۔،۔ مسجد بلال آشافن برگ میں عظیم الشان محفل میلاد شریف کا اہتمام کیا گیا۔ نذر حسین۔،۔
٭ بَلَغَ العُلے بِکَمَاَ لہِ۔کَشَفَ الدُ جبے اجَمَالہِ۔حَسُنَتّ جَمِیعِ خِصَا لِہِ۔ صَلُو عَلَیہِ وَآلہِ۔وہ پہنچے بلندیوں پر اپنے کمال کے ساتھ۔آپ کے جمال سے تمام اندھیرے دور ہو گئے۔آپ کی تمام عادتیں ہی اچھی ہیں۔آپ پر اور آپ کی آل پاک پر لاکھوں درود ہ سلام۔
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/آشافن برگ۔ خطیب اعظم جرمنی، فاضل بھیرہ شریف مبلغ یورپ حضرت مولانا عبد اللطیف چشتی الازہری کی زیر سرپرستی مسجد بلال آشافن برگ میں عظیم الشان محفل میلاد شریف کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمنی بھر سے علماء کرام اور نعت خواں تشریف لائے تمام اہل اسلام کو بمعہ فیملی دعوت دی گئی تھی۔ہمیشہ کی طرح ٹھیک وقت پر پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کا شرف ذیشان حالد حسین کو ملا، خالد محمود قادری نے اپنی خوبصورت آواز میں۔شرف مجھ کو بھی حاضر ہے محمد کی غلامی کا۔وہ میرے دل رہتے ہیں میرا بھی دل مدینہ ہے۔حاجی محمد افضل بٹ نے۔ در تیرے تے اڑیاں کرساں جینویں بال ایلنڑاں۔ اک نکئی جیئی زد کر بیٹھاں میں خالی نہیں جانڑاں۔ زبیر ترمزی۔ کرم کے بادل برس رہے ہیں۔ دلوں کی کھیتی ہری بھری ہے۔ یہ کون آیا کہ ذکر جس کا۔نگر نگر ہے گلی گلی ہے۔منیب احمد اور مبین احمد نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔حاجی عابد حسین نے۔جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا۔شاید حضورﷺ ہم سے خفا ہیں منا کے لا۔ کچھ ہم بھی اپنا چہرہ باطن سنوار لیں۔ابو بکر سے کچھ آئینے عشق و وفا کے لا۔ شعیب بٹ نے بَلَغَ العُلے بِکَمَاَ لہِ۔کَشَفَ الدُ جبے اجَمَالہِ۔حَسُنَتّ جَمِیعِ خِصَا لِہِ۔ صَلُو عَلَیہِ وَآلہِ سنا کر محفل کو لوٹ لیا،جس پر عبد اللطیف چشتی کا کہنا تھا کہ (بَلَغَ العُلے بِکَمَاَ لہِ۔کَشَفَ الدُ جبے اجَمَالہِ) یہاں پہلا شعر مکمل ہو جاتا ہے۔پھر فرماتے ہیں (حَسُنَتّ جَمِیعِ خِصَا لِہِ۔ سوچنے لگے شعر کو کیسے مکمل کروں کون سا قافیہ آئے کہ مصرہ مکمل ہو جائے۔ تا کہ میرے محبوب کے حسن و جمال کا تذکرہ اس طرح ہو شعر مکمل ہو لیکن الفاظ نہیں مل رہے تھے اسی سوچ و بچار میں گُم تھے کہ اچانک آنکھ لگ گئی،جب آنکھ لگی تو جس نبیﷺ کی نعت لکھ رہے تھے وہ خواب میں تشریف لائے۔فرمایا سعدی کیا سوچ رہے ہو، اللہ کے نبیﷺ آپ کی شان بیان کر رہا تھا ٭ بَلَغَ العُلے بِکَمَاَ لہِ۔کَشَفَ الدُ جبے اجَمَالہِ۔حَسُنَتّ جَمِیعِ خِصَا لِہِ۔رُک گیا ہوں شعر کیسے مکمل کروں فرمایا سعدی کیا سوچتا ہے لکھ صَلُو عَلَیہِ وَآلہِ۔اس لئے یہ شعر وہ ہے جس کی تکمیل اللہ کے نبی ﷺ نے کی ہے،کہتے ہیں اللہ کے نبی کو علم نہیں ہوتا ارے کوئی شعر لکھے، اس کا شعر مکمل نہ ہو اللہ کے نبی ﷺ وہ شعر بھی مکمل کر دیتے ہیں۔ جو بھی شعر پڑتا ہے اس کے شعر کے آخری حصّہ کو نبی اکرمﷺ نے مکمل کیا۔ سید نظام الدین شاہ نے اپنا کلام فارسی سے شروع کیا۔ اے قدیم رازدازِ ظلمناََ۔ ذوالقرنین وحید کچھ یوں۔ تیری محفل میں چلا آیا ہوں۔حاجی محمد افضل بٹ کچھ یوں گویاں ہوئے۔ پڑھتے صلی علی کے ترانے آج پروانے آئے ہوئے ہیں۔یہ ہوا یہ فضا کہہ رہی ہے آقا تشریف لائے ہوئے ہیں۔جناں نیں چمیاں سنہری جالیاں۔ جرمن زبان میں احمد حسین نے میلاد مصطفیﷺ پر تفصیلی روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ آج ہم میلاد مصطفی منانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں،سید افضال شاہ۔ جدوں گلاں کردا اے کوئی۔ سوہنڑے دے سوہنڑے شہر دیاں۔موجاں وچ موجاں آ جاونڑ ہنجواں دی وگدی نہر دیاں۔سرمد شاہ۔اللہ اللہ ہو لا الاہا ہو۔بارہ ربیع الاول کو آیا در یتیم۔رانا محمد آصف۔۔ جذبہ حسرت دیدار جو تڑپاتا ہے۔اپنی کوتاہ نگاہی کا خیال آتا ہے۔کوئی روتا ہے تو بھر آتی ہیں آنکھیں میری۔میں سمجھتا ہوں مدینہ اسے یاد آتا ہے۔محمد عرفان مدنی نے بیان بھی فرمایا اور نعت بھی پیش کی۔ محمد صدیق مصطفائی نے مایک لیتے ہی خوش گوار اعلان کر ڈالا کہ عبد اللطیف چشتی ایک ہفتہ کے بعد عمرہ پر جا رہے ہیں۔جس پر انہوں نے دل کو چھو لینے والی نعت کچھ یوں پیش کی۔ رائیا سوہنڑیا مدینے ول جا کے ساڈا وی سلام آکھ دئیں۔ سوہنڑے روزے اگے سِر نُوں جھکا کے ساڈا وی سلام آکھ دئیں۔ گھڑی حاضری دی جس ویلے آوے گی۔سُں رب دی خُدائی بھول جاوے گی۔دس پینڑ کے نظارے تینوں نُور دے۔نیڑے جس ویلے ہونویں گا حضور دے۔جدوں رونویں گا تو جالی ہتھ لا کے۔تے میرا وی سلام آکھ دئیں۔ اس نعت اور دعا کی درخواست پرعبد الطیف چشتی کا کہنا تھا کہ میں آپ کا سلام پیش کروں گا لیکن تم مجھے کہو گے میرے لئے ضروری ہو جائے گا یہ سب کچھ انہوں نے آنسووں کی لڑیاں بہتے ہوئے بیان کیا ان کی داڑھی مبارک آنسووں سے تر ہو چکی تھی ان کا فرمانا تھا مصطفائی صاحب کہ آپ نے اور محفل میں موجود تمام افراد نے جو مجھے حکم دیا میں آپ کا سلام امانت سمجھ کر پیش کروں گا میں سب دوست و احباب کے لئے دعا کروں گا اور ہاتھ جوڑ کر سلام پیش کروں گا۔ خصوصی دعوت پر آپ تشریف لائے پیرسید جعفر علی شاہ کو نعت کی دعوت دی گئی جس پر ان کا فرمانا تھا کہ مصطفائی صاحب اور عبداللطیف چشتی صاحب نے حضور کی بارگاہ میں حاضری کے سلسلے میں ایسی کیفیت پیدا کر دی پوری محفل کو مدینہ پاک کی زیارت کروا دی۔یہ ایسی کیفیت تھی ایس دوران جو بھی کسی دوست و احباب نے دعا کی ہوگی یہ قبولیت کا وقت تھا انشا اللہ اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پائے گی۔۔ مسکرا پیاں۔ آیاں دینڑ ودایاں حوراں نیں ے اج اتر کے عرش توں تھلے۔ اماں آمنہ دے در نوریاں نیں اَج آنڑ کے بُوے ملے۔ اک دوجے نوں دیکھ کے آکھن دیکھو سوہنڑے ولے۔سارے سوہنڑیاں وچوں آقا دی اَج ہو گئی بلے بلے۔صَلے علی پکارو سرکار آ گئے۔اُٹھو اے بے سہارو سرکار آ گئے۔میلاد کی گھڑی ہے چلو آمنہ کے در۔دکھ درد بھول جاوُ سرکار آ گئے۔ مولانا ملک محمد صدیق پتھروی نے مختصر وقت میں حضور اکرم ﷺ کی میلاد پر خوبصورت خطاب فرمایا۔ ان کا مزید فرمانا تھا کہ اللہ کے نبی ﷺ کے طریقے کو اپنا لے،اور حضور کی سنتوں پر عمل کرنا شروع کر دے تو اللہ کے رسول سے پیار کرنے والا بن جائے گا۔درود و سلام پیش کیا گیا مولانا حافظ قاری محمد عارف نے ختم قُل پڑھا۔جن افراد نے قرآن پاک۔درود شریف پڑھا دُعا کے لئے پیش کیا گیا ے قرآن پاک،درود و پاک اور سورتیں پڑھی گئیں اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا،دُعا فرمائی گئی۔بارہ ربیع اول کو شہید ہونے والے شہداء کے لئے خصوصی دُعا فرمائی گئی۔ اور بعد ازاں لنگر محمدی پیش کیا گیا۔