0

۔،۔غزہ اورغزوہ۔محمد ناصر اقبال خان۔،۔

0Shares

۔،۔غزہ اورغزوہ۔محمد ناصر اقبال خان۔،۔

اِسلام دین فطرت ہے،دین کیلئے دُنیا ہزاروں بارقربان کی جاسکتی ہے لیکن دُنیا کیلئے دین پرسمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ جہان توایک امتحان گاہ ہے،ہمیں ہمارے افعال اوراعمال کا نتیجہ اگلے جہان میں ملے گا۔اِسلامیت سے قبل اِنسانیت کاکوئی تصور نہیں تھا،جس اِنسان میں اِنسانیت نہیں وہ شیطا ن سے بدتر ہے۔اگرہم میں سے کسی کو فلسطینیوں کادردبلکہ کرب محسوس نہیں ہوتااوروہ اسرائیلی فسطائیت کیخلاف آواز نہیں اٹھاتا تواُس کے سینے میں دل نہیں ہوسکتا۔فلسطینیوں کے کرب نے انہیں اللہ تعالیٰ کامزید مقرب بنادیا ہے جبکہ منافق اورفاسق قدرت کے غضب کیلئے تیار رہیں۔ اسرائیلی درندے غزہ میں اسلامیت اورانسانیت کی دھجیاں بکھیررہے ہیں،شیرخواروں سمیت فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے جبکہ ایٹمی پاکستان میں انتقال اقتدار کیلئے جمہوری اقدار کوتارتارکیا جارہا ہے، کنگز پارٹی کے نقوش واضح ہوتے چلے جارہے ہیں۔سیاسی بونوں کو کنگز پارٹی کاحصہ بنانے کیلئے چھڑی سے ہانکا جارہا ہے۔پاکستان میں مخصوص اورمایوس عناصر نے نظام عدل کوناکام کہنا شروع کردیا ہے کیونکہ اگرعدلیہ آزاد ہوتی تو ہزاروں بیگناہ سیاسی کارکنان قید نہ ہوتے۔ماضی میں ہماری ریاست اورقومی سیاست کے اندر نظریات کی بنیاد پراتحاد بناکرتے تھے لیکن اب نظریہ ضرورت اورآشیربادکے تحت بنائے جاتے ہیں۔جس سیاست کامحورنظریہ ضرورت ہووہ نظریاتی ریاست کو راس نہیں آتی۔ منتخب اور محبوب قیادت سے محروم پاکستان معتوب فلسطینیوں کی مدد کرناتودرکنار اسرائیلی بربریت کی خاطرخواہ مذمت کرنے سے بھی قاصر ہے۔میں مسلمان حکمرانو سے پوچھتا ہوں! تم مزید کتنازندہ رہ سکتے ہو،اس بیوفا زندگی کیلئے اپنے معتوب مسلمان بھائی بہنوں کو تنہا اورملعون یہودیوں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں۔کیا مسلمان حکمرانوں کا موت اورقیامت پر ایمان نہیں،اگرموت اٹل ہے توپھراسلامی ملکوں کے حکمران انفرادی اور اجتماعی طورپر بزدلی،مصلحت اورمنافقت کی چادر میں کیوں چھپ اوراب تک کیوں چپ رہے ہیں۔یاد رکھیں جو ارباب اقتدار وا ختیار ہیں ان سے روزمحشر ان کے اختیارات کاپورا پورا حساب لیاجائے گا۔ اللہ ربّ العزت کومسلمانوں کاجہاد سے منہ پھیرناہرگز پسند نہیں، موت کاجو وقت اورمقام مقرر ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔کفار کیخلاف میدان جنگ میں شجاعت کامظاہرہ اورجام شہادت نوش کرنیوالے فلسطینیوں نے بڑے بڑے مسلمان سورماؤں کوپچھاڑدیا ہے۔یادرکھیں اگر محض اجتماعی دعاؤں سے مسلمانوں کودشمنان اسلام پرغلبہ ملناہوتا تو سیّدالمرسلین، خاتم النبیین،شفیع المذنبین، رحمت اللعالمین، نبی الحرمین حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم براہ راست متعدد غزوات کی قیادت اورحضرت حمزہ ؓ سمیت متعدد صحابی شہادت کاجام نوش نہ فرماتے۔اللہ ربّ العزت نے عہدنبوتؐ سمیت ہرعہد کے مسلمانوں پرجہاد فرض فرمادیاتھا،اس پراجتہاد اوراس سے فرار نہیں ہوسکتا۔افسوس غزوات کے وارثوں نے غزہ کے مجاہدوں، شہیدوں اورغازیوں کوتنہا چھوڑدیا۔انبیاء کے ساتھ نسبت نے سرزمین فلسطین کومقدس اوربیش قیمت بنادیا ہے،اس کی حفاظت اورآزادی پرسمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔نڈرفلسطینی انبیاء کے وارث ہیں،ان کی زندگی اورموت دونوں عام مسلمانوں سے بہت مختلف بلکہ منفرد ہیں۔مجھے فلسطینی شہیدوں کے مقدس خون سے حسینیت ؑ کی مہک آتی ہے۔فلسطینی شہداء کی زبانوں سے کلمہ شہادت سننا قابل رشک ہے۔ متعدد معاشروں کے مخصوص و منحوس طبقات کی عاقبت نااندیشانہ ترجیحات اورآدم خور سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو بردبار،دردمند اوردانشمندقیادت سے محروم کردیالہٰذاء ہوس پرست انسانوں کی حیوانیت کے نتیجہ میں بار بار انسانیت کاجنازہ اٹھنا فطری ہے۔اگر دنیا کے دورچار بردبار حکمران سنجیدہ سفارت کاری کرتے تویقینا روس اوریوکرین کے درمیان تصادم ٹل سکتا تھالیکن امریکا سمیت مقتدرقوتوں نے اپنا اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے اس آگ پرتیل چھڑکنا ضروری سمجھا۔دنیا کی مقتدر قوتیں اسرائیل کوبھی فلسطین کیخلاف بدترین بربریت اورفسطائیت سے روک سکتی تھیں لیکن انہوں نے ڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کادفاع شروع کردیا۔ میں سمجھتا ہوں جنت اورجہنم کا فیصلہ تومحشر کے بعد ہوگا لیکن ہم دنیا داروں نے اس فانی دنیا کوجنت ارضی کی بجائے دوزخ بنادیاہے۔آج ہماری دنیا کوفتوحات سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت ہے،بارود سے انسانوں کی بھوک نہیں مٹائی جاسکتی۔یادرکھیں دوسروں سے نفرت ایک جنون ہے لیکن انسانوں کو اطمینان اور سکون صرف صلہ رحمی میں ملے گا۔ شہادت ہرگز شکست نہیں ہوتی لہٰذاء اسرائیلی نفرت جبکہ فلسطینی نصرت کی راہ پرگامزن ہیں۔اسرائیل کاجنون ہارگیا جبکہ فلسطینی اپنے مقدس خون سے اپنی جیت کی تاریخ رقم کررہے ہیں۔قدرتی وسائل توقادر وکارساز اللہ ربّ العزت کی تقسیم ہیں توپھر دوسروں کے وسائل پرمیلی نگاہ ڈالنا اوروسائل ہتھیانے کیلئے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو مسائل کی آگ میں جھونک دینا کہاں کی انسانیت ہے۔ماضی میں نظریات کی بنیاد پراقوام کے درمیان تصادم ہوتا تھا لیکن عہدحاضر کے نام نہاد مہذب انسان مالیات کے نام پربیگناہ انسانوں کوموت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔بدقسمتی سے مادہ پرستی نے آدم زاد کوآدم بیزاربنادیاہے۔مقتدر ملک” تیل “کیلئے زندہ انسانوں کو ان کے اپنے گرم خون میں ” تل” رہے ہیں۔انسانیت کو مخصوص ناسوروں کے سوا کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ دنیا جہاں کسی دورمیں انسانیت اوراخلاقیات کی بنیادپرفیصلے ہوا کرتے تھے،اب وہاں مالیات کی بنیادوں پرمعاملات طے پاتے ہیں۔دنیا میں حکمران توبہت ہیں لیکن مدبرقیادت کاقحط ہے۔کشت وخون اوراس کے نتیجہ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی مذمت کرنا اہم نہیں بلکہ سیاسی ” داؤ”اور”وار” سے دوملکوں کے درمیان” وار” نہ ہونے دینا قائدانہ صلاحیت ہے۔طاقتور ملک کمزوروملکوں کے قدرتی وسائل ہڑپ کرنے کی آڑ میں انہیں اجاڑاورتختہ مشق بنا رہے ہیں،جس طرح برطانیہ ماضی میں برصغیر سے بہت کچھ چھین کرچلتابنا تھا۔آج دنیا میں آگ بھڑکانے والے بہت ہیں لیکن بجھانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ اقوام متحدہ ایک عمارت نہیں بلکہ ایسا تابوت ہے جہاں قیام امن کیلئے تدبیریں نہیں صرف تقریریں کی جاتی ہیں۔ قوت ایمانی پرانحصار فلسطینیوں کاواحدہتھیار ہے۔راقم نے عہدحاضر میں فلسطینیوں سے بڑھ کرکوئی بہادر اورنڈر قوم نہیں دیکھی، ان کے شیرخوار بچے بھی دشمن کے مدمقابل شیر کی مانند سینہ سپر ہیں۔میں نے ایک شیرخوارفلسطینی کو اپنے ایک ہاتھ میں فیڈرجبکہ دوسرے ہاتھ میں پتھر اٹھائے تحریک آزادی میں شریک دیکھا۔دنیا بھر کے باضمیر انسان اہل فلسطین کے حامی ہیں تاہم شیاطین کااسرائیل کی طرف جھکاؤ فطری ہے۔ آج پھر غزہ کسی غزنوی ؒ کا منتظر ہے،ایک ایسا نڈرمجاہدجس کی حیات دشمنان اسلام کیلئے حمیت اورہیبت کی غماز ہو۔عہدحاضر کے عربوں نے تو اربوں سے دل لگالیا جبکہ ایٹمی پاکستان کی پاک فوج بدقسمتی سے پراگندہ سیاست میں الجھی ہوئی ہے۔خلیجی حکمرانوں نے اپنے اوراسلام کے درمیان خلیج پیداکرلی۔اللہ تعالیٰ نے عرب ملکوں کو تیل کی صورت میں جو قدرتی اورقیمتی وسائل عطاء فرمائے ہیں،انہیں اسلام کی بجائے اپنے اپنے اقتدار کے استحکام اوردوام پرصرف کیاجارہا ہے۔اگرمسلمان اپنے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کی رسی اور جہاد کادامن نہ چھوڑتے توآج ہمارے فلسطینی اورکشمیری بھائی بہنوں کو اسرائیل اورانڈیا کے ہاتھوں بدترین فساد اور نسل کشی کاسامنا نہ ہوتا۔ حسینیت ؑ کے علمبردار فلسطینیوں کا نظریہ جیت گیا جبکہ یذیدیت کی طرح اسرائیلی فسطائیت بھی ہارگئی۔اسرائیل کی بدترین بربریت نے انسانیت کامفہوم تبدیل کردیاہے لیکن اس کے باوجوددنیا کاہرزندہ ضمیر انسان فلسطینیوں کا ہمدرداورحامی ہے۔ دنیا کیلئے ملعون اسرائیل کاوجود ایک ناسور ہے، اس کادھڑن تختہ ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ مصلحت پسنددشمن کا معاشی بائیکاٹ کیا جبکہ نڈر سپوت ظلم کرنیوالے ہاتھ کاٹ دیا کرتے ہیں،اسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ بھی کریں لیکن اسلام جان کے بدلے جان کاحامی ہے لہٰذاء فلسطینی شہیدوں کاانتقام لیاجائے۔ اسرائیلی فسطائیت کے نتیجہ میں دنیا کادودھڑوں میں بٹوارہ انسانیت کو مزید نفرت کی آگ میں جھونک دے گا،اگرمقتدر قوتوں نے غزہ میں جاری بدترین اسرائیلی غدرنہ روکا تووہ بھی اس آگ میں جھلس سکتے ہیں۔ اسرائیل کے کیمپ میں بیٹھے مقتدر ملک انسانیت کے مجرم ہیں،تاریخ انہیں شیرخوارفلسطینیوں کاقتل معاف نہیں کرے گی۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں انتہاپسند یہودوہنود سے زیادہ کسی نے امن اور انسانیت کونقصان نہیں پہنچایا۔ سرمایہ داری نے انسانوں سے روادری اوربردباری چھین لی ہے۔دنیا کی کسی مادہ پرست حکمران شخصیت کی طرف سے اسرائیل کوسیز فائرپرآمادہ کرنے کی سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی بلکہ امریکا،کینیڈا،برطانیہ اورفرانس اسرائیل کواسلحہ اورحوصلہ دے رہے ہیں۔ اس بار اسرائیل نے جنون کی انتہاکردی ہے،اس ملعون کومذمت نہیں مزاحمت کی زبان میں سمجھاناہوگا۔ دعا ہے دنیا کانظام نبض شناس اورفرض شناس قیادت کے سپردہو، عالمی برادری کوجوہری ہتھیاروں کی تیاری اورتجارت نہیں سرطان سمیت ہرمہلک بیماری سے نجات کیلئے میدان طب میں تحقیقات اوراصلاحات کی ضرورت ہے۔مخصوص ملک جوخطیرسرمایہ انسانوں کے قتل عام اورکشت وخون پرصرف کرتے ہیں اس سے کئی ملین انسانوں کی زندگی بچائی اوربھوک کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔ افسوس شیرخواروں سمیت فلسطینیوں کی بقاء کیلئے جہاں اقدامات ناگزیر تھے وہاں محض بیانات پراکتفاکیاگیا۔ بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں سمیت بااثرعالمی شخصیت کوئی غزہ کی آگ بجھانے اورشیرخواروں کی زندگی بچانے کیلئے تیار نہیں۔ عہدحاضر کے مخصوص سلاطین اورشیاطین میں کوئی فرق نہیں رہا۔ ظلم ہوتے دیکھنااورپھربھی خاموش رہنا بدترین ظلم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں