0

۔،۔ بلند و بالا مقام کی تلاش ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ بلند و بالا مقام کی تلاش ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

مہاجرین کا مسئلہ سدا سے انسانو ں کے درمیان وجہِ نزاع بنا رہا ہے۔پسماندہ ممالک سے لوگ ہمیشہ خوشخال ممالک کی جانب ہجرت کرتے ہیں تا کہ انھیں روزگار کے بہتر مواقع میسر آ سکیں۔خلیجی ممالک اس کی بہترین مثال ہیں۔میانمار کا المیہ ہو یا پھر فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ ہو حکومتیں ہمیشہ مہاجرین کو قبول کرنے میں بخل سے کام لیتی ہیں۔پورے انسانی سفر میں فوجوں کی پیش قدمی اور حملوں کی صور ت میں مہاجرین کا مسئلہ ہمیشہ سرِ فہرست رہا ہے۔منگولوں کی یلغار نے جس طرح بستیوں کو تاراج کیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ جدید تاریخ میں یورپین یونین سے برطانیہ کو اپنی علیحدگی پر کئی وزرائے اعظم کی قربانی دینی پڑی کیونکہ برطانیہ دوسرے یورپی افراد کو اپنے ہاں جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا لہذا اسے یورپی یونین کو خیر آباد کہنا پڑا۔امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے غیر ملکیوں کو امریکہ سے بے دخل کرنے کیلئے جس طرح کی سخت پالیسی اپنائی اس نے دنیا کی بے چینی میں اضافہ کیا۔۹۷۹۱؁ ایک ایسا سال ہے جس میں سوویت یونین نے بھارتی شہ پر افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ دسمبر ۱۷۹۱؁ میں مشرقی بازو کو علیحدہ کرنے کے بعد دونوں ممالک وہ افغانستانی سر زمین سے مغربی پاکستان کے حصے بخرے کرنے کیلئے پر عزم تھے۔روسی ٹینک کابل میں داخل ہو گے اور صدر سردار داؤد کو قتل کر کے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔پاکستان اس وقت انتہائی مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔اس کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔روس پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کیلئے پاکستانی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن ان جان لیوا لمحات میں افغانیوں نے روسی جارحیت کے خلاف اپنے لہو سے ایک ایسی دیوار کھڑی کی جسے عبور کرنا روس کیلئے ممکن نہیں تھا۔روسی جارحیت سے ۵۳ لاکھ افغانی ہجرت پر مجبور ہوئے۔ جنرل ضیا الحق نے افغا نیوں کیلئے دیدہ و دل واہ کر دئے اور ان کی دل کھول کر امدادکی۔سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی رہیں کہ افغان مہاجرین کو کیمپوں میں محصورکیا جائے، انھیں پاکستانی معاشرے کا حصہ نہ بنایا جائے کیونکہ اس سے بے شمار سماجی اور معاشرتی قباحتیں جنم لیں گی لیکن جنرل ضیا الحق نے کسی کی نہ سنی اور یوں افغانی پاکستانی معاشرے میں رچ بس گے۔ وقت نے کروٹ بدلی دس سالہ جنگ کے بعد روس کو شکست سے ہمکنار ہو نا پڑا لیکن ۹۸۹۱؁ میں روسی انخلاء کے باوجود افغانیوں نے افغانستان واپسی سے گریز کیا۔انھیں پاکستانی معاشرہ اور اس کی معاشرت دل کو بھا گئی۔پاکستانیوں کی محبت اور ان کی نوازشیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئیں۔پاکستانیوں نے بھی افغانیوں کو اپنے دل میں بسا لیا کیونکہ افغانستان سے پاکستان کے تاریخی اور مذہبی تعلقات تھے جھنیں اتنی جلدی منقطع نہیں کیا جا سکتا تھا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانیوں کے ساتھ ہیروئین،کلاشنکوف اور اسلحہ کا کلچر پاکستان میں متعارف ہوا اور یوں پر امن معاشرہ بد امنی،لوٹ مار اور جنگ و جدل کا منظر پیش کرنے لگا اور یوں پاکستانی معیشت زوال پذیر ہونے لگی۔۱۰۰۲؁ میں نائن الیون کی انہونی نے دو قریبی دوستوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا کر دیا۔کل کے دوست ایک دوسرے کے دشمن بن گے۔ اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ نے امریکی ٹون ٹاور پر حملہ سے دہشت گردی کے جس نئے باب کا اضافہ کیا اس سے مخالفین کو بموں اور خود کش حملوں سے اڑانا نیا منشور قرار پایا۔نائن الیون کا واقعہ القاعدہ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا لہذا پاکستان کیلئے امریکی حمائت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔امریکی حمائت کے فیصلہ سے پاکستان القاعدہ کی دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بنااور یوں دو دوست ممالک ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہوگے۔