-,-سعودی عرب کے پرامن ایٹمی توانائی کے منصوبے پر اسرائیلی ریاست کاواویلا-ڈاکٹر ساجد خاکوانی-,-
آج ۲-اگست ۲۰۲۳ دی ٹائمزآف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی ادارہ برائے ایٹمی توانائی (Atomic Energy Commission)کے سابق بہت بڑے ذمہ دار”ایریل لیوٹ “جو۲۰۰۲سے ۲۰۰۷ تک اس ادارے کے پرنسپل ڈپٹی ڈائرکٹررہے ہیں،انہوں نے خبردارکیاہے کہ سعودی عرب کا پرامن ایٹمی منصوبہ کسی بھی وقت دفاعی نوعیت کی شکل اختیارکرسکتاہے۔اسرائیلی ریاست کے اس سابق ذمہ دارسرکاری افسر نے دی ٹائمزآف اسرائیل کے نمائندے کوبتایاکہ اگراسرائیلی حکومت سعودی عرب کے پرامن ایٹمی منصوبے پرراضی ہوگئی تو یہ بین الاقوامی طورپرایک بہت خطرناک مثال بن جائے گی جس سے مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے، مذکورہ اسرائیلی افسرکو سعودی حکومت کی طرف سے عالمی ایٹمی اداروں کو دی جانے والی کسی طرح کی ضمانتوں اوریقین دہانیوں پربھی کوئی اعتبارواعتمادنہیں ہے۔یہ توقرآن مجیدکی اس آیت کی عملی تفسیرہوگئی کہ “ڪَبُرَ مَقۡتًا عِندَ ٱللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لَا تَفۡعَلُونَ (٣)”ترجمہ:”تم جوکرتے نہیں اس کاکہنااللہ تعالی کوسخت ناپسندہے”۔دوسروں کوایٹمی توانائی اور ایٹمی اسلحے اورایٹمی توانائی کو دفاعی مقاصدسے روکنے والی اسرائیلی ریاست خود بہت بڑی ایٹمی توانائی کی مالک ہے اور دوسرے ملکوں کواورخاص طورپر ہمسایہ مسلمان ممالک کو ہروقت اپنی طاقت،دھونس اور زبردستی سے اپنے نیچے دباکررکھنے کے منصوبوں پر کاربندہے۔اوریہ صرف اس لیے ہی ہے کہ فلسطینی مسلمان بستیوں پر جب اسرائیلی فوجی بدمعاشی کرتے ہیں اور رہائشی علاقوں پرعورتوں اوربچوں کوقتل و غارت گری سے اپنے ہاتھ رنگتے ہیں تواسرائیلی مملکت کو خطرہ محسوس ہوتاہے کہ شایدکوئی اسلامی ریاست ہم پربھی دھاوابول دے،اوراسی خطرے سے بچنے کے لیے اسرائیلی ریاست نے ایٹمی دفاعی حصاراپنے گرد بنارکھاہے۔ اورچونکہ اسرائیلی ریاست خود دوسری ریاستوں پردست درازی کرتی ہے تووہ خوفزدہ بھی رہتی ہے۔سعودی حکومت تین قسم کے معاہدات چاہتی ہے،پہلی قسم میں امریکہ سے جدیدترین دفاعی ہتھیاروں کاحصول ہے،اس ضمن میں سعودی عرب تھاڈ(Terminal High Altitude Area Defense)THAAD)قسم کے میزائلوں میں دلچسپی رکھتاہے،یہ بلندی پراڑنے والا اینٹی بلاسٹک میزائل سسٹم ہے۔سعودی حکومت دوسرے نمبرپرامریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کرناچاہتی ہے جب کہ تیسری ترجیح پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی تکنالوجی کاحصول ہے۔اس تیسرے مقصد کے حصول کے لیے واشنگٹن اورریاض کے درمیان گفتگو درمیانی مراحل میں ہے۔اگرچہ اس طرح کے معاہدے کے لیے اسرائیل کی رضامندی کوئی شرط نہیں ہے کیونکہ دنیاکے بیسیوں ممالک نے اس سستے ماخذ قوت (انرجی)کو اپنے ہاں قائم کررکھاہے لیکن چونکہ اس سے دفاع کوبھی مضبوط کیاجاسکتاہے اس لیے اسرائیلی ریاست بہت زیادہ برہم ہے۔اسرائیلی ایٹمی توانائی کے سابق ڈپٹی ڈائرکٹرنے یہ بھی کہاہے کہ سعودی عرب شاید ااپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت نہ کرسکے کیونکہ اس افسرکے مطابق سعودی عرب اپنے ایٹمی کارخانے بحراحمرکے ساحلوں پرلگائے گاکیونکہ اس نوعیت کی تنصیبات کوٹھنڈارکھنے کے لیے پانی کی بہت بڑی مقدارکی ضرورت ہوتی ہے،یہ افسراس لیے بھی خوفزدہ ہے کی کسی بھی غیرمتوقع صورتحال کے نتیجے میں اسرائیل بھی متاثر ہوگا۔ ان لوگوں سے کوئی سوال کرے کی بھارت متعددبار اس طرح کی ناپسندیدہ صورتحال سے دوچارہوا،چرنوبل کا ایٹمی کارخانہ پھٹ گیااورپواجنوبی ایشیامیں اس کے اثرات بد پہنچے،فوکوشیمامیں بھی ایساہی کچھ ہوا،۱۹۸۶میں یوکرائن اور ۲۰۱۱میں جاپان کے اندربھی اسی کے سانحات رونماہوئے توکیا اسرائیل سمیت کسی بڑی حکومتوں کے نمائندوں نے ان کے خلاف کوئی قابل ذکرقدم اٹھایا؟؟؟لیکن ان کابغض اور کینہ اور حسد صرف اسلامی مملک کے ساتھ وابسطہ ہے کیونکہ محسن انسانیت ﷺکا فرمان عالی شان ہے کہ “الکفرملۃ واحدہ” کہ کل اقوام کفردراصل ایک ہی ملت ہیں۔کم و بیش چارسال پہلے “دی گارڈین”نے اپنے ایک مضمون میں لکھاتھاکہ سعودی عرب کاپہلا ایٹمی کارخانہ تکمیل پزیرہے۔یہ مضمون اس وقت کے عالمی ایٹمی ادارے (International Atomic Energy Agency (IAEA))کے ڈائرکٹرانسپکشن “رابرٹ کیلے”کے حوالے سے لکھاگیاتھاکہ یہ یہ سعودی ایٹمی کارخانہ کنگ عبدالعزیزسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے قرب میں واقع ہے اورصرف ۳۰ کلوواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس ڈائرکٹرکے مطابق بہت جلدیہاں سے بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔یہ کارخانہ ارجنٹائن کاایک ادارہ یہاں لگارہاہے اور اس کارخانے کاایک مقصد بقول ڈائرکٹرکے ایٹمی تکنالوجی کے لیے تربیت کی فراہمی بھی ہے۔اس مضمون کے ساتھ خلائی سیارے سے لی گئی تصاویربھی لف کی گئی ہیں اور بہت سی دیگرمعلومات بھی فراہم کی گئی ہیں جن کی تفصیل کایہ موقع نہیں ہے۔ایکسس(AXIOS)۳۱جولائی ۲۰۲۳ئکی رپوتاژ کے مطابق بدنام زمانہ اسرائیلی خفیہ ادارے “موساد”کے سربراہ”ڈیوڈ برنیا”نے جولائی ۲۰۲۳ میں خاص طورپر بیت الابیض(وائٹ ہاوس)کادورہ کیاہے اور امریکی انتظامیہ سے سعودی عرب کے اسی ایٹمی توانائی کے منصوبے پر بات چیت کی ہے۔یہ پیش نامہ (ایجنڈا)اس قدر اہمیت کاحال تھاکہ اسرائیلی خفیہ ادارے کے سربراہ نے امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر”جیک سلیوان”،بیت الابیض کے خصوصی مشیربرائے مشرق وسطی “بیرٹ گرک” اورامریکی صدرکے خصوصی مشیر”آموس ہوچسٹن”سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں۔اسی پرہی بس نہیں کیابلکہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ “بل برنس”سے بھی مزاکرات کاطویل دورہوالیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔اسی سے ملتی جلتی رپوتاژ نیویارک ٹائمزنے بھی نقل کی ہیں۔اسرائیلی ادارہ برائے ایٹمی توانائی (Atomic Energy Commission)کے سابق بہت بڑے ذمہ دار”ایریل لیوٹ “جو۲۰۰۲سے ۲۰۰۷ تک اس ادارے کے پرنسپل ڈپٹی ڈائرکٹررہے،نے یہ بھی کہاکہ سعودی عرب صرف بجلی کی پیداوارتک محدودنہیں رہے گا بلکہ یورینیم کی افزودگی طرف بھی قدم بڑھادے گا،جس کے دونتیجے نکلیں گے،پہلایہ کہ سعودی عرب ایران کے مقابلے میں آجائے گااوراپنی ایٹمی صلاحیت کو دفاع کے لیے بھی استعمال کرناچاہے گااوردوسرانتیجہ یہ کہ امریکہ کے لیے ایک اورسردرد پیداہوجائے گا۔سعودی عرب کے پرامن ایٹمی توانائی کے منصوبے سے اس قدر خوفزدہ ہونا سمجھ سے بالاترہے۔جب کہ طاغوت نے چاروں طرف سے امت مسلمہ کو نرغے میں لیاہواہے،سپورٹس کے نام پر پچیس سے تیس فیصد کھیلیں ہوتی ہوتی ہیں اورباقی ماندہ مغربی سیکولر تہذیب کی یلغارہوتی ہے،تعلیم کے نام پر لادین اورخدابیزار نظریات کی بھرمارہے اور نوجوان خواتین کو زیرتربیت لاکر نسلیں خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،معیشیت کے نام پر آنے والی سات نسلوں کو گروی رکھ کر ساری اقوام کوان یہودیوں نے ناک تک سود میں ڈبورکھاہے کہ سانس بھی نہ لینے پائیں،خارجہ تعلقات کے میدان میں نام نہادعالمی انسانی حقوق،آزادی اظہار،حقوق نسواں اورسیکولرجمہوریت،مشقت بچگان(چائلڈلیبر)،فضائی آلودگی اورصحت و شفاکے نام پر بین الاقوامی اداروں نے بڑی طاقتوں کے ایماپر چھوٹی قوموں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں،پاؤں میں بیڑیاں،گلوں میں طوق اورآنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔اس کے باوجود اس قدر خوف کہ امت مسلمہ کاایک ملک جواپنے لیے سستی توانائی کاایک ماخذبروئے کارلاناچاہتاہے اس کے خلاف پوراطاغوت متحرک ہوچلاہے۔پس یہ بھی قرآن مجیدکی اس آیت کی عملی تفسیرنظرآتی ہے کہ “وَمَكَرُوا وَمَكَرَاللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» (1)”ترجمہ:”اورکافروں نے تدبیرکی اوراللہ تعالی نے بھی تدبیرکی،اوراللہ تعلی بہترین (خفیہ)تدبیرکرنے والاہے”۔یہ آیت خاص اس موقع کی طرف اشارہ کرتی ہے جب یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کرواناچاہا لیکن اللہ تعالی نے انہیں بچالیااوراب یہ ملت بنی اسرائیل چاہتی ہے کہ مسلمان نابودہو جائیں لیکن اللہ تعالی کی مشیت اس کے برخلاف ہے اور یہود ہی اس دنیاسے نابودہوں گے،ان شااللہ تعالی۔
دسمبر۲۰۰۶ میں چھ خلیجی ممالک کے تعاونی اجتماع (Gulf Cooperation Council (GCC))کویت،سعودی عرب،بحرین،متحدہ عرب امارات،قطراورعمان نے مل کر پرامن ایٹمی توانائی کے حصول کافیصلہ کیا،فرانس نے اس مقصدکے لیے دست تعاون بڑھایااوریوں بین الاقوامی ایٹمی توانائی کے ادارے(International Atomic Energy Agency (IAEA))کی آشیربادسے فروری ۲۰۰۷ میں سعودی عرب میں عملی کام کاآغازہوگیا۔اگست ۲۰۰۹ء میں سعودی حکومت نے ایک مختصر ابتدائی وضروری کاروائی(ہوم ورک)کے بعد باقائدہ سے کنگ عبدالعزیززسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی میں پرامن ایٹمی توانائی کے قیام کااعلان کردیااوراسے ریاست کی ضرورت کے طورپرمتعارف بھی کرایا۔مقصدکے حصول کے لیے فن لینڈاورسوئزرلینڈکے ایٹمی توانائی کے اداروں اور کچھ اسی میدان کی اعلی ترین شخصیات کو بھی شریک مشورہ رکھاگیا۔جون ۲۰۱۱ میں اعلان کیاگیاکہ اگلے بیس سالوں میں بیس ایٹمی ریکٹرزلگائے جائیں گے جو مملکت کی بیس فیصدبجلی کی ضروریا ت کوپوراکرنے کاباعث بن سکیں گے،اس مقصدکے لیے سعودی ریال کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی مختص کردی گئی۔مارچ ۲۰۱۵ میں اییک معاہدے کے ذریعے کوریائی ایٹمی ادارے (Korea Atomic Energy Research Institute (KAERI))کوبھی اس منصوبے میں شامل کرلیاگیااوراس کے حجم اورکمیت میں مزیداضافہ بھی کردیاگیا۔عالمی ادارہ ایٹمی توانائی(world-nuclear.org)نے اپنی ویب سائٹ پر ان تمام معاہدات،ضمانتوں اور یقین دہانیوں کی تفصیلات درج کی ہیں جن کی کہ سعودی حکومت پابند ہے اور اس کے نتیجے میں یہ پرامن ایٹمی توانائی کامنصوبہ بہت کامیابی سے روزافزوں ترقی پزیر ہے۔اچھنبے کی بات تویہ ہے کہ اگرچہ یہ بین الاقوامی ادارے بھی مسلمانوں کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن انہیں توپھر بھی کوئ اعتراض یاشکایت نہیں ہے توپھر یہودیوں کے گردے کیوں چھلنی ہورہے ہیں؟؟؟۔وجہ قرآن مجید نے سورۃ آل عمران میں بتادی کہ “هَٰٓأَنتُمۡ أُوْلَآءِ تُحِبُّونَهُمۡ وَلَا يُحِبُّونَكُمۡ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱلۡكِتَٰبِ كُلِّهِۦ وَإِذَا لَقُوكُمۡ قَالُوٓاْ ءَامَنَّا وَإِذَا خَلَوۡاْ عَضُّواْ عَلَيۡكُمُ ٱلۡأَنَامِلَ مِنَ ٱلۡغَيۡظِۚ قُلۡ مُوتُواْ بِغَيۡظِكُمۡۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورOِترجمہ:ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وه تم سے محبت نہیں رکھتے، تم پوری کتاب کو مانتے ہو، (وه نہیں مانتے پھر محبت کیسی؟) یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصہ کے انگلیاں چباتے ہیں کہہ دو کہ اپنے غصہ ہی میں مر جاؤ، اللہ تعالیٰ دلوں کے راز کو بخوبی جانتا ہے”اللہ تعالی امت مسلمہ کے حکمرانوں کوعام طورپراور سعودی عرب کے بادشاہوں کوخاص طورپر توفیق دے کہ قیادت کے منصب کاحق اداکریں اور دشمن کے لیے لوہے کے چنے ثابت ہوں۔اور قرآن مجیدکی اس آیت کاجیتاجاگتا نمونہ بن جائیں کہ”وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسۡتَطَعۡتُم مِّن قُوَّةٖ وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَيۡلِ تُرۡهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمۡ لَا تَعۡلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعۡلَمُهُمۡۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيۡءٖ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ يُوَفَّ إِلَيۡكُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تُظۡلَمُونَO ترجمہ:تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زده رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے وه تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔“مرحوم صلاح الدین ایوبی کہاکرتے تھے کہ میں ایک سو شیروں کے اس لشکرسے نہیں درتاجس کی قیادت ایک بھیڑ کررہی ہو البتہ ایک سو بھیڑوں کے اس لشکرسے ضرور ڈرتاہوں جس کی قیادت ایک شیرکررہا ہو۔دنیامیں ہزاروں زبانیں بولی جاتی جاتی ہیں لیکن ایک زبان ایسی ہے جوہر قوم بآسانی اوربغیرکسی تردد کے سمجھ جاتی ہے اوروہ قوت کی زبان ہے اورڈنڈے کی زبان ہے۔ساری دنیا اسرائیلی حکومت سے پرامن مزاکرات پریقین رکھتی ہے،یہودیوں سے پیار اورمحبت سے گفتگوکرتی ہے اوراسرائیلی حکومت کے خلاف قراردادیں منظور کرتی ہے اسی لیے اسرائیلی قیادت ان سب کو پاؤں کی ٹھوکرپررکھتی ہے جب کہ فلسطینی مسلمان ان یہودیوں سے طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں,ان کے ٹینکوں کے سامنے سینہ سپررہتے ہیں،ان کی افواج پرسنگ باری کرتے ہیں اوردنیاکے سامنے ان یہودیوں کی سفاکی،شقاوت قلبی اور ظلم وتعدی کوطشت ازبام کرتے ہیں اوراسی لیے اسرائیلی ایٹمی طاقت ان سے بے پناہ خوفزدہ ہے کیونکہ نہتے فلسطینی اہل ایمان یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ “خیبرخیبریایہود؛ جیش محمدﷺسوف یعود”اے یہودیو؛ غزوہ خیبر کے سبق کویادرکھو کہ حضرت محمدﷺکالشکربہت جلد پھرتم پر فتح مندہونے والاہے،ان شااللہ تعالی۔