتی ہوں کہ میری زندگی کا یہ سیاہ راز اوپن کر دیں تاکہ جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں وہ نکل سکیں دوسری بات میری ایک دوست ہے جو میری طرح ہی ”حاضری“ کی دلدل میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے اُس نے مجھے بھی اپنے مرشد بابا کا بتایا جب میں وہاں گئی تو وہی حاضری والا ڈرامہ جاری تھا تو میں نے اُس کو بہت سمجھایا آپ کی کتاب بھی پڑھنے کو دی آپ کا نمبر بھی اُس کو دیا وہ آپ سے رابطہ بھی کرے گی آپ نے اُس کی بھی مدد اور راہنمائی کر نی ہے اور میری زندگی پر ہونے والے ظلم کو بھی لوگوں کے سامنے آشکار کردیں پھر نور بی بی ڈھیروں باتیں کر کے چلی گئی مجھے لا تعداد لڑکیاں عورتیں یاد آگئیں جو نو ر بی بی جیسے ظلم کا شکار ہو کر اپنی زندگی کا ماتم کرتی نظر آتی ہیں لہذا میں نوربی بی کا واقعہ روحانیت کے منکرین کے لیے نہیں بلکہ روحانیت کے ماننے والوں کے لیے لکھ رہا ہوں تاکہ اُن کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ حقیقت کو جان لیں سالوں پہلے ایک دن نور بی بی کو گاڑی میں نیم بے ہوش لایا گیا اور کہا گیا اِس کو جنات کا سایہ ہے یہ بار بار خود کشی کی کو شش کر تی ہے نور بی بی چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھی ہڈیوں کا ڈھانچہ زرد سیاہ چمڑی میں لپٹی ہوئی تھی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی سانسوں کی ڈوری اٹکی ہوئی تھی میں دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ جنات سائے کا کیس نہیں بلکہ ڈپریشن شدید دکھ حادثے کا نتیجہ ہے جو یہ لڑکی بار بار خود کشی کی کو شش کر رہی ہے میں پیار سے بیٹھ گیا اور شفقت بھری حوصلہ دینے والی باتیں کرنے لگا پہلے تو نور بی بی نے بلکل لفٹ نہ کرائی پھر میں بولا تمہارا خاوند تم کو کبھی بھی طلاق نہیں دے گا میری اِس بات پر نوری بی بی کی آنکھوں میں چمک اتری بولی آپ قسم کھا لیں مجھے طلاق نہیں دے گا تو میں نے حوصلہ دیا کہ کبھی بھی نہیں دے گا پھر بولی میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ میں آپ کی بیٹیوں جیسی ہوں اور میرا راز کبھی دوسروں کو نہیں بتائیں گے میں نے وعدہ کیا اور وہ یہ کہہ کر چلی گئی کہ میں اب خود کشی نہیں کروں گی پھر وہ چلی گئی اب وہ میرے پاس آنا جانا شروع ہوو گئی گھر والے بھی خوش تھے کہ جنات چلے گئے ہیں اب نور بی بی خود کشی کی کوشش نہیں کرتی تین چار ملاقاتوں کے بعد ایک دن نور بی بی نے بہت سارے صفحات کا پلندہ لفافے میں بند مجھے دیا اور بولی بابا جی یہ وہ ظلم ہے جس کی وجہ سے میں خود کشی کرتی تھی اور میری زندگی برباد ہو ئی میری اُس درندے سے جان چھڑائیں جس نے میرا یہ حال کیا ہے نور بی بی نے اپنی داستان کا آغاز اِس طرح کیا سرکار میری پیدائش اور پرورش ایسے گھر میں ہوئی جو اولیاء اللہ روحانیت کو ماننے والا تھا بچپن سے گھرمیں بزرگوں کو آتے سب گھروالوں کو ان کا احترام کرتے دیکھا اِسی ماحول میں میری شادی بھی ایسے لڑکے سے کردی گئی جو بابوں کو بہت مانتاتھا میرے خاوند کا مرشد جو اکثر گھر میں آتا جاتا تھا شادی کے بعد جب ہمارے رزق کے حالات اچھے نہ ہوئے تو مرشد نے نعرہ مارا اِس گھر میں جنات ہیں ان کو نکالنے کے لیے میں اِس گھر میں اکتالیس دن کا چلہ کروں گا ہم ماننے والے لوگ تو بہت خوش کہ مرشد ہمارے گھر میں قیام کر کے ہمارے حالات بدل دے گا میرے خاوند کا حکم تھا مرشد کا ہر حکم ماننا ہے مرشد نے مجھے سب کے سامنے بیٹی بنا لیا میں دن رات مرشد کی خدمت کر تی بیٹھے بیٹھے مرشد جمائی یا انگڑائی لیتے اور کہتے فلاں نیک بزرگ یا صحابی کی روح میرے اندر آگئی ہے اب میں نہیں وہ نیک بزرگ ہے ہم خوشی سے دیوانے کہ اتنی نیک ہستیاں ہمارے غریب خانے پر تشریف لا تی ہیں ایک دن مرشد نے حاضری کے دوران مجھے خالی پاکر پکڑا لیا اور بو لا یہ میں نہیں فلاں نیک بزرگ ہوں لہذا میری کسی بات انکار نہیں کر نا اور اِس طرح وہ میری عزت سے کھیل گیا میں بہت پریشان لیکن حاضری کے بزر گ کا نام بہت بڑا دوسرا گھر کے حالات ٹھیک ہوں پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا مرشد میرے ساتھ نا جائز تعلقات چلاتا رہا میرا خاوند اندھا یقین کر نیوالا کہ جو مرشد کہتا ہے وہ مانو ایک دن مرشد فون پر اپنے کسی شاگرد سے کہہ رہا تھا میں تو حاضری کا ڈرامہ کر کے ہر عورت سے لطف اٹھا تا ہوں یہ سن کر میں تو پاگل ہو گئی پھر دو سال گزر گئے گھر کے حالات ٹھیک سے خراب سے خراب تر ہو تے گئے گنا ہ کا احساس مجھے کھا رہا تھا لہذا زندگی مجھے بوجھ لگنا شروع ہو گئی میں اپنے والدین کے گھر آگئی اور اپنی زندگی ختم کر نے کی کو شش کی اب میرا خاوند بھی میرے خلاف ہے اور فراڈیا مرشد بھی مجھے دھمکیاں دیتا ہے پھر میرے گھر والے مجھے آپ کے پاس لے آئے آپ کی نظروں میں بیٹی کے جذبات دیکھے تو حوصلہ ہوا اِس امید پر آپ کو خط لکھ رہی ہوں کہ کیا آپ میری اِس ظالم درندے سے جان چھڑا سکتے ہیں اور میرے خاوند کو میرے پاس واپس لا سکتے ہیں اِس امید ہے آپ نے بیٹی کہا ہے تو باپ بن کر دکھائیں گے خط کیا تھا بارود سے بھرا ایٹم بم تھا جس سے میرا دماغ پھٹ رہا تھا (جاری ہے)
0