۔،۔تلاش۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
پچھلے دو سال سے یورپ کے کسی شہر سے کوئی صاحب بار بار مجھے فون کر تے تھے اور اپنے پاس آنے کی دعوت دیتے تھے میں شروع میں تو ٹالتا رہا لیکن جب انہوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو میں نے صاف انکار کر دیا کہ میرے لیے آپ کے پاس آنا ممکن نہیں ہے گھر کا واحد کفیل ہو نے کی وجہ سے دوسرا سرکاری ملازمت تیسرا کالم لکھنا، کتاب لکھنا اور روزانہ سینکڑوں بندوں سے ملنا لہذا میرے لیے دوسرے شہروں یا ملکوں میں جانا بہت مشکل ہے۔ میرے صاف انکار کو انہوں نے میری مغروری سمجھا اور فون کرنا بند کر دئیے۔ تین ماہ پہلے چند دوستوں کے بے پناہ اصرار پر میں برطانیہ گیا اور مختلف شہروں میں روحانیت تصوف پر ٹوٹے پھوٹے لیکچرز بھی دئیے اور بہت سارے پاکستانیوں اور غیر پاکستانیوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں بر طانیہ میں ایک ماہ گزارنے کے بعد میں واپس آکر بھی پرانی ڈگر پر چل پڑا دن رات کے مصروفیت اور میں دو دن پہلے پھر مجھے یورپ سے اسی صاحب کو فون آیا۔ انہوں نے پھر اپنا پرانا سوال دہرایا کہ آپ میرے پاس کب آرہے ہیں۔ انہوں نے آنے جانے کا ٹکٹ شاپنگ اور بڑی رقم کی بھی آفر کی پتہ نہیں مجھے کیوں ان کا لہجا برا لگا اور میں نے پھر انکار دیا کر دیا کہ یہاں کی مصروفیت مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ کے پاس آسکوں۔ میرے انکار کو انہوں نے توہین اعظم سمجھا اور بار بار مجھے مختلف ترغیبات دیں کہ آپ میرے پاس ضرور آئیں میرے انکار پر ان کے لہجے کی شائستگی رخصت ہوتی جا رہی تھی طنز اور تلخی ان کے لہجے پر غالب آرہی تھی لمبی چوڑی گفتگو کے بعد بھی جب میں نے انکار کیا تو وہ غصے سے پھوٹ پڑے آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں میرے پاس انڈیا اور پاکستان کے تمام بڑے صوفی اور اہل روحانیت آتے ہیں میرے پاس بے شمار روحانی سلسلوں کی خلافتیں ہیں۔ میں نے خود بہت سارے وظائف چلے اور مراقبہ جات کئے ہیں اِس کے بعد انہوں نے اپنی کرامات بیان کرنی شروع کر دیں اور یہ بھی کہ اگر آپ میرے پاس آتے تو پتہ نہیں میں آپ کو کیا کیا دیتا۔ جب وہ اپنا غصہ خوب نکال چکے تو میں انتہائی مہذب اور شائستہ لہجے میں کیا اگر آپ کو میری کوئی بات یا رویہ برا لگا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ ساتھ ہی میں نے ڈرتے ڈرتے ایک سوال کیا کہ آپ مجھ فقیر سیاہ کار سے کیوں ملنا چاہتے ہیں تو وہ بولے مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے میں تو فقیری چا ہتا ہوں مجھے اللہ کی تلاش ہے وہ ایک ہی وقت پر میرے مرشد ہونے کا دعوی کر رہے تھے اور اسی وقت مجھ سے سوال بھی کر رہے تھے۔ بہر حال میں نے ان کا غصہ ٹھنڈا کر نے کی پوری کوشش کی اور آنے کا وعدہ بھی کیا۔ محترم قارئین خدا کی تلاش فقیری اور روحانیت کا حصول ایسے سوال اور سوالی اکثر میرے پاس آتے ہیں اِن کی طلب اور سوال دیکھ کر مجھے مغلیہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کا ایک باکمال صوفی یاد آتا ہے جن کے بارے میں چند سال پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا۔ مغلیہ دور میں ایک مجذوب صوفی جو اپنی ہی ذات میں گم تھا اس کا نام میاں ڈڈھا تھا۔ یاد الہی میں ہر وقت مستغرق دنیا مافیا سے بے نیاز زیادہ تر وقت عبادت الہی میں گزارتا اس کے پاس جو بھی آتا اسے خدا کی عبادت کی تلقین کر تا بے نیاز اتنا کہ نہ مسندسجانے کا شوق اور نہ ہی مریدوں کی بھیڑ لگانے کا ارادہ اور نہ ہی پیر و مرشد کہلوانے کا شوق ہر درویش کامل کی طرح لوگ اس سے بھی پوچھتے میاں ڈڈھا رب کیویں لبھا۔۔۔اور وہ درویش کامل ہر بار بات ٹال دیتا۔ جب لوگوں کا اصرار بہت زیادہ بڑھا تو ایک دن اپنے مخصوص سحر انگیز لہجے میں یہ راز کھولا کہ رب کس طرح ملتا ہے فرمانے لگا کہ مجھے مغلیہ بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا پیغام ملا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ اب بادشاہ سے ملنا میرے لیے بے کار مشغلہ تھا کہاں فقیروں کا ڈیرا اور کہاں شاہوں کی دھوم دھام مجھ سے مل کر بادشاہ کی نیک نامی میں تو شاید اضافہ ہو مگر مجھے سوائے کو فت اور بد نامی کے کیا حاصل ہو گا۔ اِس لیے میں نے بادشاہ کی خواہش کو ٹھکرا دیا بادشاہ بار بار ملنے کی ضد کر تا رہا اور میں اس کی درخواست کو رد کر تا رہا۔ لیکن بادشاہ کو بھی ملنے کی ضد ہو گئی تھی اس نے پیغام بھیجا کہ اگر تم نہ ملے تو میں زبر دستی اپنے پا س بلا لوں گا یا اچانک خود تمھارے پاس پہنچ جاں گا۔ بادشاہ کی ضد سن کر میں بھی پریشان ہو گیا۔ ایک دن اچانک مجھے پتہ چلا کہ بادشاہ آخر کا ر مجھ سے ملنے آگیا ہے اور اس نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا ہے میرے چاروں طرف ہر راستے پر اپنے اہلکار کھڑے کر دیے تا کہ میں ادھر ادھر نکل نہ سکوں جب مجھے محسوس ہوا کہ اب بادشاہ ہر صورت میں میری جھگی تک آجائے گا تو میں وہاں سے نکلا اور باہر کی راہ لی۔ بادشاہ نے پہلے سے ہی یہ منصوبہ بنا رکھا تھا کہ میرے نکلنے کے تمام راستوں پر اپنے بندے کھڑے کر رکھے تھے اور ایک راستے پر بادشاہ خود بیٹھ گیا۔ اب جب میں نے نکلنے کی کوشش کی تو ہر راستے پر بادشاہ کے فوجی کھڑے تھے ہر راستے پر میرا ٹاکرا بادشاہ کے پہریداروں سے ہوتا اب جب تھک ہار کر سارے راستے میں نے بند پائے تو جو آخری راستہ بچا تھا میں اس پر چل پڑا جب اس کی نکڑ پر پہنچا تو آگے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر برا جمان تھا اور یوں میری بادشاہ سے ملاقات ہو گئی۔ اسرار و رموز سے بھر پور یہ واقعہ سناتے ہوئے مجذوب نے کہا جس طرح بادشاہ نے مجھ سے ملنے کے لیے سارے راستے بند کر دیے اور صرف ایک راستہ کھلا رکھا جس پر وہ خود موجود تھا اِسی طرح جب کوئی سالک یا متلاشیانِ حق رب سے ملنے کی کوشش کر تا ہے تو اللہ تعالی باقی دروازے بندکر دیتا ہے اور صرف وہی ایک راستہ کھلا رکھتا ہے جو اس کی طرف آتا ہے تو اِس طرح بندہ رب کو پا لیتا ہے سبحان اللہ صدقے جائیں اہلِ حق پر کس خوبصورت اور سچے طریقے سے بات سمجھا دی جب کہ ہم اِس مادی دنیا میں بے شمار راستوں پر چلتے ہیں دولت، شہرت، جاہ و جلال، طاقت، منصب پانے کے لیے اور یوں بندہ ساری عمر اِن جھوٹے راستوں پر ہی بھٹکتا رہتا ہے۔ اِن دنیاوہ راستوں پر بھی چلتا ہے اور رب سے بھی ملنا چاہتا ہے۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے جب تک بندہ ربِ ذولجلال کو ترجیح اول نہ بنالے صرف رب کو تمام رشتوں سے بڑھ کر نہ مانے تو کیسے پا سکتا ہے رب تو یکسوئی سے ملتا ہے۔ بیک وقت کوئی بندہ خدا اور بندہ زمانہ نہیں بن سکتا اسے ایک راستے کا انتخا ب کر نا پڑتا ہے۔ اگر بندے کی طلب سچی عبادت اور نیت خا لص اور ارادہ نیک ہو توپھر اللہ تعالی کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما دیتا ہے کہ باقی تمام راستے بند کر کے صرف ایک راستہ کھلا رکھتا ہے جس پر چل کر بندہ اپنے خالق اور رب کو پا لیتا ہے۔ جس طرح دو کشتیوں کا سوار کبھی ساحل پر نہیں پہنچا اسی طرح انسان بیک وقت طالب دنیا اور طالب خدا بن کر رب کو نہیں پا سکتا۔
0