0

۔،۔ ذاتی انا کا زہر ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ ذاتی انا کا زہر ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

موجودہ حالات میں کسی کو عوام اور پاکستان کی فکر دامن گیر نہیں۔ہر کوئی لیلی ِ اقتدار کا غلام بنا ہوا ہے۔ذاتی مفادات ملکی مفادات پر مقدم ہو جائیں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کسی کو سبق سکھانے کی خاطر ادارے باہمی گٹھ جوڑ سے جس پہلوان کو تیار کرتے ہیں ایک دن وہی ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔پہلوان کتنی دیر تک اپنی گردن پیش کرتا رہے گا لہذا ایک دن تنگ آ کر وہ سر کشی پر اتر آتا ہے اور پھر اس کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔فرشتہ صفت انسان شیطانی پیکرکا روپ دھارن کر لیتا ہے اور پھر میڈیا ٹرائل سے اس کا مردہ رول دیا جاتا ہے۔یہ کہانی کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک سوچ کی کہانی ہے۔طاقت کی کہانی،اندھی قوت کی کہانی،برتری کی کہانی،انانیت کی کہانی،سپر میسی کی کہانی اور عقلِ کل کی کہانی۔مان جائیں،،سر نگوں ہو جائیں،سرِ تسلیم خم کر دیں توراوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن سر تابی کی صورت میں سزا کی مہر ثبت ہو جاتی ہے۔ستمبر ۶۹۹۱؁ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو مجبور کیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کریں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایسا حکم ماننے سے صاف انکار کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلی کے فلور پر اپنی جا ن تو دے سکتی ہیں لیکن اسمبی تحلیل نہیں کر سکتیں۔عوام کے جمہوری حق پر شمشیر زنی کی آئین انھیں اجازت نہیں دیتا۔اسمبلی تحلیل نہ ہوئی لیکن حکم عدولی کی وجہ سے انھیں ایک بہت بڑے سانحہ سے گزرنا پڑا۔ ہر کوئی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح با جرات،با ہمت اور وسیع القلب نہیں ہوتا کہ سب کچھ سہنے کے باوجود پر امن سیاسی جدو جہد کیلئے سینہ سپر ہو جائے۔عدلیہ کی نا انصافیوں اور مقتدرہ کی یک طرفہ کاروائیوں کے باوجودمحترمہ بے نظیر بھٹو کا لہجہ کبھی تلخ نہیں ہواتھا۔شائد ان کی خاندانی تربیت نے انھیں اپنی حدوں سے تجاوز کرنے سے روکاتھا یا ان کے اندر پر امن جدو جہد کا جو جنون تھاوہ اسے ایسا کرنے میں مانع تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹونے سب کچھ برداشت کیا لیکن پر امن سیاسی جدو جہدکو ترک نہیں کیا شائد یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جا تا ہے اور انھیں ایک ایسے استعارے کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے جس کی منشاء عوامی راج کی خاطر سب کچھ نچھاور کردینا تھا۔چلچلاتی دھوپ میں ننھے منھے بچوں کی انگلی تھامے جیل کے آہنی گیٹ کے باہر اپنے خاوند سے ملنے کی خاطر گھنٹوں انتظار کرنے کے باوجود بھی بی بی کا پارہ نہیں چڑھتا تھا۔بی بی نے دنیا کو بتا دیا کہ عورت کی برداشت،ہمت، جرات اور صبر مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتا۔ وہ کام جو پٹرول بموں،بندوق کی گولیوں اور آتشیں اسلحہ سے سر انجام پاتا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو نے وہ کام جیل کے گیٹ کے باہر انتظار کی کوفت کو سہہ کر سرانجام دے دیا۔پر امن جد جہد قربانی مانگتی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹونے وہ قربانی پیش کی۔یہ ایک غیر معمولی اظہاریہ ہوتا ہے جو ہر انسان کی بساط میں نہیں ہوتا۔جیل کے گیٹ کے باہر ایک پتھر پر بیٹھ کر بی بی نے پر امن جدو جہد کی جو تاریخ رقم کی وہ قابل فخر ہے۔نازوں میں پلی ہوئی ذولقار علی بھٹو کی لاڈلی بیٹی نے پر امن جدو جہد سے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اس نے حکمرانوں کے ناروا سلوک پر نہ کوئی شور کیا،نہ کوئی دہائی دی،نہ کوئی احتجاج کیا،اور نہ ہی اپنے ریاستی عہدے کا واسطہ دیا۔ ایک سابق وزیرِ اعظم ہونے کے استحقا ق کا بھی رونا نہیں رویا بلکہ مخالفین کے ہر وار کوخند ہ پیشانی سے جھیلا۔ اس کی یہی خندہ پیشانی اس کی فتح کا دیباچہ بنی۔مورخ انگشت بدندان ہیں کہ بھٹو خاندان کی بہادر سپتری کے اندر برداشت اور صبر کا یہ عظیم الشان ملکہ کہاں سے آیا؟کس نے اسے جمہوری جنگ لڑنے کا سلیقہ عطا کیا؟ایک نہتی لڑکی کیسے بندوق والوں پر فتح یاب ہو ئی؟ اس کی فتح کا راز کیا تھا؟ وہ تنہا ہونے کے باوجود سب پر بھاری کیوں تھی؟؟جنرل محمد ایوب خان،جنرل یحی خان،جنرل ضیا الحق،جنرل پرویز مشرف اور پھر جنرل قمر جا وید باجوہ جیسے طالع آزماؤں نے اس قوم کے ساتھ جو کچھ کیا وہ قابلِ معافی نہیں ہے۔ جنرل حمید گل،جنرل فیض حمید، جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر السلام کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جو گل کھلائے وہ ناقابلِ برداشت ہیں۔ایک طرف تو عسکری اداروں کی یہ کیفیت ہے تو دوسری جانب کہیں مولوی مشتاق ہے، کہیں انوار لحق ہے، کہیں محمد ارشاد ہے،کہیں چوہدر ی محمد افتخار ہے کہیں آصف سعید کھوسہ ہے،کہیں میاں ثاقب نثار ہے۔ ہرکوئی اپنے اپنے ایجنڈے سے جڑا ہوا ہے۔ کوئی آمر کو تین سال عنائیت کرتا ہے تو کوئی آمر کو گیارہ سالوں کی حکمرانی کا جواز فراہم کرتا ہے، کوئی قائدِ عوام کو پھانسی کی سزا سنا دیتا ہے اور کوئی عمر بھر کی نااہلی کا فیصلہ سنا دیتا ہے۔سب ذاتی مفادات کے اسیر ہیں، انھیں پروٹوکول اور عہدوں کی حرص نے اندھا کر رکھا ہے۔ ذولفقار علی بھٹو ایک اناپر ست انسان تھے اور ان میں اپنے کام سے لگن اپنی انتہاوں کو چھوتی تھی۔ ایک قوم پرست را ہنما شائد انانیت کی مکمل تصویر ہو تا ہے۔ وہ قوم کی تعمیر کی خاطربہت جلدی میں ہوتا ہے اور سستی اور کاہلی کو برداشت نہیں کرتا۔وہ اہم امور کو جلدی نپٹانا چاہتا ہے لیکن بیوو کریسی اور انتشار پسند قوتیں اس کی راہ میں مزاہم ہو جاتی ہیں تووہ شدتِ جذبات میں ریاستی قوت کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا کیونکہ مقصد قوم کی تعمیر ہو تا ہے۔ لیکن جہاں تک پر امن جدو جہد کا سوال ہے تو ذولفقار علی بھٹو نے ہمیشہ پر امن جدو جہد کا علم تھامے رکھا۔جنرل ضیا الحق جیسے آمر کے سامنے وہ پورے قد سے کھڑا ہوا لیکن نہتا ہونے کے باوجود اس نے اسلحہ،گولی اور بندوق کی سیاست کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ اپنے پیرو کاروں کو جمہوری انداز سے آمر سے جنگ لڑنے کی ترغیب دی۔ جیالوں نے بھٹو کی جنگ جس شا ند ار انداز میں لڑی وہ تاریخ ِ عالم میں منفرد بھی ہے اور قابلِ فخر بھی ہے،جن کو میری بات کا یقین نہیں آتا وہ لاہور قلعہ کے درو دیوار سے پوچھ لیں کہ جیالوں کی جرات و بسالت کے سامنے وہ کیوں رو دیا کرتے ہیں؟اہلِ جہاں کو علم ہے کہ جیالوں کی داستانِ وفا لاہور قلعہ کے درو دیوار پر رقم ہے اور صدیاں گزر جانے کے بعد بھی جرات و بہادری کی یہ داستان ایسے ہی دلکش اور پر اثر رہے گی اور جسے ان درو دیوار سے کوئی کھرچ کر علیحدہ نہیں کر سکتا کیونکہ بہادری کی داستانیں ایسے مٹا نہیں کرتیں۔ایک وقت آئے گا کہ لوگ اس جدو جہد کا حوالہ دینا باعثِ فخر سمجھیں گے ایسا کرنے کا خواب دیکھیں گے لیکن انجیر ہر پرندے کی غذا نہیں ہوا کرتی۔آئین کے پرستاروں اور طاقتوروں کے درمیان یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور اسے ابد تک جاری رہنا ہے۔طاقت اپنے ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے لیکن آئین کے متوالے انصاف و قانون کیلئے اپنی زندگیوں کا خراج دے کر طاقت کو سرنگوں کرتے رہتے ہیں۔جان تو جاتی ہے لیکن سر فروشوں کے لہو کی سرخ بوندوں سے جو معاشرہ قائم ہوتا ہے اس کی اجلتا اور دلکشی کا منظر بھی تو بڑا ہی حسین ہو تا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے آخری جیت آئین و انصاف کی ہی ہوتی ہے۔جنرل ایوب خان،جنرل یحی خان، جنرل ضیا ا لحق،جنرل پرویز مشرف اور پھر جنرل قمر جاوید باجوہ تاریخ میں دفن ہو جائیں گے، کوئی ان کا نام لیوا نہیں ہوگا لیکن وہ لوگ جو آئین و جمہوریت کیلئے اپنا لہو دیں گے اور زند انوں کی رونق بڑھائیں گے تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہ جائیں گے۔ سیاست کے نام پر جس طرح ایک مخصوص جماعت کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر جمہوریت کا خون کیا جا رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔ستم کی انتہا دیکھئے کہ ایک مخصوص خاندان کو اقتدار کی مسندکا سزاوار بنانے کیلئے آئین و قانون کو جس طرح روندھا جا رہا ہے وہ عوامی اذہان کو مزید بغاوت پر ابھار رہا ہے۔ایسا رویہ قومی یک جہتی اور اس کے اتحاد کیلئے زہرِ قاتل ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔جبر سے کبھی بہتر نتائج نہیں نکلتے لہذا قومی مفاد میں ذاتی انا اور دشمنی کو دفن کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں