۔،۔کھانا۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
زینب باجی بہت دنوں بعد مُجھ سے ملنے آئی تھیں زینب باجی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی روحانیت تصوف سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتی تھی کراچی میں کسی روحانی سلسلے میں بیعت بھی تھیں میری کتاب پڑھی تو میرے پاس چلی آئیں بہت دیر تک روح تذکیہ نفس تقوے اورمراقبے پر بات ہوتی رہی آخر میں اپنی والدہ کی بیماری پر چند اذکار لے کر چلی گئیں چند دنوں میں اللہ نے والدہ کو صحت بخشی تو میرے ساتھ اعتماد یقین کا تعلق بن گیا اب چھوٹے موٹے مسئلوں پریشانیوں میں مُجھ فقیر سے مشورہ کر تیں غنا تسلیم و رضا کی دولت سے مالا مال تھیں معافی اور تشکر میں ہر وقت لپٹی رہتیں خدا کی نعمتوں پر شاکر اور اپنی حماقتوں پر استغفار مجھے با جی کی یہ عادتیں بہت پسند تھیں کہ عام عورتوں کی طرح ساس سسرال خاوند کے شکوؤں سے بھری ہوئی نہیں تھیں بلکہ خاوند کی حقیقی تابعدار سسرال والوں کے ساتھ اعلیٰ حسن ِ سلوک کے سارے اُس کے گرویدہ تھے اپنی خوبیوں کی وجہ سے باجی مجھے بہت پسند تھیں آج آئیں سلام دعا کے بعد بولیں بھائی جان میں اپنے خاوند سے دیوانہ وار عشق کرتی ہوں میں ان کی کنیز ہوں اُن کے ابروئے چشم پر ہر کام بلکہ زندگی تک قربان کر نے کو ہر وقت تیار رہتی ہوں اگر حق تعالی نے کسی کو سجدے کا حکم اجازت دی ہو تی تو میں ہر سانس کے ساتھ اپنے خاوند کو سجدے کرتی۔اللہ رسول کے بعد وہ میرے بزرگ ولی اور مرشد ہیں میں نے اُن جیسا انسان آج تک نہیں دیکھا یقینا میری کوئی دعا قبول ہوئی ہو گی جب اللہ نے ان کو میرا خاوند بنایا پھر وہ دیر تک اپنے خاوند کی تعریفیں کر تی رہی میں حیرت کا بت بنا ایک بیوی کے منہ سے اُس کے خاوند کی فرشتوں جیسی تعریفیں سن رہا تھا کیونکہ یہ سچ ہے کہ کوئی خاوندجتنا بھی اچھا بااخلاق نیک ہو بیوی اُس میں کوئی نہ کوئی خامی نکال ہی لیتی ہے سارا شہر خاندان آپ کی تعریف کر تا ہو لیکن اگر اُس بندے کی بیگم سے پوچھا جائے کہ آپ کا خاوند ہر دلعزیر ہے ہر کوئی اُس کا دیوانہ ہے آپ کی اپنے خاوند کے بارے کیا رائے ہے تو وہ منہ بگاڑ کر ماتھے پر تیوری لا کر ناگوار لہجے میں بولے گی کچھ نہ پوچھو جی یہ میں ہی جانتی ہوں کہ اِن کے ساتھ کتنی مشکل زندگی گزر رہی ہے اور گزار رہی ہوں لیکن زینب باجی کی تعریفوں کا سلسلہ تو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا لہذا میرے من میں بھی اشتیاق کی چنگاری چمکی اور میں نے باجی سے خاوند کا نام اور تصویر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو نام بتا کر زینب باجی نے اپنے موبائل میں اپنے شوہر کی تصویر دکھائی وہ ایک خوش شکل شریف انسان جس کے چہرے اور آنکھوں سے شرافت ٹپک رہی تھی میں قائل ہو کر ستاشی نظروں سے باجی کی طرف دیکھا اورکہا باجی آپ درست فرما رہی ہیں یہ تو واقعی شریف نیک انسان ہیں آپ بتائیں ایسا نیک شریف آدمی تو اللہ کی رضا میں خوش رہتا ہے یہ کیوں پریشان ہو گیا تو باجی بولی یہ خود بیمار پریشان ہو تو واقعی اللہ کی رضا میں خوش رہتا ہے لیکن جب اِن کا والد بیمار ہو جائے تو بلکل بھی برداشت نہیں ہو تا یہ بہت پریشان ہیں کیونکہ چند دن پہلے والد صاحب فالج کا شکار ہو گئے ہیں یہ مہنگے سے مہنگے ڈاکٹر سے علاج کروا رہے ہیں ڈاکٹروں نے بہت سمجھایا ہے کہ بڑھاپا ہے ریکوری سلو ہو گی لیکن یہ بستر پر پڑے بیمار باپ کو دیکھ کر تڑپ تڑپ جاتے ہیں ڈاکٹروں حکیموں سے مایوس ہو کر اب مجھے کئی دنوں سے کہہ رہے ہیں اپنے روحانی بھائی پروفیسر صاحب کو گھر لا کر بابا جان کو دم دعا کراؤ تاکہ ابا جان ٹھیک ہو جائیں لہذا سر میں بہت مان سے آپ کے پاس یہ عرض لے کر آئی ہوں کہ برائے مہربانی میرے گھر تشریف لا ئیں تاکہ میرا خاوند خوش ہو جائے تو میں نے وعدہ کیا کہ چھٹی والے دن آپ کے گھر ضرور آؤں گا باجی جانے لگی تو میں نے مذاقاً کہا باجی اپنے خاوند کی کوئی ایک نیکی جو آپ کو بہت پسند اور متاثر کرتی ہو وہ تو بتائیں تو وہ بولی آپ وعدہ کریں میرے خاوند سے اِس نیکی کا تذکرہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ یہ نیکی چھپا کر کرتے ہیں تو میں نے وعدہ کیا کہ آپ بے فکر رہیں میں نہیں بتاتا ان کو تو وہ کہنے لگی میرے خاوند کا پرائیوٹ بزنس ہے جس سے ایک خاص حصہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے نکالتے اور الگ کر تے ہیں ان پیسوں سے وہ سارا مہینہ خاص کام کرتے ہیں وہ دو پہر کے وقت گھر سے نکل کر ان اڈوں پر جاتے ہیں جہاں پر سینکڑوں مزدور مزدوری کے لیے آکر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر انتظار کرتے ہیں کہ جس کسی کو مزدوروں کو ضرورت ہو وہ آکر لے جائے اب یہ اُن اڈوں پر جاتے ہیں جو مزدور بیچارے رہ جاتے ہیں یا اُن کو کوئی لے کر نہیں جا تا تو یہ اُن کو کھانا کھلاتے ہیں اِس لیے کہ اِن کو جب مزدوری نہیں ملی تو اِ ن کے پاس کھانے کے بھی پیسے نہیں ہو نگے تو یہ کھانا کہاں سے کیسے کھائیں گے اِن کا طریقہ یہ ہے کہ اکثر گھر سے کھانے کے پیکٹ بنوا کر لے جاتے ہیں نہیں تووہاں جا کر قریبی ہوٹل والوں سے کہتے ہیں کہ اِن کو کھانا کھلا دو پھر اُس کھانے کے پیسے دے کر گھر آجاتے ہیں یہ کام یہ مختلف اڈوں پر چھپ کر چہرے پر ماسک لگا کر حلیہ بدل کر جاتے ہیں کبھی اِس اڈے پر کبھی اُس اڈے پر جگہ بدلتے رہتے ہیں آندھی ہو برسات ہو کوئی مسئلہ رکاوٹ ہو یہ کام انہوں نے ہر حال میں کرنا ہو تا ہے زینب باجی نے جب خاوند کہ یہ نیکی انسان دوستی بتائی تو مجھے دلی مسرت حاصل ہوئی میں نے کہا جب وہ گھر ہوں اُس دن والد صاحب کو دم کرنے آؤں گا لہذا باجی کا فون آیا کل شا م کو وہ گھر ہوں گے آپ آجائیں لہذا اگلے دن میں مقررہ ایڈریس پر پہنچا تو میاں بیوی نے میرا پر تپاک استقبال کیا اور بیمار والد صاحب کے کمرے میں لے گئے جہاں پر بوڑھا شخص فالج کی زنجیروں میں جکڑا آرام کر رہا تھا خاوند بار بار دعا اور پریشانی کا اظہار کر رہا تھا میں نے خاوند اور باجی سے کہا دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو میں نے اللہ کے حضور دعا کی اے پروردگار یہ وہ ہاتھ ہیں جو دوسروں کی مدد اور بھوکے انسانوں کی بھوک مٹاتے ہیں ان اٹھے ہاتھوں کے صدقے بیمار باپ کو شفا دے پھر میں ذکر کیا کر کہ چلا آیا چند دن بعد ہی باجی زینب کا فون آیا بھائی جان آپ کی دعا قبول ہوئی ابا جان اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے ہیں میں نے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور کہا دعا میری نہیں خاوند کے اٹھے ہاتھوں کی قبول ہوئی جو دوسروں کی مدد کے لیے حرکت کرتے ہوں ایسے اٹھے ہاتھوں کی دعا اللہ کیسے ٹال سکتا ہے۔
0