۔،۔محبوب سبحانی ؒ۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
خا لقِ ارض و سما نے حضور سیدنا غوث الاعظم، شہباز لا مکانی قندیل نورانی عکس آیات قرآنی محبوب سبحانی کو غوثِ اعظم کا اعزاز بخشا۔ غوث اہل حق کے نزدیک بزرگی کا ایک خا ص مقام ہو تا ہے صدیوں سے روحانی دنیا میں شیخ حضرت عبدالقادر جیلانی غوثِ اعظم کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ غوث کے لغوی معنی فریاد رس یعنی فریاد کو پہنچنے والا چونکہ آپ غریبوں مسکینوں بے کسوں حاجت مندوں کے مسائل حل کر تے تھے اِس لیے آپ کو غوث اعظم کا خطاب دیا گیا۔ عقیدت مندو آپ کو پیرانِ پیر اور دستگیر کے لقب سے بھی یاد کر تے ہیں آپ آسمانِ تصوف کے روشن ترین چاند اولیائے کرام میں سب سے زیادہ محبوب آپ کا خاندانی نام محمد عبدالقادر اور لقب محی الدین (مذ ہب کو زندہ کر نے والا) آپ کی ولادت 470ھ میں ایران کے شہر جیلان میں ہو ئی اولیا کے سردار رمضان البارک کی پہلی تاریخ کو اس رنگ و بو کی دنیا میں تشریف لا ئے۔ اسی رات آپ کے والد محترم حضرت ابو صالح نے سرور کائنات سردار الانبیا ﷺ کو خواب میں دیکھا آقائے دو جہاں فرما رہے تھے اے ابو صالح تجھے اللہ تعالی نے فرزند صالح عطا فرما یا ہے وہ میرے بیٹے کی مانند ہے اور اولیا میں اس کا نام بہت اونچا ہے جس را ت محبوب سبحانی اس کر ہ ارض پر تشریف لا ئے اس رات پو رے شہر میں جس قدر بچے پیدا ہو ئے وہ تما م کے تمام لڑکے تھے اور پھر یہ تمام لڑکے جوا ن ہو کر ولایت کی اعلی منازل پر فائزہو ئے آپ کی اماں جان فرماتی ہیں کہ عبدالقادر رمضان میں پیدا ہو ئے اور آپ نے پورا رمضان دن کو دودھ نہیں پیا جب اگلا سا ل آیا تو اہل شہر بادلوں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکے تو لوگ شبے میں پڑ گئے کچھ لوگوں نے حضرت شیخ عبدالقادر کی والدہ محترمہ سے پو چھا کہ سیدہ کیا تمھیں چاند نکلنے کا پتہ ہے تو عظیم ماں نے فرمایا آج میرے عبدالقادر نے دن کے وقت دودھ نہیں پیا اِس لیے میں سمجھتی ہو ں کہ آج پہلا روزہ ہے پھر بعد میں معتبر شہادتوں سے بھی اِس بات کی تصدیق ہو گئی کیونکہ دوسرے شہروں میں چاند نظر آ گیا تھا۔ پھر عبدالقادر کی یہ کرامت قرب و جوار میں پھیل گئی کہ یہ سید بچہ دن کو رمضان میں دودھ نہیں پیتا۔ پھر بچپن میں ہی آپ کے والد کا سایہ اٹھ گیا تو آپ کے نانا اور والدہ ماجدہ نے آپ کی پرورش شروع کر دی، عظیم والدہ کی زیر نگرانی آپ نے 26سال کی عمر تک علم قرآن، علمِ فقہ، علم کلام، علم تفسیر، علم وحدت، علم نعت، علم ادب، علم نحو، علم عروض، علم مناظرہ، علم تاریخ اور علم انساب کی تکمیل کر لی۔ اتنی کم عمر ی میں اِس قدر علم پر عبور بھی شیخ کی زندہ کرا مت ہے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپ نے فتوی دینا شروع کیا تو دنیاوی علما کی صفوں میں کہرام مچ گیا کہ 26سالہ نوجوان علم شریعت کی گہرایوں سے کیسے واقف ہو سکتا ہے۔ اِسطرح علما ظاہر نے آپ کے خلاف دشمنی کا محاذ بنا لیا کہ عبدالقادر نے فتوی دینے کا اجازت نامہ کس سے حاصل کیا تو آپ دلنواز تبسم سے فرماتے میرے اساتذہ میرے علم سے واقف ہیں ان کا اطمینان ہی میرا اجازت نامہ ہے۔ کیونکہ عبدالقادر کے اساتذہ زیادہ تر گو شہ نشین تھے جن کی دربارِ خلافت تک رسائی نہ تھی اور نہ ہی انہیں اِس کی خواہش تھی۔ لیکن علما ظاہر کی تسلی نہ ہو ئی انہوں نے با قاعدہ مہم چلا ئی کہ جب تک یہ نوجوان بغداد کے نامور علما سے اجازت نہ حاصل کر سکے اس وقت تک یہ فتوی نہیں دے سکتا اور اجازت نامے کے لیے علما بغداد کے سامنے امتحان سے گزرنا پڑے گا اگر اِن علما کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے پا یا تو ہی اجازت نا مہ ملے گا۔آپ اِس کے لیے بلکل تیا ر نہیں تھے اہلِ دنیا کے سلوک سے جنگلوں بیابانوں میں جا نا چاہتے تھے لیکن عقیدت مندوں کے اصرار پر علما بغداد کے سامنے طالب علم کے طور پر حاضر ہو نے کے لیے تیار ہو گئے علما ظاہر بہت خو ش تھے کہ ہم عبدالقادر کو کبھی بھی پا س نہیں کر یں گے۔جبکہ عقیدت مند پریشان تھے۔ آخر وہ گھڑی آپہنچی کہ تمام علما بغداد ایک بڑی عمارت میں جمع ہو ئے بہترین ریشمی لباس پہن کر سرو ں پر عمامے سجائے پیشانیوں پر علم کی آگہی کا غرور اور تکبر کی لکیریں اور یہ اولیا کے سردار ایک معمولی جبہ پہنے عاجزی کا پیکر بنے ہو ئے کمرے میں داخل ہو کر علما کے سا منے پڑی نشست پر بیٹھ گئے علما بغداد غور سے نوجوان کو دیکھ رہے تھے کہ یہ علم کی گہرائیوں سے کیسے واقف ہو سکتا ہے مجلس پر سکوت طاری تھا آخر شیخ عبدالقادر کی نرم آواز گونجی حضرات میں اِس قابل تو نہیں کہ کسی امتحان سے گزر سکوں لیکن کیونکہ یہ مجلس اِسی لیے آراستہ ہو ئی ہے اِس لیے بسم اللہ کریں یہ کہہ کر اولیا کے سب سے بڑے ولی اللہ نے ایک نظر بھر کر علما بغداد کو دیکھا اور پھر ایک نظر نے ہی کمال کر دیا۔ سب کچھ زیر و زبر ہو گیا علما بغداد کی نظر جیسے ہی عبدالقادر کی نظر سے ٹکرائی تو عجیب انقلاب رونما ہوا اولیا کے سرتاج کی نظر میں اللہ کا نور تھا دنیا کی کون سی قوت ہے جو خدا کے نور کے سامنے ٹھہر سکے۔ علما ئے بغداد کے ذہنوں پر تاریک اندھیرے مسلط ہو چکے تھے ان کی دماغ تا ریک و یرانوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ علمائے بغداد کی زبانیں گنگ ہو چکی تھیں شیخ عبدالقادر نے حالت جذب و کن فیکون کی اِیسی نظر سے دیکھا کے علما بغداد کے ذہنوں کے چراغ تا ب نہ لا تے ہو ئے بجھ گئے۔ علما بغداد کو پتہ ہی نہ چلا جب اِن کے علم کے خزانے چوری ہو گئے ان کی علمی متا ع لٹ چکی تھی وہ بے بسی اور فالجی کیفیت میں پتھر کے مجسموں کا روپ دھار چکے تھے۔ علما بغداد آپ کا امتحان کیا لیتے وہ تو اپنی سب سے قیمتی چیز کے چھن جانے کی وجہ سے تصویر حیرت اور سوالی بنے کھڑے تھے۔ نگاہِ مرد، مومن کی ایک نظر نے ان کی ساری عمر کا علمی ذخیرہ سلب کر لیا علما بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کسی غیر مرئی قوت نے ان کے ذہنوں کی سلیٹ کو صاف کر دیا تھا بقول امیر خسرو چھاپ تلک سب چھین لی مو سے نینا ں ملا ئے کے (وہ تیری ایک نظر کیا تھی کہ جس نے میرے ماتھے سے بت پرستی کی تمام نشانیاں مٹا ڈالی) سرور دو جہاں ﷺ کی حدیث پاک ہے۔ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے دنیاووی علما اِس حقیقت کو نہ پا سکے کہ ان کے سامنے شیخ عبدالقادر اِس وقت کے اللہ کے نور سے دیکھ رہے تھے۔ علما بغداد کی بے بسی اور لا چارگی دیکھ کر غوث اعظم شفیق لہجے میں بو لے جناب آپ مجھ سے کو ئی سوا ل کیوں نہیں کررہے آپ کے بار بار کہنے پر حالت شرمندگی میں غرق علما بو لے ہم کیا سوال کریں علم تو ہمارے ذہنوں سے رخصت ہو گیا علما نے اپنی بے بسی اور شکست کا اقرار کیا تو جناب شیخ اٹھ کھڑے ہو ئے اور کہا مجھے اجازت دیں جب آپ واپس جانے لگے تو اہل بغداد نے عجیب منظر دیکھا علما بغداد سراپا التجا غوث اعظم کی منت سماجت اور گر یہ زاری کر نے لگے کہ ہمیں ہمارا علم واپس کر دیں ہم تو خا لی غباروں اور مشکیزوں کی طرح ہو گئے ہیں درو دیوار علما کی فریادوں سے گونجنے لگے اہل بغداد عجیب منظر دیکھ رہے تھے کہ امتحان لینے والے خود امتحان میں پھنس چکے تھے علما بغداد طالب علم سے علم کی واپسی اور بھیک مانگ رہے تھے پھر غوث اعظم عالم جذب میں بو لے میں عشقِ خداوندی کی آگ ہوں حال احوال سلب کر نے والا دریائے بے کراں اور راہنمائے وقت ہوں، میں نے آپ سب کو معاف کیا اللہ بھی آپ کو معاف فرمائے پھر آپ نے سوالی علما کو علم کی بھیک دے دی آپ کے جا تے ہی علمائے بغداد کے دماغ دوبارہ علم کے نور سے روشن ہو گئے ان کے مردہ دماغ زندگی پا گئے۔اِس واقعہ کے بعد زمانے کو آپ کے ظاہری اور باطنی علم و مقام کا پتہ چل گیا۔