۔،۔ ضمیر کا قیدی ۔(طارق حسین بٹ شان۔،۔
زنجیریں،ہتھکڑیاں اور زندان خانے سدا سے پاکستانی سیاست کا طرہِ امتیاز رہے ہیں۔کبھی مولانا سید ابو الاعلی مودودی کو سزائے موت کا مجرم ٹھہرایا گیا،کبھی ذولفقار علی بھٹوکو سر دار کھینچا گیا تھا اور کبھی باچہ خان کو سالہا سال کی سزاؤ ں کا زہر پینا پڑا تھا۔ایک زمانہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہتی لڑکی سے تشبیہ دی جاتی تھی۔حبیب جالب کی شاعری نے بی بی شہید کو جرات و بسالت کا جو دلکش استعارہ بنا کر پیش کیا تو اس سے بی بی شہید کا امیج ایک نڈر،با ہمت اور با جرات لڑکی کا ابھرا جس سے ریاست کے کرتا دھرتا خوفزدہ رہتے تھے۔بی بی شہید کی شخصیت کا یہی طلسماتی روپ اس کی عوامی پذیرائی کامنبہ قرار پایا۔(ڈرتے ہیں بندوقوں واے ایک نہتی لڑکی سے۔،۔پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے) وہ ایک نہتی لڑکی تھی جبکہ اس کے مقابل انتہائی طاقتور لوگ تھے جھنیں اپنی اندھی طاقت پر بڑا زعم تھا لیکن بی بی شہید نے ہمت ہارنے کی بجائے میدان میں نکل کر ان کا مقانبلہ کرنے کا فیصلہ کیا اوریوں قیدو بند کی ایک ایسی کہانی کا آغاز ہوا جو حریت پسندوں کیلئے ایک ایسی مشعل ہے جو تاریکیوں میں روشنی کا منارہ بن گئی۔جنرل ضیاالحق جیسے سفاک انسان کا مقابلہ انتہائی دشوار مرحلہ تھا لیکن بی بی شہید نے اپنی جرات و بسالت سے اس مشکل اور اذیت ناک مرحلہ کو سر کر کے سب کو حیران کر دیا۔ذولفقار علی بھٹو کی سپتری نے جمہوریت کی جنگ جس شان اور جرات سے لڑی اس نے اسے پوری دنیا میں مظلومیت کا استعارہ بنا دیا۔جرل ضیا الحق جیسے ڈکٹیٹ کے سامنے وہ ایک باغی لڑکی کے روپ میں جلوہ گر ہوئی اور اس کی آہنی تحت کو گرا کر دم لیا جبکہ موقع پر سیاستدان ڈکٹیٹر کی قدمی بوسی میں اپنی نجات اور عافیت سمجھتے تھے۔ میاں برادران نے پی پی پی کے خلاف سفاک ڈکٹیٹر کی گود میں بیٹھ کر جس طرح کی سازشیں رچائیں وہ عوام کو آج بھی یاد ہیں۔ یہ الگ بات کہ آج پی پی پی کو میاں برادران کی گود میں سکون اور عافیت محسوس ہو رہی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اقتدار کی مسند قریب تر ہونے کے امکانات ہیں۔اسی لئے توکہتے ہیں کہ اقتدار بے رحم ہو تا ہے۔ جرات و بسالت کا وہ قابلِ فخر دور بی بی شہید کی شہا د ت کے ساتھ انجام پذیر ہوا لیکن ریاست میں مقتدرہ کی دخل اندازی کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی کیونکہ سیاستدان اقتدار کے بھوکے لکلے۔،۔ دنیا میں خلاء ممکن نہیں ہوتا۔حریت پسندوں کی ایک نرسری ہے جس میں ایک کے بعد دوسرا انسان مقتل گاہ میں ڈٹ جا تا ہے۔ایک قطار لگی ہوتی ہے جس میں اس بات پر جھگڑا ہوتا ہے کہ اس راہ کا اگلاشہید کسے بننا ہے؟دنیا دار اپنے دھندوں میں مگن ہو تے ہیں لیکن حریت پسند تاریخ کا رخ موڑنے میں مگن ہوتے ہیں۔ہر جانبازکو علم ہو تا ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا لیکن وہ پھر بھی چیلنج دینے سے باز نہیں آتا۔سچ تو یہ ہے کہ سچا انقلابی کسی بھی حال میں خوفزدہ نہیں ہوتا۔مصر کے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو اپنے انجام کا علم تھا لیکن اس کے باوجود اس نے جھکنے سے انکار کر دیا تھا اور یوں اس کا جسم پھانسی کے پھندے پر جھول گیا تھا۔پابندِ سلاسل ہونا تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی جبکہ زندانوں کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے سہہ جانا اصل کمال ہو تا ہے۔ضمیر کا ایک قیدی آج کل جیل کی سلاخو ں کے پیچھے ہے۔ اسے جھکانے کے انگنت حربے آزمائے گے لیکن اس نے جھکنے سے انکار کر دیا۔اس کایہی انکارہی اس کی مقبولیت کی بنیادبنا۔وہ پچھلے دس ماہ سے ریاستی جبر کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ہر گزرنے والا دن اس کی مقبولیت کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کر رہا ہے۔فیض احمد فیض جسے خود بھی قیدو بند کی اذیتوں سے گزرنا پڑا تھا اس نے لکھا تھا (ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد۔،۔ گلشن میں وہی اندازِ بیاں ٹھہری ہے) اندازِ بیاں کی جاذبیت لہو کے دیپ جلانے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔عوام ظلم و زیادتی کو نا پسند کرتے ہیں لہذا جب کسی انسان کو ریاستی جبر میں جکڑ لیا جاتا ہے تو عوام اس کی حمائت میں نکل کھڑے ہوتے ہیں (یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر راہ سیاہی لکھی گئی۔،۔ یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گے)اس میں کوئی دو راے نہیں کہ ضمیر کے قیدی نے پابندِ سلاسل ہو کر بھی اپنے سارے حریفوں کو بچھاڑ دیا ہے۔وہ اس سے مات کھا گے ہیں لیکن وہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔سب سے حیران کن رویہ تو پی پی پی کی قیادت کا ہے جو جھوٹ کو سچ قرار دینے کی سازشوں میں شامل ہو چکی ہے۔پی پی پی نے تو مقتدرہ سے بڑے زخم کھائے ہیں لہذا انھیں جمہوریت کی بقا کی خاطر غلط کو غلط کہنا چائیے تھا اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا چائیے تھا۔میاں برادران تو ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی سر پرستی میں پروان چڑھتے رہے ہیں اور پھر اپنی دولت کی تجوریوں کے منہ کھول کر اپنی سیاست کو بنیادیں فراہم کرتے رہے ہیں لہذا ان سے حریت پسندوں کو کوئی شکائت نہیں ہوتی جبکہ عوام پی پی پی کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے توقعات رکھتے ہیں لہذا اسے اپنی پہچان کو قائم رکھنا چائیے ہو گا۔،۔۴۲۰۲ کے انتخابات میں جس طرح نتائج مرتب ہوئے اور انھیں جس طرح نشر کیا گیا وہ ایک ایسی کہانی ہے جسے عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔لوگ حیران و پریشان ہیں کہ ان کے ووٹ کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا ہے وہ انتہائی بودا ہے۔ڈی آر او زنے (فارم۔۷۴)جس طرح نتائج کا اعلان کیا گیا اس نے عوام کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی جس سے پورے ملک میں انتشار اور احتجاج کا رنگ گہرا ہو تا جا رہا ہے۔ابھی تو حکومتیں تشکیل نہیں پائیں تو یہ ماحول ہے اور جب یہ سارا عمل مکمل ہو جائیگا تو پھر سڑکوں اور اسمبلیوں میں احتجاج اورشور و غوغہ معمول کی کاروائیاں ہو ں گی۔محاذ آرائی کی کیفیت میں ملک کس طرح معاشی ترقی کی جانب سفر کر سکتا ہے؟ملک پہلے ہی قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔خزانہ خالی ہے اور اس میں پڑے ہوئے آٹھ ارب ڈالر دوستوں کے ڈیپازٹ ہیں جھنیں ہم اپنا بنا کر دکھا رہے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ملکی خزانہ ڈالروں سے بالکل خالی ہے۔آئی ایم ایف سے مذاکرات اسی لئے نا گزیر ہیں کیونکہ اس کے بغیر ملکی معیشت کا قبلہ درست رکھنا نا ممکن ہے۔ہر سیاسی جماعت کشکول توڑنے کی باتیں کرتی ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلا اعلان یہی کرتی ہے کہ آئی ایم ایف کی معاونت کے بغیر ملکی معیشت بیٹھ جائیگی لہذا اس سے مذاکرات نا گزیر ہیں۔آج کل عمرا ن خان کا آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط حکومتی ایوانوں میں ارتعاش پیدا کئے ہو ئے ہے کیونکہ اس سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔۷۲ ارب ڈالر کی ادائیگی کا جو مشکل ٹارگٹ حکومت کے سامنے ہے اسے مختلف ادا روں سے قرض لے کر ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔امپورٹ کی بندش سے بھی معاملہ حل نہیں ہو رہا۔اصل سوال یہ ہے کہ ملکی بر آمدات میں اضافہ کیا جائے لیکن ملکی حالا ت کا جو جوار بھا ٹا پیدا ہو چکا ہے اس میں بر آمدات کا بڑھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جب سیاسی جماعتیں آپس میں گتھم گتھم ہوں گی تو ملکی معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا؟نوجوانوں کی ایک تعداد ہے جو اپنے خوشنما خوابوں کے ٹوٹنے کی کرچیوں سے لہو لہان ہے۔وہ اپنے خوابوں کے ٹوٹنے سے مایوسی کا پیکر بن چکے ہیں۔ ان کی امیدوں کی مرکزجماعت کو جس طرح انتخابی نتائج میں ردو بدل کر کے ہروایا گیا ہے اس نے نوجوانوں کو مزید باغی بنا کر دیا ہے وہ سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔کوئی ان کے مسائل کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔کوئی ان کی آواز کو سننے کیلئے آمادہ نہیں ہے جس سے بے چینی اور انتشار بر ھتا جا رہا ہے۔جب طاقت کا غرور سر میں سما جائے تو پھر اپنے پیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔طاقت سے مخالفین کو کچلا تو جا سکتا ہے لیکن ایسا لمبے عرصہ کیلئے دبانا ممکن نہیں ہوتا لہذا ضروری ہے کہ عوامی رائے کا احترام کیا جائے۔،۔