0

۔،۔گالیوں سے دعاؤں تک۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔گالیوں سے دعاؤں تک۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میں خوشی کامرانی کے ساتویں آسمان پر کیف و سرور کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا میری روح عالم وجدمیں جھوم رہی تھی میری خوشی کی وجہ وہ معاوضہ تھا جو رب تعالیٰ نے آج پھر مجھے عطا کیا تھا جب ہمیشہ کی طرح مہربان رب مجھ پر مہربان ہوا مجھ سیاہ کار کی دعا کو قبولیت کا جامہ پہنا یا یہ معاوضہ روپیہ پیسہ یا دنیاوی مادی شکل میں نہیں تھا گلاب کے پھولوں جیسی مسکراہٹ تھی جو مہناز بیٹی کے چہرے پر رقص کر رہی تھی وہ میرے سامنے بیٹھی تھی اُس کے چہرے پر سکون اطمینان خوشی سرشاری تھی میں جھک کر اُس کے قریب ہوا او رسرگوشی میں بولا آج میری بیٹی مجھے گالیاں نہیں دے گی میں انتظار میں ہوں کہ کب میری بیٹی کے منہ سے آگ برساتی گلیوں کی برسات ہو گی اور میں خاموشی سے سنوں گا تو ناز نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کانوں کو لگائے پھر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے ڈبڈبائی شرمندہ نظروں سے بولی آج تو میں معافی مانگنے اور دعائیں دینے آئی ہوں پھر اُس کے ہونٹوں سے دعاؤں کے پھول شدت سے جھڑنے لگے آسمان کی طرف دیکھ کر التجا کی پھر میری طرف دیکھ کر بولی اللہ میاں زمین پر جتنے ریت کے زرے ہیں سمندر کے پانی کے قطرے ہیں درختوں پر پتے ہیں اُن سے بھی زیادہ باباجی کو خوشیاں دے باباجی کو کبھی غم تو کیا کبھی غم کا سایا بھی نہ پڑے پھر اُس کی شکر بھری آنکھوں سے خوشیوں کے موتی جھڑنے لگے وہ خوشی سے رو بھی رہی تھی ساتھ میں وقفے وقفے سے دعائیں بھی دے رہی تھی اُس کے چہرے کی مسرت بھری مسکان خوشی چہرے پر موت کی زردی کی جگہ صحت خوشی کی مسکراہٹ اطمینان میری روح میں بھی خوشیوں کے فوارے پھوٹ رہے تھے باطن کے عمیق ترین بعید ترین گوشے مشک و عنبر سے مہک رہے تھے میری خوشی اور معاوضہ یہ تھا کہ سوہنے رب نے ہمیشہ کی طرح مجھ سیاہ کار کو پھر کسی کی خوشی صحت کا وسیلا بنا دیا موت کے جھولے میں جھولنے والی مہناز خوشی صحت کے گلشن میں تروتازہ نکھرے رنگ بھرے سرخ گلاب کی طرح مہک رہی تھی اُس کے انگ انگ سے سرشاری خوشی طمانیت کے چشمے پھوٹ رہے تھے لوگ اُس پر پاگل پاگل کے نشتر چلاتے تھے ذہنی مریضہ لا علاج پاگل ڈرامہ باز و رنگ رنگ کے الزامات کے تیر چلاتے تھے یہ بیچاری واش روم کمروں میں چھت پر کونوں میں جاکر روتی تھی اللہ میاں میں لوگوں کے سامنے تماشہ بن کر رہ گئی ہوں مجھ پر رحم فرما میری مدد فرما میرا پاگل پن دور فرما میری ذہنی حالت درست فرما میں بنگالی جادوگروں کے سامنے کھلونا بن کر رہ گئی ہوں مجھے صحت دے مجھے ٹھیک کر دے لیکن پاگل پن بیماری کی سیاہ رات بہت طویل ہو گئی تھی پھر اللہ کو ترس آگیا مجھے مہناز سے پہلی ملاقات یا دآگئی جب اس کی بڑی بہن کا چند ماہ پہلے مجھے فون آیا سر ہمیں کسی نے بتایا ہے کہ آپ روحانی علاج کرتے ہیں سر میری چھوٹی بہن پر بہت زیادہ آسیبی جناتی اثرات ہیں سر ہم پاکستان کے تقریبا سارے شہروں کے روحانی آستانوں مزاروں درباروں ملنگوں بابوں کے پاس بار بار جا کر ذلیل و رسوا ہو چکے ہیں لیکن میری بیمار بہن کو کہیں سے بھی شفا نہیں ملی اب کسی نے آپ کے بارے میں بتایا ہے تو آخری امید کے طور پر اب آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں آپ وقت اور جگہ کے بارے میں بتا دیں تاکہ میں اپنی بیمار بہن کو آپ کے پاس لاسکوں اور کیا آپ میری بہن کا علاج کر سکتے ہیں تو میں بولا بہن جی شفا تو اللہ تعالی کے پاس ہے ہمارا کام کو شش کرنا ہے وہ خیر ڈال دے تو اُس کی مہربانی ہے ورنہ اُس بے نیاز رب تعالی کو ہم کیا کہہ سکتے ہیں پھر ایڈریس وغیرہ لے کر مقررہ دن بڑی بہن مہناز کو لے کر میرے پاس آگئی بہن کو اِس نے دور بٹھا دیا اور اکیلی میرے پاس آکر دھیمے لہجے میں بولی سر میری بہن دور گراونڈ میں بینچ پر بیٹھی ہے اُس کو آپ کے پاس لانے سے پہلے میں آپ سے علیحدگی میں بات کر نا چاہتی ہوں اگر آپ میری بات سننے کے بعد مجھے اجازت دیں گے تو پھر میں اپنی بہن کو لے کر آپ کے پاس آؤں گی اگر آپ اجازت نہیں دیں گے تو میں اپنی ذہنی مریضہ بہن کو واپس لے جاؤں گی یہ سوچ کر کہ ابھی ہماری آزمائش کے دن اور باقی ہیں وہ بہت پریشان تھی میں نے حوصلہ دیا اور کہا آ پ پریشان نہ ہوں مجھے بتائیں اصل وجہ کیا ہے آپ کیوں پریشان ہے یہ میرا روزانہ کا معمول ہے اللہ کرم کرے گا تو وہ بولی سر یہ روز کا کیس نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا الگ ہی کیس ہے آپ نے ہزاروں لوگوں کا روحانی علاج کیا ہو گا لیکن ایسا کیس شاید آپ کے پاس نہ آیا ہو میری بہن جیسے ہی کسی روحانی معالج کے سامنے بیٹھتی ہے اور وہ اِس کا علاج یا دم کرتا ہے تو یہ سر عام بلند آواز میں اُس کو گالیاں دینا شروع کر دیتی ہے سر یہ گالیاں یہ خود نہیں بلکہ وہ خطرناک جن دیتا ہے جو اِس کے اندر حلول کر جاتا ہے وہ ذہنی بیماری کو جن کے کھاتے ڈال رہی تھی پھر میری اجازت دینے پر یہ مجھے اپنی بہن تک لے گئی جو طویل عرصے کی بیماری کی وجہ سے ہڈیوں کا چلتا پھرتا ڈھانچہ تھی وحشت خوف بیماری اِس کی آنکھوں اور چہرے سے جھلک رہی تھی میں جیسے ہی اِس کے سامنے جا کر بیٹھا اِس نے حسب معمول گالیوں کی برسات شروع کر دی جن کی تفصیل میں جانا میں مناسب نہیں سمجھتا گالیوں کے ساتھ وہ مجھے اشتعال بھی دلا رہی تھی کہ تمہارے جیسے بڑے بڑے عامل آئے ہیں جو میرا علاج نہیں کر سکے تم کیا اور تمہاری اوقات کیا ہے تم میرا علاج نہیں کرسکتے میں بغور اُس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا مختلف عاملوں کے تجربوں سے گزرنے کے بعد بیچاری اپنا ذہنی توازن کھو چکی تھی پتہ نہیں کس عامل نے ما رکٹائی یا جنسی چھیڑ خانی کی ہو کہ بیچاری اپنے حواس کھو بیٹھی میرے پاس اِس بیٹی کے علاوہ بہت سارے کیسز ایسے آچکے ہیں جب کوئی بچی آسیبی یا ذہنی مرض کا شکار ہو ئی یا مرگی کا دورہ پڑا تو گھر والے جاہل عامل کے پاس لے گئے جس نے مار مار کر اُس اور بگاڑ دیا جنسی چھڑ خانی کی کہ معصوم بچی پاگل ہوگئی اور پھر والدین ایک با بے سے دوسرے بابے کی چوکھٹ پر دھکے کھاتے نظر آتے میں نے اچھی طرح دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اِس کا روحانی علاج قرآنی کرتے ہیں ساتھ میں بے خوابی کا علاج میڈیکل گولی سے کرتے ہیں میں نے روحانی علاج اللہ کا نام لے کر شروع کیا ساتھ میں بہت بحث مباحثے کے بعد بڑی بہن کو قائل کیا کہ جادو جنات کی وجہ سے اِس کے دماغی کیمیکلز کا توازن بری طرح خراب ہو چکا ہے لہذا خدا کے لیے ایک چھوٹی سی گولی میرے کہنے پر صرف پندرہ دن کے لیے شروع کر یں تاکہ دماغی توازن درست ہو سکے بڑی بہن نے میری بات مانی پندرہ دن بعد فون آیا کہ جنات جسم سے نکل گئے ہیں اب گالیوں کا سلسلہ تھم چکا ہے دم کا پانی اور ذکر اذکارجاری ہیں ایک ماہ تک لڑکی مکمل طور پر صحت مند ہو چکی تھی جسم پر بیماری کی زردی کی جگہ سرخی آرہی تھی آج تین ماہ بعد مہناز مکمل صحت یاد ہو کر میر سامنے مسکراتی آنکھوں اور گلاب چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی دونوں بہن کے منہ سے گالیوں کی جگہ دعاؤں کے پھول جھڑ رہے تھے مہناز جانے لگی تو پیار کے لیے میرے سامنے سر جھکایا میں نے آسمان کی طرف دیکھا شکر گزارلہجے میں بولا اے اللہ میاں تیرے بھید نرالے کس طرح گالیوں کا سفر دعاؤں تک ختم کرتا ہے تو عظیم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں