۔،۔۶۵بہنوں کا ایک بھائی۔اے آراشرف بیورو چیف جرمنی۔،۔
کتنی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان بستے ہیں اور تقریباََ ۷۵ مسلمان ممالک ہیں مگر آواز اسقدر نحیف اور کمزور کے سوشل میڈیا پر کسی منچلے اور دکھی اُدل نے کیاخوبصورت اور معنی خیز جملہ کہا ہے۔۔۶۵ بہنوں کا ایک بھائی۔۔یعنی ۶۵ بہنوں کا صرف ایک بھائی ایسا ہیکہ جس کی غیرت ایمانی جاگی کہ اس نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر بلا خوف اسرائیل پر حملہ کرکے اپنی شجاعت و بہادری کا ثبوت دیاسوشل میڈیا کایہ جملہ تمام ریاستوں کے حکمرانوں کی غیرت ایمانی اور سوئے ضمیرکو جگانے کیلئے نشتر ثابت ہو سکتا ہے مگر جہاں ضمیر ہی مُردہ ہو چکے ہوں اور ان حکمرانوں نے اپنے گلوں میں غلامی کے طوق پہن رکھے ہوں اُن کی غیرت ایمانی یا ضمیر کو جگانا کسی معجزے سے کم نہیں کیا اہل عرب کے حکمران اسقدربے حس اور سنگ دل ہو سکتے ہیں کے اُنہیں فلسطین کے دہکتے آتش فشاں کی تپش محسوس نہیں ہو رہی جبکہ۔مالٹا۔جیسے ملک نے بھی اسے محسوس کیا ہے؟میں اس موقع پراپنے عرب بھائیوں کی سخت جانی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتاکیا وہ تصور کرتے ہیں کہ یہ جنگ صرف اسرائیل ایران کی ہے؟ فلسطین میں اسرائیل کی ظُلم و بربریت اور درندگی دیکھ کر موت بھی آنسو بہائے بنا نہیں رہ سکتی غزہ میں اسوقت اسرائیلی جارحیت سے کم و بیش پینتس ہزار فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے اور اس سے دوگنی تعداد زخمیوں کی بھی ہے مگراس قتل عام پرمغرب کی بے حسی اور منافقت کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی پھر مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں کی خاموشی اورکردار بھی صرف مذمت تک محدود رہنااسرائیلی اقدام کو بڑھاوا دینے کہ سوا کچھ بھی نہیں پھر اقوام متحدہ کا کرداراسقدر گھناونا اور مشکوک ہے کہ ہر باشعور آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ ادارہ تو اب بس بڑی طاقتوں کی رکھیل بن چکا ہے یہ ادارہ اب تک کسی ایک سنجیدہ اورپیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرنے میں بُری طرح ناکام ہوا ہے فلسطین اور مقبوضہ کشمیردوایسے آتش فشاں ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ کر دنیا کے سکون اور آمن کو تہہ وبالا کر سکتے ہیں ایسے میں اگر ایران جیسا ملک مظلوم ومجبوراور نہ ہتھے فلسطینوں کی حمائت اور اسرائیلی جارخیت کے خلاف حملہ کرتا ہے تومغرب اور اُسکے ہمنوااسے ٹوپی ڈرامہ ہی کہیں گے اور وہ نہ صرف تنقید کرتے ہیں بلکہ دوسری مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی کوئی ٹھوس ا قدام اُٹھانے سے روکتے ہیں شرمناک پہلو یہ ہے اخوان المسلمون کے قائم مقام مرشد ڈاکٹر صلاح عبدالحق کو بڑے دکھ ساتھ یہ بیان دینا پڑاکہ عرب حکمرانوں نے اسرائیل کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی بجائے اُنسے ہاتھ ملانا شروع کردیے تھے لیکن حماس نے اس رحجان کو۷اکتوبرکے حملے سے توڑ دیااگر جنرل سیسی اسرائیل کی مدد نہ کرتاتوغزہ میں زیادہ عرصہ نہ ٹھہر سکتااُنہوں نے کہا ایران اور اسرائیل کے درمیان دراصل گریٹرصیہونی ریاست کے قیام کی جنگ ہے ہمارے پاس کوئی جواز اور چارہ نہیں کہاسرائیل کے مقابلے میں ایران کی حمایت نہ کریں اُنہوں کہا صیہونی ریاست سرتوڑ کوششوں کے باوجود غزہ میں اپنے مقاصدحاصل نہیں کر سکتی جو قیدیوں چھڑوانے اور حماس کے خاتمہ پر مشتمل تے اُنہوں نے کہا باقی مسلمان ممالک حصوصاََ ترکیہ سے کہتے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر حماس کے وجود کو تسلیم کر لے اور ہر طرح کی مدد کرنے سے مت ہچکچائیں حماس ہمارا قرض چکا رہے ہیں۔دوسری جانب امریکہ کی منافقت کایہ عالم ہے کہ اُس نے حال ہی میں سلامتی کونسل میں فلسطین کی رکنیت کے بارے میں بحث کے دوران سلامتی کونسل کے پندرہ اراکین میں سے بارہ ارکان نے فلسطین کے حق میں ووٹ دیا جبکہ دو ارکان برطانیہ اور سویزرلینڈ نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا اس طرح اکثریت رائے سے یہ قرارداد منظور ہو رہی تھی جسے امریکہ نے اپنی دیرینہ منافقت کا ثبوت دیتے ہوئے ویٹو کرکے فلسطین کے سینے میں ایک با پھر خنجر گھونپا ہے جسکی فلسطین کے صدر جناب محمود عباس نے پُرزور الفاظ میں مذمت کی ہے اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کا ویٹو کرنے کا اقدام غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی ہے۔ حالیہ ایران اوراسرائیل کی بڑھتی ہوئی کشیدگی مشرق وسطیٰ میں ایک تباہ کن جنگ کا ہارن بجا رہی ہے اس بڑھتی ہوئی کشیدگی میں پاکستان کا موقف اگرچہ واضیح ہے پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کے موقف کی سیاسی اور اخلاقی حمائت کی ہے لیکن عملی طور پر مسلمان ریاستوں میں سے ایران کے سوا کوئی بھی سامنے نہیں آیا اب دیکھنا یہ ہے اگر کشیدگی کنٹرول سے باہر ہوتی ہے تو پاکستان کہاں کھڑا ہے کیا وہ دو اسلامی برادر ملک فلسطین اور ایران کا ساتھ دے گا یا پھر دوسرے عرب ممالک کی طرح غلامی کی زنجیر میں بندھا رہے گا