خود کش حملے، بم دھماکے اور دھشت گردانہ کاروائیاں روز مرہ کا معمول قرار پائیں۔ ستر ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن دھشت گردی کی یہ آگ کسی طرح سرد نہ ہو سکی۔۶۱ دسمبر ۴۱۰۲؁ کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں خود کش حملے نے تحریکِ طالبان کے بارے میں سارے شکو ک شبہات کاخاتمہ کر دیا۔معصوم کلیوں کا جس بے رحمانہ انداز میں قتل کیا گیا اس نے تحریکِ طالبان کے خلاف شدید نفرت کو جنم دیا۔نفرت کی ایک ایسی لہر اٹھی جس میں ماضی کے سارے کردار قصہ ِ ماضی بن گے۔ملک کو اندرونی انتشار سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ غیر قانونی تارکین کو ملک سے بے دخل کیا جائے۔موجودہ حکومت کو داد دینا پڑے گی کہ اس نے ایک انتہائی مشکل فیصلہ کر کے پاکستانی معاشرہ کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا قدم اٹھا یا ہے جو ملکی استحکام اور اس کی معاشی ترقی میں میں اضافہ کا موجب بنے گا۔تارکین کی واپسی سے افغانستان سے ہمارے دیرینہ مراسم متاثر نہیں ہو نے چائیں۔،۔میں اپنے کالم کا اختتام ایک تاریخی واقعہ پر کروں گا۔علا مہ اقبال ۲۳۹۱؁ میں لاہور ریلوے سٹیشن پر اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی نادر شاہ کی نذر کرنے کیلئے کھڑے تھے۔در اصل شاعرِ مشرق نادر شاہ کو ایک ایسے مسیحا کے روپ میں دیکھ رہے تھے جو مسلم امہ کا مقدر بدل سکتا تھا۔چشمِ تصور سے دیکھئے کہ افغانستان کا حکمران بن جانے کے بعد نادر شاہ علامہ اقبال کو افغانستان میں اپنا شاہی مہمان بناتے ہیں اور اسی دوران نمازِ جمعہ کا وقت آن پہنچتا ہے۔ کیسا دلکش منظر ہو گا کہ اسلامی دنیا کا اکلوتا آزاد حکمران نادر شاہ نمازِ جمعہ کیلئے شاعرِ مشرق (علامہ اقبال) سے امامت کی درخواست کرتا ہے لیکن اقبال نادر شاہ کی درخواست کے جواب میں اپنی اس دلی خوا ہش کا اظہار کرتے ہیں کہ زندگی بھر ان کی یہ تمنا رہی کہ وہ کسی عادل حکمران کے پیچھے نماز ادا کرسکیں۔ قدرت نے آج انھیں ایک عادل حکمران کی امامت میں نماز کا جونادر موقعہ فراہم کیا ہے مجھے اس نعمت سے محروم نہ کیا جائے۔نماز ہوئی اور نادر شاہ نے امامت کا فریضہ سر انجام دے کر شاعرِ مشرق کی ازلی خواہش کی تکمیل کر دی۔یہ تھے افغانستان کے حکمران نادر شاہ اور اور یہ تھے اقبال۔کیا دوستی تھی؟کیا عزت تھی؟ کیا احترام تھا،کیا وقار تھا،کیا اعتماد تھا اور کیا تعلق تھا؟ دنیا ایسی دوستی کی مثال کہاں سے لائے گی؟کیا یہ ممکن ہے کہ وہی پہلی والی محبت جس کی بنیادیں نادر شاہ اورعلامہ اقبال نے باہمی عقیدت و محبت پر رکھی تھیں ایک دفعہ پھر ہمارا مقدر بن جائے؟افغانستان مسلمان ملک ہے اور ہمارا قدیم دوست ہے۔تحریکِ طالبان نے پاکستان میں دھشت گردی کی جو فصل کاشت کی ہے افغانی طالبان کو اس کاذمہ دار ٹھہرانا غیر مناسب ہے۔ ہمیں تحریکِ طالبان اور طالبان کو علیحدہ علیحدہ دیکھنا ہو گا۔افغانستان سے اپنے مراسم کو مضبوط ط بنانا ہو گا کیونکہ افغانستان پاکستان کے بارے میں ہمیشہ نرم گوشہ رکھتا ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حمائت کو تر جیح دیتا ہے۔پاکستان میں اس کی تہذیبی اور ثقافتی جڑیں بڑی گہری ہیں جس سے دامن نہیں بچایا جا سکتا۔ ہمیں مبارزت اور محاذ آرائی کی بجائے برداشت کا مظاہرہ کرنا ہو گا تا کہ مسلم ممالک کو قریب تر کیا جا سکے۔تارکینِ وطن کے انخلاء کے نام پر ہمیں شکوک و شبہات کی بجائے باہمی احترام کوبیدار کرنا ہو گا۔اس وقت مسلم امہ کسی بڑے راہنما کی تلاش میں ہے لیکن وہ راہنما نہیں مل رہا۔مسلم امہ منتشر ہے اور باہمی تنازعات میں الجھی ہوئی ہے۔اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک عذاب کی شکل میں انھیں ذلیل و رسوا کر رہا ہے۔مسلم ممالک میں باہمی احترام، دوستی، احساس اور باہمی یگانگت ہی مسلم امہ کو بلند مقام عطا کر سکتی ہے۔چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں بٹی ہوئی مسلم امہ کو اتحاد کی ضرورت ہے اور ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے اس کا منشور ہو نا چائیے۔وقت آ گیا ہے کہ مسلم امہ یہ فیصلہ کرے کہ اسے بلند و بالا مقام کی تلاش ہے یا اسے اغیار کے ہاتھوں رسواہونا قبول ہے؟؟ ؟۔۔؟؟؟۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں