۔،۔ آوُٹ آف دی باکس۔ جاوید چوہدری۔،۔
کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا انڈسٹریل سٹی ہے‘ اس شہر میں دنیا کی سب سے بڑی لیدر فیکٹری بھی ہے اور کاٹن ملز بھی‘ انیل کمار اسی کان پور شہر کا باسی ہے‘ یہ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔اس نے بڑی مشکل سے اپنی بیٹی اروی کو انجینئرنگ کی تعلیم دلائی‘ اروی کی شادی 2016میں ہوئی‘ اس کا خاوند کمپیوٹر انجینئر تھا‘ اروی شادی کے بعد دہلی شفٹ ہو گئی اور اس نے ائیرپورٹ پر ملازمت کر لی یوں دونوں میاں بیوی کمانے لگے‘ اللہ نے انھیں بیٹی بھی دے دی‘ انیل کمار کا زیادہ تر سرمایہ بیٹی کی تعلیم پر خرچ ہو گیا لہٰذا وہ اروی کو قیمتی جہیز نہیں دے سکا‘ بیٹی کے سسرالی لالچی تھے‘ وہ اسے جہیز کی کمی کے طعنے دیتے رہتے تھے۔اروی شروع میں برداشت کرتی رہی مگر معاملہ آہستہ آہستہ بگڑتا چلا گیا یہاں تک کہ نوبت طلاق تک آ گئی‘ اروی نے اپریل 2024میں اپنے والد سے بات کی‘ والد دہلی گیا‘ سسرال سے ملا‘ بیٹی کو دیکھا تو اسے محسوس ہوا اس نے شادی کا فیصلہ غلط کیا تھا‘ یہ لوگ چھوٹی ذہنیت کے ہیں اور اس کی بیٹی یہاں خوش نہیں ہے‘ یہ خوش رہ بھی نہیں سکتی‘ یہ رشتہ جلد یا بدیر ختم ہو جائے گا کیوں کہ دونوں میاں بیوی کی سوچ میں بہت گیپ ہے لہٰذا انیل کمار نے بیٹی کو طلاق کی اجازت دے دی تاہم اس نے بیٹی کے سسرال کے سامنے ایک عجیب شرط رکھ دی۔اس کا کہنا تھا میں نے بیٹی کو ڈھول اور باجوں کے ساتھ آپ کے گھر بھجوایا تھا‘ یہ بن سنور کر یہاں آئی تھی‘ اس نے شادی کا سرخ جوڑا پہنا تھا‘ یہ شادی کی گاڑی میں سوار تھی اور اس کے ساتھ جہیز کا سامان بھی آیا تھا‘ میری بیٹی جس طرح سسرال آئی تھی یہ اسی طرح گھر واپس آئے گی‘ یہ سجے گی‘ سرخ جوڑا پہنے گی اور میں اسے ڈھول اور باجوں کے ساتھ واپس لے کر جاؤں گا‘ سسرال حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ ساس نے اپنا دوپٹا منہ میں دبا لیا‘ سسر انیل کمار کو گھورنے لگا جب کہ داماد نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ان لوگوں کا خیال تھا ’’بڈھا سٹھیا گیا ہے‘‘ بیٹی نے بھی شروع میں یہی سوچا لیکن والد کا کہنا تھا‘ بیٹا ہمارے سماج میں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے‘ والدین انھیں بیٹوں کے مقابلے میں اعلیٰ تعلیم بھی نہیں دلواتے اور انھیں نوکری بھی نہیں کرنے دیتے جب کہ میں نے تمہیں پہلے دن سے بوجھ نہیں سمجھا‘ میں نے پھول کی طرح تمہاری پرورش اور حفاظت کی‘ میں نے تمہیں بیٹوں سے زیاہ اچھی تعلیم دی اور اپنی ہمت سے بڑھ کر تمہاری شادی کرائی چناں چہ میں نہیں چاہتا تم اداس‘ پریشان اور ڈسٹرب ہو کر گھر واپس آؤ‘ دوسرا ہمارے سماج میں طلاق یافتہ لڑکیوں کو منحوس سمجھا جاتا ہے‘ یہ بے چاریاں پوری زندگی سفید ساڑھی میں گزار دیتی ہیں‘ لوگ انھیں شادیوں پر بھی نہیں بلاتے۔میں یہ روایت بھی بدلنا چاہتا ہوں‘ میں سماج کو بتانا چاہتا ہوں طلاق کے بعد بھی بیٹیاں‘ بیٹیاں ہی رہتی ہیں‘یہ منحوس نہیں بنتیں چناں چہ تم اسے میری خواہش سمجھ کر قبول کر لو‘ بیٹی باپ کے گلے لگ کر رونے لگی‘ انیل کمار کی بیٹی کی واپسی کا دن طے ہوا‘ والد نے اسے شادی کے کپڑے پہنائے اور پھر باجوں اور گاجوں کے ساتھ بیٹی کو اپنے گھر واپس لے گیا‘ یہ نظارہ پورے کان پور نے دیکھا‘ میڈیا نے بھی اسے کوریج دی‘ اس معمولی سے ’’جیسچر‘‘ کے بعد کان پور کی عورتوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گیا‘ طلاق یافتہ عورتیں بھی اب پورے فخر کے ساتھ شہر میں نکلتی ہیں۔آپ اب میرے ایک جاننے والے کا قصہ بھی سنیے‘ یہ ایک باعزت اور خوش حال شخص ہیں‘ انھوں نے بڑے چاؤ کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی‘ بیٹی پڑھی لکھی‘ مہذب اور خوب صورت تھی جب کہ اس کا سسرال بالکل الٹ نکلا‘ وہ لوگ پیسے والے تھے‘ گاڑیاں اور بینک بیلنس بھی تھا اور وہ کاروبار بھی کرتے تھے مگرتہذیب اورتمیزان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی‘ بیٹی ڈیڑھ سال وہاں رہی لیکن اس نے ایک دن بھی سکھ کا سانس نہیں لیا‘ والد کو پتا چلا تو وہ فوراً بیٹی کے سسرال گیا‘ صورت حال دیکھی‘ بیٹی سے تنہائی میں بات کی اور پھر اس کے سسرال سے طلاق مانگ لی‘ وہ لوگ بدتمیز تھے‘ انھوں نے طلاق دینے سے انکار کر دیا۔والد نے خلع کا دعویٰ دائر کیا اور وہ ہر پیشی پر بیٹی کو خود ساتھ لے کر عدالت جاتا تھا‘ جج صاحبہ اچھی خاتون تھیں‘ وہ ایک دو پیشیوں میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں اور انھوں نے خلع کا فیصلہ کر دیا یوں یہ معاملہ ختم ہو گیا لیکن اصل کہانی اس کے بعد آتی ہے‘ اس صاحب نے اپنے پورے خاندان اور دوست احباب کو باقاعدہ پارٹی دی اور اس پارٹی میں اناؤنس کیا‘ میری بیٹی بہت اچھی ہے‘ اس نے ہماری چوائس پر شادی کی لیکن ہمارا فیصلہ غلط نکلا۔ہم نے خلع لے لی اور ہم آپ کو خلع کے موقع پر دعوت کھلا رہے ہیں‘ آپ میری بیٹی کے مستقبل کے لیے دعا کریں‘ لوگ اپنی جگہوں سے اٹھے‘ تالی بجا کر بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور اسے ڈھیروں دعائیں دیں‘ بیٹی کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا‘ اس نے اس کے بعد کاروبار شروع کیا اور یہ اب بہت کام یاب اور شان دار زندگی گزار رہی ہے‘ اس نے پچھلے سال اپنی پسند کی شادی بھی کر لی‘ اس کا خاوند اس کے کاروبار میں اس کا ساتھ دے رہا ہے۔آپ اب ایک تیسری مثال بھی لیجیے‘ کراچی کے ایک صاحب نے بڑے چاؤ سے بیٹی کی شادی کی‘ بیٹی کا سسرال بہت اچھا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے بیٹی کو اولاد نرینہ سے بھی نواز دیا‘ جوڑا اپنی گھریلو زندگی سے بہت خوش تھا لیکن پھر اچانک ایک دن ان کے داماد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جانبر نہ ہو سکا‘ یہ صدمہ خوف ناک تھا‘ داماد کی تدفین کے بعد پاکستان میں بیٹیاں والدین کے گھر واپس آ جاتی ہیں‘ یہ صاحب بھی عدت کے بعد بیٹی کو لینے پہنچ گئے لیکن وہاں صورت حال مختلف تھی‘ بیٹی کے سسر اور ساس دونوں کو اپنی بہو اور پوتے سے بہت محبت تھی‘ وہ ان کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔بیٹی کو بھی ساس اور سسر سے بے انتہا الفت تھی چناں چہ سسرال نے بہو کو واپس بھجوانے سے انکار کر دیا‘ دونوں خاندانوں کے درمیان کھینچا تانی شروع ہو گئی‘ یہ سلسلہ سال چھ ماہ چلا لیکن اس کے بعد دونوں نے اس کا ایک دل چسپ حل نکالا‘ انھوں نے مل کر ایک ایسا گھر خرید لیا جس کے تین پورشن تھے‘ ایک پورشن میں لڑکے کی ماں اور باپ شفٹ ہو گئے‘ دوسرے پورشن میں ساس اور سسر رہنے لگے اور تیسرے پورشن میں لڑکی اور اس کا بیٹا رہنے لگے‘ لان اور گیراج کامن تھا چناں چہ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھی تھے اور الگ الگ بھی۔لڑکی صرف 28 سال کی تھی‘ اس کی پوری زندگی پڑی تھی لہٰذا ماں باپ اور ساس سسر چاروں نے مل کر اس کا رشتہ تلاش کیا اور ایک گھر داماد گھر لے آئے یوں سارا خاندان ایڈجسٹ ہو گیا‘ چھوٹے بچے کو دادا دادی اور نانا نانی مل گئے اور بیٹی نے نئی ازدواجی زندگی شروع کر دی یوں تمام لوگ پریشانی سے محفوظ ہو گئے اور اب آپ ایک آخری کہانی بھی سنیں‘ بشریٰ انصاری ملک کی نامور اداکارہ ہیں‘ ہم سب ان کے ڈرامے اور پرفارمنس دیکھ کر جوان ہوئے ہیں۔انھوں نے 1978میں اقبال انصاری سے شادی کی تھی‘ اقبال انصاری ٹی وی کے مشہور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں‘ان کے بچے بھی ہیں اور یہ ما شاء اللہ شادیاں کر کے کام یاب زندگی گزار رہے ہیں‘ بشریٰ انصاری نے 36 سال کی رفاقت کے بعد 2014میں اقبال انصاری سے طلاق لے لی‘ یہ طلاق کے بعد دس سال اکیلی رہیں اور چند ہفتے قبل انھوں نے 68 سال کی عمر میں اپنے سے20سال چھوٹے اقبال حسین سے شادی کر لی‘ یہ شادی میڈیا میں بہت کنٹروورشل ہوئی‘ لوگوں نے اس پر ان تھک وی لاگز کیے‘ یہ اعتراض بجا تھا۔ہمارے معاشرے میں نانی کی طلاق کی روایت نہیں ہے اور اگر یہ ہو جائے تو نانی کی دوسری شادی ناقابل برداشت ہوتی ہے مگر میری رائے اس سے بالکل مختلف ہے‘ بشریٰ انصاری یا اقبال انصاری کو اگر 36 سال کی رفاقت کے بعد بھی یہ احساس ہو گیا ہم ایک دوسرے کے لیے نہیں بنے یا ہمارا شادی کا فیصلہ غلط تھا تو اس رشتے کو توڑنے میں کیا حرج ہے اور دوسرا اگر خاتون 68 سال کی عمر میں خود سے 20سال چھوٹے شخص کے ساتھ خوش ہے اور وہ شخص اسے خوش دلی کے ساتھ قبول کر رہا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے‘ اس میں آخر کیا خرابی ہے اور ہم اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ہمارا معاشرہ حقیقتاً بیمار ہے‘ یہ ایسی واہیات روایات میں بندھا ہوا ہے جس نے لوگوں کی مت مار دی ہے‘ ہم نے طلاق اور اس کے بعد دوسری شادی کو عورت کا جرم اور گناہ بھی بنا دیا ہے اور ہماری یہ سوچ روزانہ سیکڑوں ہزاروں عورتوں کی جان لے رہی ہے‘ کاش ہم تھوڑا سا آؤٹ آف دی باکس سوچ لیں‘ ہم یہ دیکھ لیں شادیاں تو اولیاء اور بھگوانوں کی فیل ہوتی رہی ہیں اور کیا اس کے بعد ان کی زندگی رک گئی تھی۔زندگی نہیں رکتی اور اسے رکنا بھی نہیں چاہیے چناں چہ کاش ہم لوگ بھی انیل کمار کی طرح بیٹی کو ڈھول اور باجوں کے ساتھ گھر واپس لے آئیں یا پھر بشریٰ انصاری کی طرح اپنا فیصلہ خود کر سکیں اور اسے کھلے عام اون کر سکیں‘ ہمارے معاشرے کو حقیقتاً چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے‘ ہم اگر مزید ماضی کے پتھروں کے ساتھ بندھے رہے تو ہم زندگی کے دریا میں تیر نہیں سکیں گے‘ ہم سانس تک نہیں لے سکیں گے چناں چہ آؤٹ آف دی باکس سوچیں اور دوسروں کو بھی سوچنے دیں۔