0

۔،۔ کردار کی عظمت ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

0Shares

۔،۔ کردار کی عظمت ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔

پاکستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ معاشی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟زبوں حالی کس کے دستِ کمال کا تحفہ ہے؟کون ہے جس نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے؟کون ہے جس نے اس کے خزانوں کو خالی کیا ہے؟میری ذتی رائے ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دورِ حکومت میں معاشی تباہی کی قصور وار ہیں۔اقتدار کے خاتمے کے بعدسب تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس اختیارنہیں تھا۔انھیں فیصلوں کی آزادی نہیں تھی۔ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔وہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے کر نہیں پاتے تھے،انھیں مجبور بنا کر رکھا جاتا تھا،اسٹیبلشمنٹ ان پر اپنے فیصلے مسلط کرتی تھی حالانکہ جب سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہیں تو ان کا دماغ ساتویں آسمان پر ہوتا ہے اور وہ کسی کی بات کو وزن نہیں دیتے۔وہ خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھ کر اپنی من مانیاں کرتے ہیں، انھیں ہر مشورہ نا گوار گزرتا ہے،وہ مشورہ سننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیونکہ وہ خود کو عقل و دانش کا پیکر سمجھتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ ملکی معیشت کی تباہی کی صورت میں بر آمد ہوتا ہے۔اس وقت انھیں ہر مشورہ نا گوار گزرتا ہے،وہ مشورہ سننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیونکہ وہ خود کو عقل و دانش کا پیکر سمجھتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ایک حققیت ہے اور ساری سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر ان کے درِ اقدس پر سجدہ سہو بجا لاتی ہیں۔پی پی پی جیسی انقلابی جماعت کو بھی آخرِ کار اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو رام کئے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسٹیبلشمنٹ کی قوت کا اندازہ لگانا ہو تو پھر ۸۸۹۱؁ میں پی پی پی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اسے یاد کیجئے۔جنرل حمید گل کی زیرِ سرپرستی میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام پی پی پی کا راستہ روکنے کیلئے بنایا گیا تھا۔اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کوحقِ حکومت تفویض کرنے سے قبل اپنا صدر،وزیرخارجہ اور وزیرِ خزانہ ادھار دیا تھا۔ اختیارات کی منتقلی توبہت بعد کی بات ہے۔انتقالِ اقتدار تو ہو جاتا ہے لیکن انتقالِ ا ختیار نہیں ہوتا۔ جو مکمل اختیارات کا سوچتا ہے وہ سڑکیں ناپتا رہتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اٹھارہ ما ہ کے بعد بے نظیر حکومت تاریخ کا حصہ بن چکی تھی۔گیارہ سالوں کی صعوبتوں اور جلا وطنیوں کے بعد حکومت ملی بھی تو لنگڑی لولی جسے اٹھارہ ماہ سے زیادہ اقتدار میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔اس وقت تو سارے نام نہاد جمہوریت پسند بی بی کے خلاف متحدہ محاذ بنائے ہوئے تھے اور اسے سیکورٹی رسک قرار دے رہے تھے۔اقتدار کی خاطر وہ پاگل پن کا شکار ہو چکے تھے۔جن کی منزل اقتدار ہو وہ کسی کی قربانیوں کو کبھی اہمیت نہیں دیتے۔کیا کہیں پر اپنے ملک کی خاطر جان لٹانے والوں کے ساتھ ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے؟ ایٹم بم کے خالق اور اس کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابلِ یقین ہے۔جیلوں، زندانوں،آزمائشوں اور مشکلات کے طویل سفر کے بعد تو اعزازات سے نوازا جاتا ہے لیکن پاکستان میں جدو جہد کا انعام اعزاز ات نہیں بلکہ رسوائی،جیلیں اور مرگِ بے شرف ہوتا ہے۔ عدلیہ اور تمام ریاستی ادارے زورا وروں کے قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں اور یوں ظلم کی نئی داستان رقم کرتے چلے جاتے ہیں۔ مععتوب ہونے والوں کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی،کہیں سے کوئی ریلیف نہیں ملتابس ایک اندھیری رات ان پر مسلط کر دی جاتی ہے اور انھیں اس میں جینے کیلئے مجبور کر دیا جاتا ہے۔الزامات کی ایک نا ختم ہونے والی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ اقتدارسے رخصتی کے بعدبی بی شہید کی کرپشن اور غداری کے مقدمات سے جس طرح کردار کشی کی گئی اسے پڑھ کر گن آتی ہے۔ اس ملک کا ایک ہی سچ ہے کہ ہا تھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔سوشل میڈیا اور پریس کی آزادی کے بعد حالات میں کچھ بدلاؤ تو محسوس ہو رہا ہے لیکن ہنوز دہلی دور است۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی بھی دلوں میں منافقت اور بد نیتی کا راج ہے۔اندر اور باہر میں تضاد ہے۔ابھی بھی پسِ پردہ زورا وروں سے مفاہمت اور سودے بازی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔اقتدار کی واپسی کیلئے منتیں کی جا رہی ہیں۔،۔اندلس کے ساحل پر طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلانے والے پیدا ہوجائیں گے تو سارامنظر بدل جائے گا۔جمہوری منزل کی جانب اٹھنے والے قدم جان لیوااذیتوں سے گزریں گے تو تب کہیں جا کر اس سحر کا ہیولہ سامنے آئے گا جس کیلئے دلیر،نڈر با جرات اور بے خوف قائدین نے اپنے لہو کا خراج دیا تھا۔سچی جمہوری منزل تک پہنچنے کیلئے آگ و خون کے دریا کو عبور کرنا ہو گا لیکن پہلے دل کے اندر مو جزن فکر کو واضح سمت دینا ہو گی۔جھوٹے اور جعلی نعروں کی بجائے سچے اور کھرے افکار کا پیرہن زیبِِ تن کرنا ہو گا۔خالی نعروں اور بڑھکوں سے منظر نہیں بدلتا۔ کچھ قائدین جھوٹ، ؎مکر،،فریب اور غلط بیانی کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں لیکن خود کو انقلابی بھی قرار دیتے ہیں جو کہ خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جھوٹ کی سیاست کرنے والے خود کو سچائی کا پیکر اور امانت و دیانت کا ستعارہ بتاتے نہیں تھکتے۔ انھیں خودبھی علم ہوتا ہے کہ ان کی سیاست جھوٹ اور مکرو فریب پر کھڑی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی پارسائی کا علم بلند کئے رکھتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ عزم و ہمت اور کمٹمنٹ پر جم کر کھڑا ہونے والوں کی آواز ہی تسخیرِ قلب ونظر ہوتی ہے لیکن ایسی آواز ہے کہاں پر؟جب تک ایسی آواز فضاؤں میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی تبدیلی ایک خواب ہی رہے گی۔علامہ اقبالؔ نے اس ساری کیفیت کو اپنے ہی رنگ میں بیان کیا تھا۔ (اے بلبلِ شوردہ نالہ ہے ترا خام ابھی۔،۔ اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی)جبرِ مسلسل کی چوٹوں کو سہنے اور اپنے نظریات پر ڈٹ جانے کے بعد ایسا مقام آتاہے جہاں طالع آزماؤں کو مکمل حزیمت سے ہمکنارہونا پڑتا ہے۔سچ کا اپنا جہاں ہو تا ہے،سچائی کی اپنی دنیا ہوتی ہے،حق کی اپنی اثر آفرینی ہوتی ہے جبکہ جھوٹ کی آبیاری کبھی ثمربار نہیں ہو سکتی۔،۔وقت کی بے رحم کٹھالیوں سے گزرے بغیر صدف کے اندر پانی موتی کا روپ اختیار نہیں کرتا۔موتی بننا ہے تو پھر گردشِ فلک کا سامنا ناگزیر ہو تا ہے۔ جب سچائی کی قدرو قیمت عوام پر آشکارہو جاتی ہے تو پھر ان کے دلوں سے موت کا خوف ہوا ہو جاتا ہے اور وہ سچ کی خاطر جان دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔انھیں کوئی دبا نہیں سکتا کوئی ڈرا نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی انھیں ہراساں کر سکتاہے۔وہ سرِ دار موت کے پھندے کو یوں چومتے ہیں جیسے ممتا اپنے لختِ جگر کا منہ چومتی ہے۔تاریخ کے پنوں میں یہی راز دفن ہے کہ سچ کی خاطر موت کو گلے لگانے والوں کا مقام عرش ِ معلی پرہوتا ہے۔گلی گلی،قریہ قریہ، شہر شہر اور بستی بستی ایسے سر فروش منظرِ عام پر آ جاتے ہیں جو سچ کی خاطر زہر پیالہ پینے کو فخر سمجھتے ہیں۔یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہو تا ہے جب قیادت سچی، صالح،ایماندار،مخلص اور دیانت دار ہو،اس کے دامن پر کرپشن،لوٹ مار اور ذاتی حرص و ہوس کے داغ نہ ہوں جبکہ مخالفین بھی اس کی اصول پسندی کی گواہی دیں۔ہر بات پر مکر جانا،ہربات سے پھر جانا،ہر بات کو ہوا میں اڑا دینا،ہر بات کا تمخسر اڑانا،وعدوں کو غیر اہم سمجھنا،وعدہ ایفائی کو مذاق بنانا اور دوسروں کی ذات کو کسی ایسی بات پر ہدفِ تنقید بنانا جو ان سے منسوب ہی نہ ہو قیادت کو پستی کی جانب دھکیلتی ہے۔امام خمینی کی ذات میں اعلی قیادت کے وہ سارے عناصر موجود تھے جن کا میں نے ذِ کر کیا ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اصو ل پسندی کی درخشندہ مثال تھے۔ان کے کردار کی عظمت کے سامنے مہاتما گاندھی بھی سرِ تسلیم خم کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا (محمد علی جناح نے اپنے اعلی کردار کی عظمت سے اپنی زندگی کے سب سے بڑے مرحلے کو طے کیا تھا۔میں ذاتی طور پر اس کے کردار کی عظمت کا قائل ہوں۔) قومی قیادت کردار کی عظمت کا ستعارہ بنے گی تو پاکستان کی ناؤ ساحل سے ہمکنار ہو گی۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں