۔،۔ خونِ نا حق ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔
پاکستان کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے چاروں طرف سے خطرات نے گھیرا ہوا ہے۔ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نے جس طرح کی فضا قائم کر رکھی ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ہماری مشرقی سرحد بالکل غیر محفوظ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے پاک فوج کے جوانوں کو روزانہ شہادتیں پیش کرنی پڑ رہی ہیں۔دوسری طرف اکثر اسلامی ممالک داخلی انتشار کا شکار ہیں۔ان کے ہاں مختلف شدت پسند گروہ اور جماعتیں اسلحے کے زور پر دارالحکومت پرقبضہ جمانا چاہتی ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی دنیا میں عالمی سازش کے تحت بنیاد پرستی کو ہوا دی جا رہی ہے اور پر امن معاشروں کے اندر جہاد ی فکر سے خانہ جنگی کی فضا تخلیق کی جا رہی ہے۔جہادی گروہوں کی موجودگی نے اسلام کی امن پسندی کے بخیے اڈھیر کر رکھ دئے ہیں۔اسلام جو امن اور محبت کا مذہب ہے اسے دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے۔دنیا میں جہاں کہیں دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے اس کا سرا کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں سے جوڑ دیا جا تا ہے۔ایک جملہ تواتر سے بولا جاتا ہے (ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلما ن ہو تا ہے)۔ لیبیا، الجزائر، یمن، عراق، افغانستان،شام، پاکستان اور مصر جیسے ممالک اسی جہادی فکر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور خاک و خون کے دریا کو عبور کرنے پر مجبور ہیں۔ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے لیکن اسرائیلی حکومت کے خلاف اپنی جرات مندانہ سوچ کی وجہ سے امریکہ کو ان کی حکومت قابلِ قبول نہیں تھی لہذا وہاں پر فوجی شب خون کی پشت پناہی کی گئی۔ جنرل فتح السیی نے عنانِ اقتدار سنبھا ل لی اور منتخب صدر کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ اسرائیلی دباؤ کے پیشِ نظر امریکہ کیلئے ایسا کرنا ناگزیر تھا کیونکہ امریکہ نے اسرائیلی ریاست کی حفاظت کی ذمہ داری کا عہد کیا ہوا ہے۔ امریکہ کیلئے اسرائیل کی ناراضگی مول لینا ممکن نہیں ہے لہذا وہی ہوتا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔اسرائیل عربوں کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب عربوں کے اندر فوجی آمریت، شہنشاہیت اور مطلق العنانی کا دور دورہ ہو۔ عربوں کے ہاں خاندانی بادشاہتیں اور شہنشاہانہ حکومتیں اسی لئے قائم کی گئی ہیں تا کہ امریکی خواہشات کو جامہ پہنایا جا سکے۔آمر اور شہنشاہ جب چاہے اور جیسا چاہے فیصلہ کرنے میں خود مختار ہو تا ہے جبکہ پارلیمنٹ میں فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں۔شہنشاہ زندہ باد امریکہ زندہ باد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور عرب اس کو خو ب سمجھتے ہیں۔پاکستان میں بھی وقفوں وقفوں سے آمریت نے پنجے گاڑے لیکن عوامی ردِ عمل اور ایٹمی قوت بننے کے بعد اس طرح کا دباؤ قدرے کم ہو گیا ہے۔اب سب کچھ پردے کے پیچھے سے ہو تا ہے اور سیاسی جماعتیں فوجی حمائت سے اقتدار کی مسند پر برا جمان ہو تی ہیں۔،۔ افغانستان میں حالیہ طالبان حکومت کو پوری دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا کیونکہ یہ اسلحے کے زور پر قائم ہو ئی ہے۔مسلح جتھوں کی مدد سے قائم حکومت عالمی سطح پر اپنی جمہوری شناخت سے محروم ہوتی ہے اس لئے دنیا کی ساری جمہوری حکومتیں اسے تسلیم کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک جھنوں نے ۶۹۹۱ میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔طالبان کی کامیابی عمران خان کے دورِ حکومت میں وقوع پذیر ہوئی تھی لیکن عمران خان بھی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہ کرسکے۔ طالبان نظریہ سے محبت کے باوجود بھی انھیں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا نہ ہوا کیونکہ عالمی برادری اس طرح کی کسی سوچ کو تسلیم کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔امریکہ کے افغانستان سے اخراج کے بعد افغانستان ابھی تک انتشار اور خانہ جنگی کا گڑھ بنا ہوا ہے۔امریکہ افغا نستان کو ایک ایسے ملک کے طورپر دیکھنا چاہتا ہے جو انتشار اور بد امنی کا شکار ہو تا کہ چین اسے اپنے مقاصدکیلئے استعمال نہ کر سکے۔چین کی بڑھتی ہوئی ترقی اور اثرو رسوخ کے پیشِ نظر امریکہ کو بد حال افغانستان سوٹ کرتا ہے۔امریکہ چین کے ون روڈ ون بیلٹ کے منصو بے کو خاک میں ملانا چاہتا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں بد امنی کا راج ہو۔مشرقِ بعید کے وہ تمام ممالک جو چین کے قریب آنا چاہتے ہیں ان کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں امن ہو تاکہ وہ افغانی راہد اری سے چینی منصوبہ کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکیں لیکن امریکہ ایسا نہیں چاہتا۔مشرقِ بعید کیلئے چینی منصوبہ ابھی تک التواء میں ہے کیونکہ افغانستان میں امن مفقود ہے۔امریکہ نے الداعش کواہم ذمہ داری سونپی ہوئی ہے تاکہ وہ اپنی د گردانہ کاروائیوں سے فغانستان میں انتشار کو ہوا دے۔امریکہ جو کام افغانستان میں اپنی موجودگی میں کر نہیں پایا تھا اب وہ سب کچھ الداعش کی وساطت سے سر انجام دے رہا ہے۔،۔امریکہ ایک طرف امن کا راگ الاپتا ہے جبکہ دوسری طرف جہادی گروپوں کی سر پرستی بھی کرتا ہے۔ الداعش کا قیام اور پشت پناہی اسی سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔امریکہ افغانستان میں الداعش کے قدم جمانے اور اس کے ٹھکانے بنوانے میں ممدو معاون بنا ہوا ہے۔الداعش افغانستان میں فرقہ بندی کو ہوا دینے میں مگن ہے۔ افغانستان میں مساجد میں بم دھماکوں کے پیچھے الداعش سرگرمِ عمل ہے اور وہ اس کا بر ملا اظہار بھی کرتی ہے۔ عراق،شام اور یمن کے بعد افغانستان وہ ملک ہے جہاں اس کی کاروائیاں زورو شور سے جاری ہیں۔الداعش کو مالی معاونت اور اسلحہ کی ترسیل امریکی پالیسی کا حصہ ہے اور وہ اسے پوری ڈھٹائی سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔اس وقت امریکہ اور یورپ کے پیشِ نظر ایک ہی مقصد ہے کہ مسلم امہ کوامن و امان اور چین سے جینے نہیں دینا۔ یہ ایک ایسا محاذ ہے جس میں امریکہ کو اسرائیل اور بھارت کی مکمل حمائت حاصل ہے۔بھارت کے اندر مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک روا رکھا جا رہا ہے جس نے انسانی عظمت کی ساری خود ساختہ عمارت کو زمین بوس کر دیا ہے۔ نریندر مودی نے جس طرح مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اس نے انسانی عظمت کو داغ دار کر دیا ہے۔مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں اور اہم ذمہ داریوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ کشمیر پر اس کے ظلم و ستم کی کہانی پر پوری دنیا اس کے کردار کی مذمت کرتی ہے۔انسانی حقوق کا جس بے دردی سے کشمیر میں خون کیا جا رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں لیکن اس کے باوجود دنیا اقوامِ متحدہ کی قرار د ادوں کے مطابق کشمیروں کو حقِ خود رادیت دینے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ یہ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے کیلئے مقامِ شرم ہے کہ اس کی منظور شدہ اپنی قرار دادیں حقیقت کا جامہ پہننے سے محروم ہیں۔یوکرائن پر روسی حملہ کے بعد امریکی اور نیٹو روس کے خلاف متحد ہیں اور یوکرین کو ہر قسم کی مالی اور فوجی امداد دے رہے ہیں جبکہ بھارت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔انھوں نے کشمیر کے مسئلہ پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں جس سے بھارت کشمیریوں کا خون بے دردی سے بہا رہا ہے۔اس خون کا درد پاکستان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔،۔ پاکستان خود کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ خود سنگین داخلی بحران کا شکار ہے۔،۔