-,-سویڈن میں فلسطین کی سفیر کے ساتھ ملاقات-عارف محمود کسانہ-,-
*ہمیں اپنے علاقہ پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ ویسٹ بینک جہاں پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے وہاں بھی ہم اپنی مرضی سے نقل و حمل تک نہیں کرسکتے ہیں*
شان پاکستان جرمنی/سویڈن/اسٹاک ہوم-ہمیں اپنے علاقہ پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ ویسٹ بینک جہاں پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے وہاں بھی ہم اپنی مرضی سے نقل و حمل تک نہیں کرسکتے ہیں۔ سڑک کی ایک جانب میری والدہ رہتی ہیں اور دوسری جانب میری بہن رہتی ہے لیکن دونوں آپس میں مل نہیں سکتیں۔ غزہ میں ہزاروں لوگ شہید ہوگئے ہیں۔ لاکھوں انسان بے گھر اور بے بس ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کو شہید کیا گیا ہے۔ پورا خطہ خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ یہ لفظ ادا کرتے ہوئے سویڈن میں فلسطین کی سفیر عزت مآب رولا المحیسن کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں آنسوئوں سے نم ہوگئیں۔ یہ گفتگو انہوں نے ہمارے ساتھ تب کی جب سویڈن میں سفیر پاکستان جناب ڈاکٹر ظہور احمد کے ساتھ سفارت خانہ فلسطین سٹاک ہوم میں غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے گئے۔ ہمارے وفد میں سویڈن میں مقیم معروف پاکستانی خواتین و حضرات کے ساتھ سویڈش نو مسلم اور حقوق انسانی کی علمبردار ہیلینے ریزدیک اور جان نورڈ لنگ شامل تھےسویڈن اورفلسطین کے درمیان طویل عرصہ سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کا آغاز 1903ء میں ہوا جب سویڈن نے یروشلم میں اپنا قونصلیٹ قائم کیا۔ سویڈن یورپ کا پہلا ملک ہے جس نے فلسطین اتھارٹی کی حکومت کو باقاعدہ ملک کے طور پر 30اکتوبر 2014ء کو تسلیم کیا۔ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں فلسطین کے باقاعدہ سفارت خانہ کا افتتاح 10فروری 2015 ء میں ہوا جب فلسطین کے صدر محمود عباس نے سٹاک ہوم کا دورہ کیا۔ 2016ء میں فلسطین اور سویڈن کے مابین سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کا معاہدہ ہوا۔ فلسطین کے قائد یاسر عرفات نے 1983 میں سویڈن کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور سٹاک ہوم میں فلسطین کی تنظیم آزادی پی ایل او کا دفتر قائم ہوا بعدازاں یاسر عرفات نے متعدد بار سویڈن کا سرکاری دورہ کیا۔ سویڈن فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے دوریاستی حل کو اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ سفارت خانہ فلسطین میں وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فلسطین کی سویڈن کے لئے سفیر عزت مآب رولا المحیسن نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حالیہ جارحیت کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ نہتے انسانوں پر گولیوں اور بارود کی بارش کی جارہی ہے۔ عورتیں اور بچے بے بس ہیں اور کھانے پینے کو ترس رہے ہیں۔ اس جنگ میں ویسٹ بینک کو شامل کیا گیا ہے۔ وہاں کے کئی لوگ شہید ہوئے ہیں۔ جیلوں میں بند قیدیوں پر ظلم بڑھ گیا ہے کئی قیدیوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کا کوئی مدد گار نہیں۔ انہوں نے اسلامی کانفرنس کے حوالے سے بہت محتاط انداز اختیار کیا۔ فلسطین کی سفیر بہت دکھ اور درد کے لہجے میں وہاں کے حالات بتا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ان لوگوں کے شکر گزار ہیں جو ان کی حمایت کررہے ہیں اور غزہ کے لئے امدادی سامان بھجوا رہے ہیں۔ عام عوام اسرائیل کی بنی ہوئی چیزوں کی خریداری کا بائیکاٹ کرکے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس بائیکاٹ سے بہت فرق پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ یورپی دوست ممالک کہتے ہیں کہ آپ فلسطینی اتھارٹی میں انتخابات کیوں نہیں کروا رہے۔ انہیں میں نے جواب دیا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہم انتخابات کیسے کرواسکتے ہیں جب وہاں ہمارا کنٹرول نہیں ہے۔ وہاں تو اسرائیل کا تسلط ہے ہم یروشلم کو فلسطین کا حصہ اور مستقبل کا دارالحکومت سمجھتے ہیں اور یروشلم کے باشندوں کی شرکت کے بغیر کیسے انتخابات کروا سکتے ہیں۔ اسرائیل یروشلم کے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکتا ہے اگر یروشلم کے لوگ وہاں سے باہر نکل کر انتخابات میں ووٹ ڈالنے آئیں تو دوبارہ واپس اپنے گھروں تک نہ جاسکیں گے۔ ہماری زمینوں پر جبراً قبضہ کیا گیا ہے لاکھوں لوگوں کو گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری جدوجہد جاری ہے۔ فلسطین کی سفیر نے اہل پاکستان کی ان کی جدوجہد میں مدد اور مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا پاکستان نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ہے میرا بھائی اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے ہر بین الاقوامی سطح پر پاکستان نے فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے جو ہمارے لئے کیا ہے اس پر ہم ان کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔ ملاقاتی وفد میں شامل خواتین و حضرات نے کہا کہ وہ سویڈن میں رہ کر جو حمایت ہوسکتی ہے وہ کررہے ہیں۔ اس موقع پر راقم نے علامہ اقبال کی مسئلہ فلسطین سے وابستگی اور ان کے 1932ء میں دورہ فلسطین کا ذکر کیا۔ اس دورہ میں علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے حوالے سے عالمی کانفرنس میں شرکت کی اور سرزمین فلسطین پر کچھ اشعار بھی کہے۔ ان اشعار کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ فلسطین کی سفیر کی خدمت میں پیش کیا جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ فلسطین کی سفیر نے وفد کے اراکین اور سویڈن میں سفیر پاکستان جناب ڈاکٹر ظہور احمد کا بہت شکریہ ادا کیا۔ہمیں اپنے علاقہ پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ ویسٹ بینک جہاں پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے وہاں بھی ہم اپنی مرضی سے نقل و حمل تک نہیں کرسکتے ہیں۔ سڑک کی ایک جانب میری والدہ رہتی ہیں اور دوسری جانب میری بہن رہتی ہے لیکن دونوں آپس میں مل نہیں سکتیں۔ غزہ میں ہزاروں لوگ شہید ہوگئے ہیں۔ لاکھوں انسان بے گھر اور بے بس ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کو شہید کیا گیا ہے۔ پورا خطہ خون میں نہلا دیا گیا ہے۔ یہ لفظ ادا کرتے ہوئے سویڈن میں فلسطین کی سفیر عزت مآب رولا المحیسن کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں آنسوئوں سے نم ہوگئیں۔ یہ گفتگو انہوں نے ہمارے ساتھ تب کی جب سویڈن میں سفیر پاکستان جناب ڈاکٹر ظہور احمد کے ساتھ سفارت خانہ فلسطین سٹاک ہوم میں غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے گئے۔ ہمارے وفد میں سویڈن میں مقیم معروف پاکستانی خواتین و حضرات کے ساتھ سویڈش نو مسلم اور حقوق انسانی کی علمبردار ہیلینے ریزدیک اور جان نورڈ لنگ شامل تھےسویڈن اورفلسطین کے درمیان طویل عرصہ سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ ان تعلقات کا آغاز 1903ء میں ہوا جب سویڈن نے یروشلم میں اپنا قونصلیٹ قائم کیا۔ سویڈن یورپ کا پہلا ملک ہے جس نے فلسطین اتھارٹی کی حکومت کو باقاعدہ ملک کے طور پر 30اکتوبر 2014ء کو تسلیم کیا۔ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں فلسطین کے باقاعدہ سفارت خانہ کا افتتاح 10فروری 2015 ء میں ہوا جب فلسطین کے صدر محمود عباس نے سٹاک ہوم کا دورہ کیا۔ 2016ء میں فلسطین اور سویڈن کے مابین سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کا معاہدہ ہوا۔ فلسطین کے قائد یاسر عرفات نے 1983 میں سویڈن کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور سٹاک ہوم میں فلسطین کی تنظیم آزادی پی ایل او کا دفتر قائم ہوا بعدازاں یاسر عرفات نے متعدد بار سویڈن کا سرکاری دورہ کیا۔ سویڈن فلسطینی عوام کی حمایت کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے دوریاستی حل کو اختیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ سفارت خانہ فلسطین میں وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فلسطین کی سویڈن کے لئے سفیر عزت مآب رولا المحیسن نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حالیہ جارحیت کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ نہتے انسانوں پر گولیوں اور بارود کی بارش کی جارہی ہے۔ عورتیں اور بچے بے بس ہیں اور کھانے پینے کو ترس رہے ہیں۔ اس جنگ میں ویسٹ بینک کو شامل کیا گیا ہے۔ وہاں کے کئی لوگ شہید ہوئے ہیں۔ جیلوں میں بند قیدیوں پر ظلم بڑھ گیا ہے کئی قیدیوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کا کوئی مدد گار نہیں۔ انہوں نے اسلامی کانفرنس کے حوالے سے بہت محتاط انداز اختیار کیا۔ فلسطین کی سفیر بہت دکھ اور درد کے لہجے میں وہاں کے حالات بتا رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی ان لوگوں کے شکر گزار ہیں جو ان کی حمایت کررہے ہیں اور غزہ کے لئے امدادی سامان بھجوا رہے ہیں۔ عام عوام اسرائیل کی بنی ہوئی چیزوں کی خریداری کا بائیکاٹ کرکے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس بائیکاٹ سے بہت فرق پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ یورپی دوست ممالک کہتے ہیں کہ آپ فلسطینی اتھارٹی میں انتخابات کیوں نہیں کروا رہے۔ انہیں میں نے جواب دیا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہم انتخابات کیسے کرواسکتے ہیں جب وہاں ہمارا کنٹرول نہیں ہے۔ وہاں تو اسرائیل کا تسلط ہے ہم یروشلم کو فلسطین کا حصہ اور مستقبل کا دارالحکومت سمجھتے ہیں اور یروشلم کے باشندوں کی شرکت کے بغیر کیسے انتخابات کروا سکتے ہیں۔ اسرائیل یروشلم کے لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکتا ہے اگر یروشلم کے لوگ وہاں سے باہر نکل کر انتخابات میں ووٹ ڈالنے آئیں تو دوبارہ واپس اپنے گھروں تک نہ جاسکیں گے۔ ہماری زمینوں پر جبراً قبضہ کیا گیا ہے لاکھوں لوگوں کو گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری جدوجہد جاری ہے۔ فلسطین کی سفیر نے اہل پاکستان کی ان کی جدوجہد میں مدد اور مسلسل حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا پاکستان نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ہے میرا بھائی اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے ہر بین الاقوامی سطح پر پاکستان نے فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے جو ہمارے لئے کیا ہے اس پر ہم ان کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے۔ ملاقاتی وفد میں شامل خواتین و حضرات نے کہا کہ وہ سویڈن میں رہ کر جو حمایت ہوسکتی ہے وہ کررہے ہیں۔ اس موقع پر راقم نے علامہ اقبال کی مسئلہ فلسطین سے وابستگی اور ان کے 1932ء میں دورہ فلسطین کا ذکر کیا۔ اس دورہ میں علامہ اقبالؒ نے فلسطین کے حوالے سے عالمی کانفرنس میں شرکت کی اور سرزمین فلسطین پر کچھ اشعار بھی کہے۔ ان اشعار کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ فلسطین کی سفیر کی خدمت میں پیش کیا جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ فلسطین کی سفیر نے وفد کے اراکین اور سویڈن میں سفیر پاکستان جناب ڈاکٹر ظہور احمد کا بہت شکریہ ادا کیا۔