۔،۔دعا۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
صابر تین سال بعد غیر متوقع میرے پاس آیا تھا میں اُسے دیکھ کر حیران تھوڑا پریشان بھی کہ وہ تین سال مجھ سے ناراض ہو کر یہ کہہ کر گیا تھا کہ اب میں ساری زندگی آپ کے پاس تو کیا کسی صوفی درویش کے پاس نہیں جاؤں گا آ پ جیسے لوگ مجھ جیسے پریشان لوگوں کو صرف لارا لگاتے ہیں کام کرتے نہیں صرف ٹالتے رہتے ہیں اب مجھے روحانیت تصوف فقیری درویشی او ردعا پر بلکل بھی بھروسہ نہیں رہا بلکہ اللہ پر بھی بھروسہ نہیں اللہ بھی امیروں کا ہے مُجھ جیسے غریبوں کو تو دنیا میں دھکے کھانے ذلیل ہونے کے لیے بھیجتا ہے دعا وظیفے آپ کو مبارک میں اب کبھی بھی آپ کے پاس نہیں آؤں گا آج جب دوبارہ آیا تو میری حیرت بنتی تھی کہ یہ واپس کیسے اور کیوں آگیا کہیں پھر تو اپنی بھڑاس غصہ نکالنے نہیں آگیا میں ملاقاتیوں کے ساتھ مصروف تھا میری نظر اُس کی نظروں سے ٹکرائی تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میری طرف بڑھتا چلا آیا میرے قریب آکر پیار سے بغل گیر ہو گیا اور میرے کان میں سرگوشی سے بولا جناب آج میں لڑنے نہیں بلکہ معافی اور شکریہ ادا کر نے آیا ہوں اُس وقت آپ کو میں غلط کہتا تھا اور خود کو سچا لیکن آج اقرار کرتا ہوں کہ آپ اُس وقت سچے اور میں جھوٹا خوابوں کی دنیا کا مسافر تھا جبکہ آپ حقیقت سے باخبر تھے آپ لوگوں سے مل لیں جب آپ فری ہو جائیں گے تو آپ کی صحبت میں چند گھڑیاں گزار کر چلا جاؤں گا دوسری بات آج میں کسی دنیاوی مسئلے کے لیے نہیں آیا بلکہ خدا کا بندہ بننے آیا ہوں صابر کی باتیں سن کر میں نے اطمینان کا سانس لیا ساتھ ہی ماضی کے اوراق پلٹتے چلئے گئے جب تین سال پہلے وہ میرے پاس کسی لڑکی کے عشق میں گر فتار آیا تھا وہ اُس وقت سر سے پاؤں تک اُس لڑکی کے عشق میں مبتلا تھا اور ہر قیمت پر اُسے حاصل بھی کرنا چاہتا تھا قصہ یہ تھا کہ یہ غریب تھا کسی دوکان پر سیل مین تھا وہاں پر وہ لڑکی شاپنگ کر نے آئی تو یہ اُس کی زلف کا اسیر ہو گیا اِس نے سستے داموں اُس کو شاپنگ کرائی تو لڑکی سمجھ گئی یہ کام کا بندہ ہے اِس کو اپنا موبائل نمبر دیا اور اِس سے بات چیت شروع کر دی اُس کی میٹھی باتوں میں آکر محبت میں گرفتار ہو گیا چھ ماہ تک لڑکی شاپنگ کرتی رہی اِسی دوران یہ پکڑا گیا کیونکہ یہ مالک کو بتائے بغیر اُس کو چیزیں دیتا تھا مالک کو پتہ چلاتو اُس نے اِس کو نوکری سے نکال دیا جب یہ نوکری سے فارغ ہو ا تو لڑکی نے دیکھا اب یہ کسی کام کا نہیں رہا اِس کو بلاک کر دیا جبکہ یہ عشق کی آگ میں جل رہا تھا جدائی ناقابل برداشت ہوئی اُس کو مختلف نمبروں سے کال کرتا وہ بلاک کر دیتی تو یہ مختلف بابوں بزرگوں کے پاس جانا شروع ہو گیا کسی نے میرا بتایا تو میرے پاس آگیا میں نے دکھی سمجھ کر تو جہ دینا شروع کی کیونکہ دوسرے بابے پیسے لیتے تھے میں نہیں تو میرے پاس تقریبا روزانہ آتا میں حوصلہ دیتا کہ اللہ بہتر کرے گا ساتھ وظائف بھی دئیے تاکہ اِس کے دل کو سکوں مل سکے یہ پروانے کی طرح میرا طواف کرتا روتا بلکتا منتیں ترلے کر تا جب لڑکی نہ مانی تو مُجھ پر بہت سارا غصہ نکال کر چلا گیا میں چند ملاقاتوں میں جان گیا تھا کہ لڑکی اِس کے ساتھ فلرٹ کر رہی ہے اس نے چیزیں حاصل کرنے کے لیے اِس کو اپنی اداؤں اور میٹھی باتوں میں الجھایا ہوا تھا لیکن صابر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا صابر جیسے بہت سارے لوگ ہر دور میں میرے پاس آتے رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کی کسی بھی بزرگ آستانے پر یہی لوگ سب سے زیادہ آتے ہیں بلکہ بہت سارے آستانوں کی رونق انہی پیار کے پروانوں کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ آتش عشق میں بھسم ہو رہے ہوتے ہیں محبوب کو حاصل کرنے کے لیے خوب دولت لٹاتے ہیں تحائف کی بارش کر دیتے ہیں ہر وقت ہر بات ماننے کے لیے تیار رہتے ہیں اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کے عشق میں مبتلاہو کر دولت آئے تو بنگالی بابوں کی چاندی ہو جاتی ہے پہلے تو اُس کی دولت کو لوٹتے ہیں پھر اُس کے جسم سے خوب کھیلتے ہیں کہ محبوب حاصل کرنا چاہتی ہو تو پہلے ہمیں راضی کرو اللہ کی پناہ ہے آج جب صابر آیا تو میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ میرے پاس واپس کیوں آیا لہذا میں جلدی اِس کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پوچھا آج میرا ناراض بھائی میرے پاس واپس کیسے آگیا تو صابر نے میرا ہاتھ گرم جوشی سے پکڑا اور بولا معافی مانگنے آیا ہوں میں جس لڑکی کی تلاش حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس آتا تھا وہ دل پھینک لوگوں کو ایسے جال میں پھنسا کر لوٹنے والی تھی جب میں آپ سے مایوس ہو کر اُس کے محلے بار بار گیا تو وہاں پر چند لڑکوں نے کہا یہ کال گرل ہے جو لڑکوں کو لوٹتی ہے لیکن میں پھر بھی اُس کے عشق میں جاتا رہا آخر کار میں اِس کے گھر میں ایک رات کو گھس گیا تو اِس نے مجھے بٹھا کر سمجھایا دیکھوں میں تم کو اپنا نوکر بھی نہ رکھوں میں دل پھینک ہر رات بندہ بدلنے والی ہوں تم اپنی زندگی میرے پیچھے برباد نہ کرو پھر اُس نے بہت سارے دوستوں کی تصویریں اور میسیجز دکھا کر مجھے کہا میرا خیال اپنے دماغ سے نکال دو اگر اب بھی میرا پیچھا کرو گے تو تم کو مروا دوں گی لہذا میں شکست خوردہ شرمندہ واپس آگیا چند دنوں بعد ہی عشق کا بھوت اُتر گیا تو آپ سے معافی مانگنے آگیا کہ ایک لڑکی میرے لیے ٹھیک ہی نہیں تو اللہ مجھے کیسے دیتا پھر صابر بہت ساری باتیں کر کے چلا گیا تو مجھے بہت سارے عاشق یاد آگئے جو اِسی طرح ناراض ہو کر گئے پھر مہینوں یا سالوں بعد سوری کر نے آگئے ساتھ ہی دعا کی حقیقت بھی سمجھ آگئی انسان بعض اوقات اللہ سے اِیسی دعا مانگتا ہے جو اُس کے لیے ٹھیک نہیں ہوتی یا اللہ اُس کو کچھ اور دیتا چاہتا ہے اللہ تعالی بندے کا ذوق طلب بڑھانے اور آتش شوق کو مزید تیز کرنے کے لیے دعا کو قبول کرنے میں دیر کر دیتا ہے یہ بندے کو تنگ کرنے کے لیے نہیں بلکہ دعا کو اسیر بنانے کے لیے ہو تی ہے حق تعالی بندے کو پر رکھنے کے لیے دیر کر تا ہے کہ یہ واقعی مجھ سے طلب کر رہا ہے یا کسی دوسرے در پر ماتھا رگڑنے جائے گا یا کسی دوسرے سے بھی آس لگائے بیٹھا ہے اور میرے پاس صرف دکھاوے کے لیے آرہا ہے کیونکہ محبوب خدا نبی رحمت سرور دوجہاں ﷺ کا فرمان ہے کہ رب ذولجلال تین بار منہ ادھر اُدھر کرتا ہے لیکن چوتھی بار اُس کا پیمانہ رحمت چھلک پڑتا ہے اور مانگنے والے کا خالی دامن خوشیوں سے بھردیتا ہے لیکن انسان بے صبر ہے وہ جلدی گھبرا کر چیخنا شروع کر دیتا ہے یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالی تو ہر انسان کی ضرورت سے بخوبی واقف ہے رب تو وہ ہے جو سیاہ راتوں میں سیاہ پتھر کے اندر رینگنے والے کیڑے کی ضرورتوں سے بھی واقف ہے اُس کی ہر ضرورت کا خیال اور مہیا کر تا ہے جورب ایک کیڑے کی سنتا ہے وہ اپنے خلیفہ اشراف المخلوقات کی کیوں نہیں سنے گا انسان خواہ گناہ گار ہو یا تہجد گزار بد کردار ہو یا متوکل بد صورت ہو یا خوبصورت وہ کسی کا کردار منہ دیکھ کر نہیں بلکہ اپنی شان کے مطابق دیتا ہے اِسی لیے تو حضرت علی ؓ نے کہا تھا الہی میرے ساتھ وہ معاملہ فرما جو تیری شان کے مطابق ہو وہ نہ کر جس کا میں حقدار ہوں۔
0