۔،۔چوہدری اعجاز حسین پیارا کے بڑے بھائی چوہدری سبطین حسین مرحوم کی تیسری برسی پر محفل ایصال ثواب کا اہتمام۔ نذر حسین۔،۔
٭چوہدری اعجاز حسین پیارا کے بڑے بھائی، اسد سبطین گوجر اور قاسم سبطین کے والد، چوہدری نعیم اختر گوجر اور چوہدری تیمور سالک کے تایا چوہدری سبطین حسین کی تیسری برسی پر جرمنی بھر سے دوست و احباب نے بھرپور شرکت کی جبکہ اعجاز حسین پیارا کے خالہ زاد بھائی سوئٹزرلینڈ سے تشریف لائے٭خصوصی طور پر زاہد حسین قونصل جنرل۔زبیر خان ایڈوکیٹ،چوہدری سعادت نوازسابق تحصیل ناظم گجرات،آزاد حسین،سید رضوان حسنین، ظفر اقبال نوری، پرویز اقبال جعفری،چوہدری محمد نواز آف پنجن کسانہ،چوہدری علی مچھیانہ،چوہدری محمد افضل آف ساروچک، رانا محمد وسیم،محمد فاروق بٹ، سجاد علی کاھلون، چوہدری احمد افتخار، ظفر اقبال چاند، راشد ملک اور چوہدری وقار نے محفل میں شرکت کی۔
شان پاکستان جرمنی فرینکفرٹ/ریڈر والڈ۔ چوہدری اعجاز حسین پیارا (پاکستان اوورسیز الائنس فورم یورپ کے صدر۔ جذبہ نیوز کے چیئرمین) جو کسی تعارف کے محتاج نہیں کے بڑے بھائی چوہدری سبطین حسین مرحوم دسمبر 2020 میں وفات پا گئے تھے،ان کی تیسری برسی کے موقع پر جامع مسجد غوثیہ ادارہ پاک دارالسلام فرینکفرٹ پر ایک ایصل ثواب کی محفل کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمنی بھر سے ان کے چاہنے والوں نے بھر پور شرکت کی جبکہ چوہدری اعجاز حسین پیارا کے خالہ زاد بھائی سوئٹزرلینڈ سے تشریف لائے تھے۔ محفل کی نقابت محمد شعیب بٹ نے کی ان کا کہنا تھا کہ ہم ایصال ثواب کی محفلیں اس لئے سجاتے ہیں کہ ان کی مغفرت کی دعا بھیجیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہی شخص ہمیشہ ہماری محفلوں کی زینت بنتا تھا جو ہم میں موجود نہیں اور آنے والے وقت میں ہم میں سے بھی محفل میں نہیں ہو گا اس طرح کی محفلیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ ہم کو بھی تیاری کرنی ہے اس وقت کی جو نہ ختم ہونے والا ہے۔محفل کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کا شرف حافظ محمد اورنگزیب نے حاصل کیا۔ حافظ محمد صدیق مصطفائی نے ٭ حبیبا جد میرا وقت نزع ہووے تے آ جاویں۔بدن توں جد اے روح میری جُدا ہووے تے آ جانویں۔قبر دا مرحلہ آقا میں سُنڑیاں اے ڈھیر اوکھا اے۔قبر دے وچ جے کر مینوں سزا ہووے تے آ جانویں سنا کر محفل لُوٹ لی۔محمد افضل قادری نے دور حاضر کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا دُکھڑا سنایا۔اے گنبد خضرہ کے مکیں اب میری مدد کر۔ یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے۔ اے تاج نبوت کے نبی وقت مدد ہے۔رانا محمد افضل نے اپنی عقیدت کے پھول کچھ یوں پیش کئے۔یہ بام و در کی اداسی یہی ہجر کا موسم۔انہیں خبر ہے میرے حال کی مگر کہنا۔میرے کریم سے ہر بات مختصر کہنا۔سید افضال شاہ نے حضور کی صفت کچھ یوں بیان کی۔ کسے دے نال وفا نئی کیتی اس دنیا بے اعتباری۔ ناں ناں رہیا محبوب کوئی ایتھے ناں رہی کسے دی سرداری۔ایتھے کسے دے پیر نئی لگے سب ٹُر گئے وارو واری۔ اعظم ایتھے دل ناں لانویں نئیں تے روسیں جاندی واری۔حافظ محمد اورنگزیب نے اردو جرمن زبان میں۔ جب احمد مرسل نہ رہے تو پھر اور کون رہے گا۔انہوں نے پوری دنیا کے معماروں کو بلا کر ایک بہت شاندار محل تعمیر کروایا،پھر اعلان کیا کہ پورے ملک کے لوگ آ کر میرا محل دیکھیں سب نے تعریف کی۔ایک بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے اور کہا بہت خوبصورت لیکن اس میں دو بڑی غلطیاں ہیں جب لوگوں نے پوچھا تو بزرگ نے جواب دیا یہ میں صرف بادشاہ کو بتا سکتا ہوں۔بالآخر بادشاہ نے بزرگ کو بلا کر پوچھا تو بزرگ فرمانے لگے یہ محل ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا ایک وقت آئے گا جب یہ اپنی خوبصورتی کو کھو دے گا۔بادشاہ سلامت نے پوچھا دوسری غلطی بتاوُ بزرگ بولے۔یہ ہے کہ اس کے اندر تم بھی نہیں رہ سکو گے۔محمد شعیب بٹ۔جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود۔آگ سے محفوظ اس کا تن بدن رہ جائے گا۔سید جعفر علی شاہ سواتی۔ زمین میلی نہیں ہوتی ضمن میلا نہیں ہوتا۔محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا سنا کر محفل میں دوبارہ جان ڈال دی۔محبت کملی والے سے وہ جذبہ ہے سنو لوگو۔یہ جس من میں سما جائے وہ من میلا نہیں ہوتا۔ سُو ں رب دی مدینے دا دربار بڑا سوہنڑا۔ جیڑا اس شہر وچ رہندا اے دلدار بڑا سوہنڑا۔ چوہدری اعجاز پیارا نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سب سے پہلے محفل میں تشریف لانے والے حضرات اور خصوصی طور پر جامع مسجد غوثیہ کا ان کا اپنا پاکستانی ہم وطنوں کوپیغام کچھ یوں پیش کیا کہ جرمنی میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ کسی پاکستانی کو مرنے کے بعد جلا دیا جاتا ہے جبکہ ہماری اطلاع پر سفارتخانہ پاکستان برلن اور قونصلیٹ جنرل آف پاکستان فرینکفرٹ فوراََ ہم وطنوں کی مدد کے لئے کوشاں ہو اتے ہیں اور جب سے زاہد حسین کی تعیناتی فرینکفرٹ میں ہوئی ہے انہوں نے پوری کوشش سے کسی پاکستانی کی لاش کو جلنے نہیں دیا جبکہ کئی افراد ایسے بھی تھے اور ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے نام،تاریخ پیدائش اور پتہ غلط لکھوانے پر بہت پرابلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے باوجود شناخت میں سرکاری پہلو کو دیکھتے ہوئے دقت ہوتی ہے اس کے باوجود زاہد حسین قونصل جنرل نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کسی ہم وطن کی لاش کو جلنے نہیں دیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ افراد جو اکیلے یا جرمن خواتین کے ساتھ رہتے ہیں،قونصلیٹ جنرل آف پاکستان سے رابطے میں رہیں۔اپنی طرف سے (اٹارنی کی طاقتvollmacht) بنا کر جمع کروا دیں تا کہ اس کے پیش نذر آپ کی فوتگی کے بعد بھی آسانی سے آپ کی مدد کی جا سکے۔قونصل جنرل آف پاکستان فرینکفرٹ زاہد حسین نے بھی اپنی طرف سے اپنے ہم وطنوں کو اپنے پیغام میں خصوصی طور پر پیغام دیا کہ آپ تمام سے ملاقات پر خوشی محسوس ہوتی ہے،ان کا مزید کہنا تھا کہ اعجاز حسین پیارا نے جو باتیں کی بڑی برمحل ہیں،پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد موجود ہے اس موقع پر مختصراََ اعادہ کرنا چاہوں گا کہ بحثیت پاکستانی آپ سب پاکستان کے سفیر طور پر موجود ہیں،بحثیت مسلمان اور بحثیت پاکستانی آپ کا طرز عمل اچھے کردار کی عکاسی کرتا ہے،آپ کے ارد گرد جو لوگ تنہائی کا شکار ہیں وہ بڑی خطرناک صورتحال میں ہیں آپ سب لوگ جو یہاں موجود ہیں ان کو معاشرہ میں لانے کا کردار استعمال کریں۔پاکستانی قونصلیٹ ایک حب ہے ہمارے پاس ہر بات جو پاکستان یا پاکستانی سے متعلقہ ہو پہنچتی ہے،ان ہی تمام واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کو اپنا پیغام دیتا رہتا ہوں کہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ مشغول(انگیج) رکھیں تا کہ لاوارث میتوں کی تعداد کو کم سے کم کر سکیں۔کمیونٹی کے چیدہ چیدہ افراد اور ادارے اپنا کردار ضرور ادا کریں تا کہ ہمارے بچے اس تنہائی کا شکار نہ ہوں۔اس دعا کے ساتھ اللہ کریم آپ کے گھروں میں خیر و عافیت رکھے اور آپ سب کو رو بصحت رکھے آئندہ سال آپ کے لئے باعث بابرکت ہو اس پر انہوں نے اپنا پیغام ختم کیا۔امام و خطیب مسجد غوثیہ مولانا ملک محمد صدیق پتھروی نے اپنے پیغام میں کہا۔موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی۔ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی۔کُج وساہ نئی ساہ آونڑ دامانڑ کیا فیر کرنا۔جِس جُسے نوں چھنڈ چھنڈ رکیں۔خاک اندر جا دھرنا۔ جو جمیا اس مرنا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ادارہ پاک دارالسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اطلاع ملنے پر یہ ادارہ اپنے ہم وطنوں کی ڈیڈ باڈی کو حاصل کرنے اور پاکستان بجھوانے یا جرمنی میں دفنانے میں پیش پیش رہا ہے، انہوں نے حاجی میر ارشد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسپین میں ٹرین کے حادثہ میں ایک پاکستانی کی فوتگی پر وہ اسپین گئے وہاں جا کر اس کے جسم کے ٹکڑے اکٹھے کئے واپس فرینکفرٹ آ کر ان کو غسل دیا نماز جنازہ ادا کیا اور اس کی میت کو پاکستان ان کے وارثوں کو پہنچایا،انہوں نے خصوصی طور پر (پاور آف اٹارنی۔vollmacht۔power of attorney) پر زور دیا تا کہ جن افراد کی جرمن بیویاں اور بچے ہیں جن کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں وہ مرنے والے کو جلانا چاہتے ہوں اور ہم بحثیت مسلمان ان کا جنازہ پڑھ کر دفنانا چاہتے ہیں اگر ہمارے پاس اجازت ہو گی تو تب ہی ہم یہ کر سکتے ہیں۔محفل کے اختتام پر درود و سلام پیش کرنے کے بعد لنگر پیش کیا گیا۔