0

۔،۔ وقت کی آواز ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔

0Shares

۔،۔ وقت کی آواز ۔طارق حسین بٹ شانؔ-،۔

اس کرہِ ارض پر جمہوریت کا سورج انقلابِ فرانس کا تحفہ ہے۔اگر اس وقت کچھ انقلابی ہاتھوں میں بغاوت کا علم نہ اٹھاتے تو دنیا آج بھی شہنشاہی کے آہنی پنجوں میں ہی سسک رہی ہوتی۔اشرافیہ کے مظالم جب حدودنا آشنا ہو جاتے ہیں تو پھر مجبورو مہقور لوگ ہاتھوں میں ہتھیار بھی اٹھا لیتے ہیں اور یوں ایک نئی صبح کا آغاز ہو تا ہے۔فرانس میں بھی مظالم کی کوئی انتہا نہ رہی تھی،نا انصافی اس کے درو دیوار سے ٹپک رہی تھی جس کی وجہ سے کمزورو ناتواں طبقے کی فریاد سننے والالا کوئی فورم باقی نہیں بچا تھا۔عوام کے پاس ایک ہی راستہ باقی تھا اور وہ تھا مسلح جدوجہد اور انھوں نے اسی راہ کا انتخاب کر کے ظالموں سے اپنا حساب چکتا کیا جس سے سوسائٹی کا پورا نقشہ ہی بدل گیا۔روسو و،الٹیئر، کلارک اور برٹینڈ رسل جیسے فلاسفرز نے جمہوریت کی آبیاری اپنے لہوسے کی۔انھوں نے ریاستی مظالم کے سامنے سر جھکانے کی بجائے ریاستی جبر کو اپنے سینے پر جھیلا۔ان کی عظیم جدو جہد رنگ لائی اور یوں دنیا کو جمہوری روح کے سامنے سر نگوں ہو نا پڑا۔جبر یت پر مبنی ہر قسم کا نظام انسانی نفسیات کیلئے برداشت کرنا ناممکن ہو تا ہے لہذا جمہوریت کے علاوہ کوئی دوسرا نظامِ حکومت انسانی اذہان میں جگہ نہ پا سکا۔یہ سچ ہے کہ سقراط،افلاطون اور ارسطو جمہوری رویوں کے بہت بڑے علبردار تھے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قدیم دنیا کے ان عظیم فلاسفرز کی کاوشوں کے باوجود دنیا جمہوریت کی جانب گامزن نہ سکی کیونکہ اشرافیہ کی کڑی گرفت کو شکست دینا عوام کے بس میں نہیں تھا۔یونان کی اشرافیہ نے جمہوریت کی کھل کر نفی کی اور سقراط کو زہر پیالہ پینے پر مجبور کیا۔اشرافیہ کی انا اتنی بڑی تھی کہ وہ اپنے مال و دولت کے انباروں کی موجودگی میں اپنے معاملات کو عوامی عدالت کے حوالے کرنے کیلئے مطلق تیار نہیں تھے۔وہ خود کو اعلی و برتر سمجھے تھے لہذا جمہوریت کی جانب ان کے میلانِ طبع کے انکار کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔لعل و زرو جواہر کا پیغام یہی ہوتا ہے کہ اصل طاقت دولت کی ہے باقی سب دنیائے شعرو سخن ہے۔ وقت کا پہیہ بڑا طالم ہو تاہے جو چپکے چپکے اپنا فریضہ سر انجام دیتا رہتا ہے۔ سچائی، انسانی حرمت،انسانی تقدس اور اس کی عظمت کا ہر نظریہ انسانوں کے اندر کسی نئی منزل کا نشاندہی کرتا رہتا ہے جسے وقت کے دانشور فلاسفر اور لکھاری نیا رنگ عطا کرتے رہتے ہیں لیکن اہلِ زر اسے تسلیم نہیں کرتے۔یہ ایک ایسی جنگ ہے آج بھی جاری ہے۔وقت کے پہیے کی قوت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ بے شمار بادشاہی ریاستیں جمہوریت کی جانب راغب ہو گئیں اور یوں جمہوری روح نے اس کرہِ ارض کی اغلب اکثریت کو اپنی آ فادیت کا ہمنوا بنا لیا۔ دنیا میں فوجی،آمرانہ اور ملوکانہ حکومتیں تھیں اور عوام ان کے ظلم و جبر کو سہنے کیلئے مجبور تھے جبکہ جمہوریت انسانیت کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔،۔پاکستان میں بھی جمہوری نظام موجود ہے لیکن اس پر بے شمار سوالات ہیں۔ہر الیکشن دھاندلی کے الزامات پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور ملکی معاملات کو مزید الجھا دیتا ہے۔کچھ ادارے اور افراد دھاندلی کو ہوا دیتے ہیں۔جس کے پاس جتنی طاقت ہو تی ہے وہ اسی کے مطابق دھاندلی سے باز نہیں آتا۔ملک میں چونکہ قانون و انصاف کاکوئی وجود نہیں ہے لہذا دھاندلی سے کوئی شخص خوف زدہ نہیں ہوتا۔پاکستان میں قانون صرف کمزوروں کیلئے ہوتا ہے اشرافیہ کیلئے قانون کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔وہ ہمیشہ قانونی گرفت سے بچ نکلتی ہے۔ ۸ فروری ۴۲۰۲؁ کے حالیہ انتخابات میں دھاندلی جس وسیع پیمانے پر رو بعمل ہوئی اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ہارے ہوئے جیتے ہوئے ہیں اور جیتے ہوئے ہارے ہوئے ہیں۔کچھ با ضمیر ایسے بھی ہیں جھنوں نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور یوں دوسروں کیلئے ایک اجلی مثال قائم کی۔ بہادروں کا کام تو یہی ہوتا ہے کہ وہ فتح اور شکست کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے بلکہ ہار اور جیت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔وہ اپنی جیت کیلئے کرپٹ طریقے نہیں اپناتے اور نہ ہی ایسی جیت کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں جو جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہو۔میں نے اپنی زندگی میں ایسے انتخابات نہیں دیکھے جس میں دن دھاڑے لوٹ مار کا بازار گرم کیاگیا ہو۔ ایک سرکاری ملازم نے کسی کے دباؤ میں جس طرح پوری قوم کا مینڈیٹ لوٹا وہ ناقابلِ معافی ہے۔ یہ کتنا بڑا جرم ہے کچھ حلقوں کو اس وقت اس کا احساس نہیں ہو رہا۔یہ ایک قومی جرم ہے جسے کسی بھی حالت میں معاف نہیں کیا جا سکتا۔ اسمبلیوں کے اندر جو اودھم مچا ہوا ہے وہ عوامی جذبات کا آئینہ دار ہے۔میں تو آنے والے دنوں میں اسمبلیوں کے اندر خونی مناظر دیکھ رہا ہوں۔شورو غوطہ کی اسیر قوم کا مینڈیٹ جس طرح لوٹا گیا اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں دست و گریابان ہونا معمول کی کاروائی ہو گی۔کسی جماعت سے نشان چھین کر اس کی جیتی ہوئی نشستوں پر قابض ہو کر انھیں بے یارو مددچھوڑ دینا کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟۔،۔دھٹائی کی بھی کوئی حد ہو تی ہے اور ان انتخابات میں تمام حدیں پار کر دی گئی ہیں۔یہ ملک دھٹائی سے نہیں بلکہ جمہوری اصولوں کو تسلیم کر کے ہی آگے بڑ ھ سکتا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے شب خون کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو جلا وطن کر دیا گیا اور یوں جنرل مشرف دس سالوں تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گے لیکن مسلم لیگ (ن)جمہوریت کیلئے اپنی جنگ و جاری و ساری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتی رہی۔کیا یہ وہی جمہوریت تھی جس میں جیتے ہوئے امیدواروں کی نشستیں چھین کر انھیں جیل کی سلاخو ں کے پیچھے دھکیل دیا جائے؟ پوری دنیا لعن طعن اور تنقید کر رہی ہے لیکن اہلِ اقتدار کسی کی بھی بات سننے کے روا دار نہیں کیونکہ ان کے سروں پر کسی ایسی قوت کا سایہ ہے جس کے سامنے لب کشائی کا اذن نہیں ہے۔خدا راہ کوئی ایسی راہ نکالیے جس میں حقیقی جیتنے والا اپنی نشست کا حقدار قرار پائے وگرنہ نا انصافی کی یہ آگ سب کچھ بھسم کر دے گی۔جنرل پرویز مشرف جیسے طالع آزما اسی طرح کے باہمی انتشار،بد امنی اورجنگ و جدل کے بعد منظرِ عام پر آتے ہیں اور جمہوریت کا خون کر دیتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کے ساتھ جس طرح کا کھلواڑ کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اشرافیہ راتوں رات اپنی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر جنرل پر ویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئی کیونکہ اشرافیہ کی عافیت اسی میں تھی۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔اشرافیہ کبھی بھی طاقت کے مراکز کو چیلنج نہیں کرتی بلکہ آمریت کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کو ترجیح دیتی ہے۔وہ زندانوں اور اور کال کوٹھریوں کی سیاست نہیں کرتی بلکہ اقتدار کی کرسی کے طواف سے اپنی دنیا روشن کرتی ہے۔جنرل پرویز مشرف کی طالع آزمائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر محترمہ بینظیر بھٹو کو جلا وطنی کا زہر پینا پڑا تھا۔میں ان کی دلی اذیت کا عینی شاہد ہوں۔ان کے دلِ مضطر میں جس طرح کا مدو جذر موجزن تھا میں اسے محسوس کر سکتا تھا۔ عوامی راج کے خواب کو حقیقت بنانے کیلئے انھوں نے جب ۸۱ اکتوبر ۷۰۰۲؁ کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا تو ان کا استقبال کارساز پر بم دھماکوں سے کیا گیا۔ بی بی شہید تو معجزانہ طور پر اس حملہ میں بچ گئیں لیکن ۰۵۱ جیالوں کی لاشیں اس کی جھولی میں ڈ ال دی گئیں۔ جمہوریت کی جنگ میں ۷۲ دسمبر ۷۰۰۲؁ ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔اشرافیہ جیت گئی اور جمہوریت کی علامت بی بی شہید اپنے عوام سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئیں۔جمہوریت کی اتنی بڑی قربانی بی بی شہید جیسی عظیم شخصیت ہی دے سکتی تھی۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم صاف و شفاف انتخابات کا انتظام کریں اورا قتدار اس قائد کے حوالے کریں جو عوامی مینڈیٹ کا حقدار ہو۔ یہی وقت کی آواز ہے اور اس پر لبیک کہنا اہر ایک کا آئینی فرض ہے۔وقت نازک ہے لہذا آئین سے رو گردانی کی اب گنجا ئش نہیں ہے۔،۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں