0

۔،۔جھوٹ۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔جھوٹ۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
ارب پتی سیٹھ میں دولت مندوں والا غرور تکبر کروفر نام کو نہیں تھا اگر کوئی سیٹھ صاحب کے بارے میں اور ان کی لمبی چوڑی دولت جائیداد کے بارے میں نہ بتائے تو کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ سیٹھ صاحب کے پاس دولت کے ذخائر اور ان گنت پراپرٹی ہے سیٹھ صاحب ہر وقت شرافت عاجزی شائستگی کی چادر میں لپٹے رہتے انداز حرکات و سکنات گفتگو کہیں سے بھی پتہ نہ چلتا کہ ان پر کئی عشروں سے دولت کی بارش ہو رہی ہے سیٹھ صاحب اب بڑھاپے کی دہلیز کراس کر چلے تھے جہاں پر جسم مختلف بیماریوں کی آماجگا ہ بن جاتا ہے جسم پر پڑھاپا قبضہ کر کے کمزور کر دیتا ہے۔ سیٹھ صاحب بڑھاپے اور بیماریوں کی آمدسے بلکل بھی پریشان نہیں تھے بلکہ اس کو بھی رب کی عطا سمجھ کر آخرت کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے لیکن سیٹھ صاحب کی بیماریوں اور بڑھاپے سے ان کے فیض یا فتگان اور چاہنے والے پریشان تھے ایسا ہی ایک نوجوان سرکاری آفسر جو کبھی کبھار میرے پاس آتا تھا ان کے لیے میرے پاس آیا کہ سیٹھ صاحب سینکڑوں یتیم بچوں کی کفالت اور پڑھائی پر توجہ اور خرچہ اٹھاتے ہیں ان بچوں میں سے ایک میں بھی ہوں میرے والدین کون تھے کس قوم شہرسے تعلق رکھتے تھے زندہ ہیں یا مر گئے میں نہیں جانتا بچپن سے جوانی تک سیٹھ صاحب کے یتیم خانے میں سارے مراحل طے کئے پھر سرکاری نوکری تعلیم مکمل کر نے کے بعد میں اب سیٹھ صاحب کو ہی ماں باپ سب کچھ سمجھتا ہوں ان کی صحت کی دعا کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں وہ دیر تک سیٹھ صاحب کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں پر سے پردہ اٹھا تا رہا یہاں تک کہ میں سیٹھ صاحب کی انسان دوستی سے مکمل طور پر متاثر ہو گیا میں نے کہاکہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں تو آفیسر بہت خوش ہوا کہ میں آپ کو سیٹھ صاحب کے پاس لے کر جاؤں گا لہذا ایک د ن میں سیٹھ صاحب کے پاس گیا دیرتک مختلف موضوعات اور انسان دوستی پر بات چیت کے بعد سیٹھ صاحب سے دوستی کا رستہ استوار ہو گیا اِس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا میں جس بات پر سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ یہ کہ سیٹھ صاحب کی اولاد نہیں تھی صاحب اولاد نہ ہو نے کے باوجو د سیٹھ صاحب بہت زیادہ مطمئن اور شاکر تھے کہنے لگے میں اللہ کی رضا پر راضی رہا ہوں اور آج موت کے قریب بھی راضی ہوں کیونکہ اگر خدا نے مجھے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا ہے تو سینکڑوں ملازمین اور یتیم بچے بھی تو میری اولاد ہی ہیں حیران کن بات یہ تھی کہ سیٹھ صاحب میں کوئی میڈیکل نقص خرابی نہیں تھی کوئی اور ہو تا تو شادیوں کی لائن لگا دیتا لیکن سیٹھ صاحب خدا پر شاکر کہ کوئی بات نہیں ہرو قت استغفار اور شکر میں ڈوبے رہتے دوسرا حیران کن پہلو ملازموں کے ساتھ حسن سلوک تھا جس طرح وہ ذاتی ملازمین کے ساتھ برتاؤ کر تے دیکھنے والے کو حیران کر دیتا جس طرح ادب پیار احترام سے ملازمو ں سے مخاطب ہو تے پھرمیں نے چند ملازموں سے بھی ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے سب نے یہی کہا کہ سیٹھ صاحب تو فرشتے ہیں انسان نہیں غصہ تکبر غرور ناراضگی کا ان کو پتی تک نہیں نہ ہی ان سے ایسی سختی کی بوُ آتی ہے۔ میں حیران ہو تا تھا کہ دولت اقتدار جب کسی پر مہربان ہو تا تو مشت خاک غرور میں مبتلا ہو کر انسانوں کو غلام اور کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتا ہے خو د کو بہت اعلی نسل دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا دولت کے بل بوتے پر دوسروں پر حکمرانی کر نا شروع کر دیتا ہے لیکن سیٹھ صاحب کس مٹی سے بنے تھے کہ ان پر دولت اقتدار کا خمار چڑھا ہی نہیں تھا سیٹھ صاحب کی انہی خوبیوں کی وجہ سے دیوانوں کی ایک فوج تھی جو ہر وقت ان کے لیے دعا گو تھی سیٹھ صاحب کو جب مجھ گناہ گار کے بارے میں پتہ چلا کہ میں بھی ٹوٹا پھوٹا خدمت خدمت کا سلسلہ خدا کے کرم خاص سے چلانے کی کو شش کر تا ہوں تو بہت خوش ہوئے۔ میں اور سیٹھ صاحب دونوں ایک طرح سے انسان دوستی کا کام کر نے کی کو شش کر رہے تھے یہ قدرمشترک ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی کسی بھی دولت مندیا صاحب اقتدار کو اگر جانچنا ہو تو سب سے آسان فارمولا یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی ملازموں کے ساتھ کیسا ہے کیاملازم اُس کے ساتھ اس کے خوف کروفر سے تھر تھر کانپتے ہیں یا نہیں زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ دولت مند اور اقتدار کے کوچوں پر قابض یہ فرعون نما انسان دن رات نوکروں کو ڈانٹتے بدلتے نظر آتے ہیں جب کہ سیٹھ صاحب کے پاس زیادہ تر ملازمین بوڑھے تھے جو لڑکپن میں آئے ساری زندگی نوکری کے بعد اب سیٹھ صاحب کی طرح بڑھاپے کی وادی میں داخل ہو چکے تھے یہ بوڑھے ملازمین اب جوانوں کی سی پھرتی چستی سے کام نہیں کرتے تھے لیکن سیٹھ صاحب اِن کے بڑھاپے سے خوش بلکہ کسی کمزوری پر مسکرا کر ٹال جاتے یہی انسان دوستی سیٹھ صاحب جو بڑا آدمی بنا دیتی تھی دوسری بات سیٹھ صاحب کے بارے میں مشہور تھی کہ انہوں نے ساری زندگی میں ایک بھی جھوٹ نہیں بو لا ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور سچ بولنے کی تلقین کر تے ہیں انسا ن ساری زندگی جھوٹ نہ بولے یہ نا ممکن سا کام تھا کیونکہ ہمارے معاشرے طرز زندگی اور گفتگو میں جھوٹ رچ بس سا گیا ہے آپ اپنے اطراف میں غور فرما ئیں تو ہر جگہ آپ کو جھوٹ ہی جھوٹ نظر آئے گا میں ساری زندگی اچھے نیک لوگوں کی تلاش میں رہا سیٹھ صاحب میں تمام خوبیاں موجود تھیں اِس لیے کبھی کبھار سیٹھ صاحب کی صحبت سے لطف اٹھانے کے لیے ان کے پاس آجاتا آج بھی آیا تو باتوں باتون میں ایک سوال کیا سیٹھ صاحب آپ نے واقعی کبھی جھوٹ نہیں بولا تو بولے نہیں جوانی کے ایام میں پہلی اور آخری بار جھوٹ بولا تھا وہ بھی صرف اتنا کسی دوست کا فون آیا تو میں نے نوکر سے کہا میں گھر پر نہیں فلاں جگہ پر ہوں جھوٹ بولنے کے بعد بہت شرمندگی ہوئی یہاں تک کہ میں نوکر کے ساتھ اُس جگہ گیا اور دوست کو فون کیاکہ میں یہاں پر ہوں اُس کے بعد کبھی جھوٹ نہیں بولا میں نے دوسرا سوال کیا آپ بہت مہربان شفیق مالک ہیں کبھی ملازموں کو ڈانٹا یا بد تمیزی کی ہو تو بولے یہ گناہ بھی جوانی میں ایک بار کیا تھا شروع میں میرا ایک ملازم تھا میں نے غصے میں اُس کو ڈانٹا وہ پریشان گھر چلا گیا تو میں ندامت میں بہت پریشان ساری رات جاگتا رہا صبح اٹھتے ہی اُس کے گھر بہت سارے پھل وغیرہ لے کر گیا ہا تھ جوڑ کر اُس سے معافی مانگی نوکر بہت کہتا رہا کہ میں ناراض نہیں لیکن میں معافی مانگ کر آیا اُس دن کے بعد پھر کسی کو نہیں ڈانٹا جب سے فیصلہ کیا جھوٹ نہیں بولنا دولت کے نشے میں کسی کو ڈانٹنا نہیں اس دن سے اللہ تعالی نے اِس طرح میرا بازہ پکڑ کر مُجھ پر دولت کی موسلا دھار بارش مسلسل جاری ہے میں حیرت سے سیٹھ صاحب کی باتیں سن رہا تھا خود پر نازاں کی ایسے نیک انسان کو دیکھ رہا ہوں جس نے دوبا رہ کبھی جھوٹ نہیں بولا کسی کو تنگ نہیں کیامیں اٹھا سیٹھ صاحب سے گرم جوشی سے ملا اور کہا آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ملک زندہ قائم ہے نہیں تو کب سے موہنجو دڑو ہڑپہ کے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہو تا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں