۔،۔ منظر اور منزل ۔(طارق حسین بٹ شان۔،۔
۰۳۹۱ میں الہ آباد کے مقام پر علامہ اقبال کے پیش کردہ خطبہ کی حقیقی روح یہ تھی کہ عر بی ملوکیت نے اسلام کے اجلے چہرے پر جو بد نما داغ دھبے ڈال رکھے ہیں ان کو صاف کرکے دنیا کو اسلام کا اجلا اور شفاف چہرہ دکھا یا جائے۔ملوکیت نے ظلم و جبر کی جس داستان سے انسانیت کا چہرہ لہو لہان کر رکھا تھا اسے جمہور ی ریاست کے اندازو اطوار سے دھو دیا جائے۔انھوں (نے اسلامی جمہوریت) کا نیا تصور پیش کیا تا کہ اسلام کے بارے میں مخالفین کے شکوک و شبہات سے اسلام کا دامن صاف کیا جائے۔ان کا مطمع ِ نظر یہ تھا کہ ایک جدید اسلامی اور جمہوری ریاست کی بنیاد رکھی جائے اور وہ سب کچھ جو شہنشائیت اور ملوکیت کے نام پر اسلام کے دامن میں سمویا گیاتھا اس سے دامن بچایا جائے۔ ہندوستان میں خلافت کی بحالی کی جو تحریک چلی تھی اور جس کی زمام مہاتما گاندھی کے ہاتھ میں تھی علامہ اقبال اور قائدِ اعظم اس تحریک کا حصہ نہیں تھے اور نہ ہی وہ خلافت کے منصب کی بحالی کے حق میں تھے کیونکہ خلافت کے نام پر جو کچھ اسلام کے ساتھ کیا گیا تھاکوئی جمہوریت پسند انسان اس کا دفاع نہیں کر سکتاتھا۔علامہ اقبال کا مطمعِ نظر ایک علیحدہ اسلامی ریاست تھی جس کی بنیاد جمہوریت کے سنہری اور اعلی وارفع اصولوں پر استوار ی گئی تھی جس کیلئے انھوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ دنیا کی کسی ریاست نے اس سے قبل اس قسم کا نظریہ پیش نہیں کیا تھا۔ ساری دنیا نسل،زبان،رنگ اور کلچر کی بنیادوں پروطن کے قیام کا نعرہ بلندکر رہی تھیں جبکہ کسی مخصوص نظریہ پر ریاست کے قیام کا یہ پہلا نعرہ تھا لہذا دوقومی نظریے کا اعلان اہلِ جہاں کیلئے کسی حیرانگی سے کم نہیں تھا۔جمعیت العلمائے ہند کے امیر مولانا حسین احمد مدنی نے دو قومی نظریہ کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ متحدہ قومیت کا عم تھامے ہوئے تھے۔ دین و وطن کے نام پر علامہ اقبال کا مدنی صاحب سے جو مناظرہ ہو ا تھا وہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔مولانا حسین احمد مدنی بھی عام انسانوں کی طرح وطنی حدود کو ریاست کے قیام کا جزوِ لاینفک سمجھتے تھے جبکہ علامہ اقبال کا استدلا ل تھا کہ اسلام وطنی حد بندیوں سے بالاتر نظریہ حیات کا نام ہے لہذا اسے وطنی سرحدوں میں قید نہیں کیا جا سکتاان کے بقول۔(چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا۔،۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا)۔حبشہ کا رہنے والا مسلمان،شام میں رہنے والا مسلمان،حجاز میں رہنے والا مسلمان،ایران میں رہنے والا مسلمان بنیادی طور پر امتِ مسلمہ کا فرد ہے جو وطنی سرحدوں کے ساروں بتوں کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی اپنی ایک رباعی سے جو وطنیت کی حد بندیوں اور نظریہ کی قوت کوکو آشکار کرتی ہے ساری داستان سمجھ میں آ سکتی ہے (عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ۔،۔ زے دیو بند حسین احمد چہ بو العجبی است)۔،۔(سرور بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است۔،۔ چہ بے خبر زے مقامِ محمد عربی است)۔،۔(بمصطفے برساں خویش را کہ دین ہمہ او است۔،۔ گر بہ او نہ رسید ی تمام لہبی است)۔،۔اہلِ جہاں اپنی کم علمی اور محدود سوچ کی وجہ سے علامہ اقبال کے پیش کردہ نظریہ کو کسی شاعر کی موشگافیاں سمجھ کر نظر انداز کر رہی تھیں لہذا دو قومی نظریہ کو کسی نے بھی سنجیدہ لینے کی کوشش نہ کی کیونکہ سارے اہل سیاست اس نظریہ کے اندر چھپی ہوئی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر تھے۔وہ اسے معمول کا ایک عام سا بیانیہ سمجھ کر نظر انداز کر رہے تھے حالا نکہ اس کے اندر ایک نئی قوم پرورش پا رہی تھی۔ایک حا دثہ تھا جسے رونما ہونا تھا۔ایک حادثہ تھا جو وقت کی آغوش میں پل رہا تھا لیکن جس کے ادراک کا ملکہ کسی کے بس میں نہیں تھا۔ محسوسات کے خو گر انسان کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ ایک خوابیدہ اور چھپی ہوئی شہ کو دیکھنے والی آنکھ اس کے پاس نہیں تھی۔محسوسات کا خوگر انسان تو خدائے مطلق کا انکار بھی اسی وجہ سے کرتا ہے کہ خدا اسے دکھا ئی نہیں دیتا۔عربوں کے ہاں بھی محسوس و موجود اشیاء کی پرستش کا رواج تھا اسی لئے انھوں نے خانہ کعبہ میں ۵۶۳ بت سجا رکھے تھے اور ان کی پرشتس کیا کرتے تھے۔دیوی دیوتا اور بت محسوساتی سوچ کی تشنگی کو مٹانے کا ایک مضبوط ذریعہ تھے لہذا محسوس پیکروں میں ڈھالے گے بتوں کو خدا سمجھنا ہی ان کا مذہب تھا جسے اسلام نے شرک کہہ کر رد کر دیا تھا۔ابو جہل کا اصرار بھی یہی تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺجس خدا کے سامنے سرنگوں ہونے کی دعوت دے رہے ہیں وہ خداہے کہاں پر؟میں جس سے دعائیں مانگ رہا ہوں، میں جس سے اپنی حاجات کی برومندی کیلئے گڑ گر اتا ہوں اور میں جس کے سامنے جھکتا ہوں وہ مجھے دکھائی دے تو بات بنے۔جو مجھے دکھائی نہیں دے گا میں اسے تسلیم نہیں کروں گا اور نہ ہی اس پر لاؤں گا۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کو اپنی نظم شکوہ میں یہ کہنا پڑا کہ (مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیوں کر)۔کوئی اس بات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا کہ جو کچھ یہ فلسفی شاعر پیش کر رہا ہے اس کے اندر کتنے طوفان موجزن ہیں؟۔وہ سب کے سب محسوساتی سوچ کے اسیر تھے لہذا نظریہ کی فکری بلندی ان کی شعوری سطح سے بہت بلند تھی۔علامہ اقبال نے بہت دہائی دی لیکن بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی (کچھ جوسمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا۔،۔ مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا)ہر انسان فلاسفر اور دانشور تو ہوتا نہیں کہ کسی فلسفیانہ بات کی گہرائی تک فورا پہنچ جائے۔،۔ اپنی بات کی حقانیت کو سمجھانے اور واضح کرنے کیلئے اسے کہنا پڑا(حادثہ وہ جو ابھی پردہِ افلاک میں ہے۔،۔ عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے)لیکن کسی نے اس کے حقیقت کشا بیانیہ کو بھی سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ساحل پر بیٹھے ہوئے انسانوں کو کبھی طوفان کا صحیح اندازہ نہیں ہوتالیکن وہ ملاح جو کشتی کے چپو چلا رہا ہوتا ہے اسے ادراک ہو تا ہے کہ طوفان کتنا شدید ہے اور لہریں کتنی سرکش ہیں۔ساحلی تو محبوب کے حسین جلووں میں اچھلتی لہروں کے مزے لے رہے ہوتے ہیں جبکہ نا خدا کشتی کو ساحل سے ہمکنار کرنے کیلئے اپنی ساری صلا حیتیں صرف کر رہا ہوتا ہے۔علامہ اقبال اور اہلِ سیاست کے درمیان بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ایک کی چشمِ بینا منہ زور طوفانوں کو دیکھ رہی تھی جبکہ دوسرے دریا کی خاموشی کو امن کا نام دے کر اپنے اپنے کاروبارِ سیاست میں مگن تھے۔کبھی کبھی زمینی حقائق، واقعات اور مشاہدات کسی بڑی سچائی کو خود ہی طشت از بام کر دیتے ہیں۔جو ہونا ہوتا ہے ہو کر رہتاہے لیکن سب پر یہ راز منکشف نہیں ہوتا۔ایک آنکھ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے لیکن اس آنکھ میں جھانکنے والے ناپید ہوتے ہیں۔(عالمِ نو ہے ابھی پردہِ تقدیر میں۔،۔میری نگاہو ں میں ہے اس کی سحر بے حجاب)۔اپنی آنکھوں میں تیرنے والی سچائی کسی دوسرے انسان کو دکھائی بھی نہیں جا سکتی اور نہ ہی اسے سمجھایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر انفرادی معاملہ ہو تا ہے۔کوئی انسان بھلادوسروں کے خواب کیسے پڑھ سکتا ہے؟ کسی کی آنکھ کا نور دوسرے کی آنکھ کا نور کیسے بن سکتا ہے؟ جس طرح ایک انسان دیکھتا ہے کوئی دوسرا ویسے ہی کیسے دیکھ سکتا ہے؟ہر ایک کی اپنی آنکھ ہے۔ہر ایک کا اپنا منظر ہے۔ منظر جب سمجھ میں آ جائے تو پھر منظر سب کا مقصد بن جا تا ہے اور اسے ہی منزل کا تعین کہتے ہیں۔منظر اور منزل تک کا سفر بڑا طویل اور صبر آزما ہو تا ہے لیکن وہ منظر جو دلکش ، توانا،با مقصد،پر اثر اور پر کشش ہوتا ہے سب کی آنکھوں میں اتر جاتا ہے۔ اس منظر کو دلوں میں اتارنا سب سے مشکل کام ہوتا ہے اور کوئی نابغہ ہی ایسا مشکل کام سر انجام دے سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے علامہ اقبال کی اسلامی جمہوریت کے تصور کے ساتھ کیا گیا اور امتِ مسلمہ کا وہ اعلی اور ارفع تصور جسے انھوں نے دو قومی نظریہ کی صورت میں پیش کیا تھا اس کا حشر کیا کیا؟؟نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔،۔