۔،۔موت کا انتظار۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
نازیہ باجی کی مسلسل کال سے میرے موبائل کی سکرین بار بار روشن ہو رہی تھی لیکن میں شدید الجھن کا شکار تھا جب بھی کال لینے کی کو شش کرتا قلب و روح عجیب سے اضطراب کا شکارہو جاتا یعنی کال لینے سے انکاری بوجھل سا ہو جاتا ادھر ادھر مصروف ہو جا تا یعنی کال لینے سے انکاری تھا لیکن نازیہ باجی نے بھی شاید قسم کھالی تھی کہ ہرحال میں مجھ سے بات کرنی ہے جب سے میں تصوف کی وادی پر خار میں داخل ہو اہوں حق تعالی نے خدمت خلق کی ڈیوٹی میرے ذمے لگا دی اور میں اِس ڈیوٹی کو ٹوٹے پھوٹے انداز میں نبھانے کی کو شش کر تا آیا ہوں میری اِس ڈیوٹی میں بنیادی پہلو لوگوں کی باتیں سننا ہے لوگوں کو ہمدردی کا کندھا چاہیے جس پر سر رکھ کر وہ اپنے من کا بوجھ نکال سکیں اور میں یہ کام پچھلے تین عشروں سے نبھانے کی کو شش کرتا آیا ہوں امید حوصلہ دے کر بندے کو کھڑا کرنا یہ میری روزانہ کی ڈیوٹی ہے لیکن بعض اوقات دوستوں کے ایسے سوال سامنے آجاتے ہیں جہاں میرا حوصلہ امید شاستگی خوش اخلاقی بھی دم توڑ دیتی ہے میں جو لکھنے لکھانے کاکام بھی کرتا ہوں اِس کے لیے الفاظ کی جادوگری کا ہنر بھی تھوڑا بہت جانتا ہوں الفاظ کا مناسب چناؤ حوصلہ افزا گفتگو مایوس انسان کو مایوسی کے تاریک اندھیروں سے نکال کر روشن امید بھرے دنوں کا احساس دلا کر پھر زندگی کی دوڑ میں دوڑنے کا کہتا ہوں اکثر اللہ کی مدد سے مشکل دن جب بھر جاتے ہیں تو اچھے دن بھی آجاتے ہیں انسان بنیادی طور پر بے چین بے صبرا ہے اِس لیے ذرا سی مشکل آئی نہیں اور اِس نے چیخ و پکار شروع کی نہیں۔میں ایسی بے چین روحوں کو حوصلہ دیتا ہوں میرا کام روزانہ یہی ہے کہ بے چین پریشان حال بے صبرے لوگوں کو حوصلہ ہمت دے کر زندگی کی دوڑ میں پھر سے شامل کر دیتا لیکن کچھ لوگ ایسے سوال لے کر میرے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں یا پھر بار بار فون کال کر تے ہیں جن کا جواب میرے پاس نہیں ہو تا اور ایسے سوالوں پر میں پتلہ خاکی کی فطرت پر غور کر کے بھی پریشان ہو جاتا ہوں کہ اِس مشت ِ غبار کی اوقات حقیقت یہ ہے لیکن پھر بھی جوانی کے اوقات میں کس طرح بڑھکیں مارتا نظر آتا ہے رگوں میں دوڑتا طاقتور جوان خون کس طرح تکبر کے گھوڑے پر سوار کر دیتا ہے میں انسان کے عروج اور زوال پر غور کر کے لرز جاتا ہوں مجھے روحانی دنیا میں آئے تقریبا تیس سال ہو نے والے ہیں میری اوائل عمری میں جو تکبر کے گھوڑے پرسوار لوگ تھے اب زیادہ تر تو مر چکے ہیں یا پھر بڑھاپے اور بیماریوں کی امر بیل نے انہیں چلتی پھرتی لاش میں تبدیل کر دیا ہے عالی شان عمارتیں اب کھنڈرات میں بدل چکی ہیں انسان کے اِس عروج زوال کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے باجی نازیہ جو بار بار مجھے کال کر رہی تھیں یہ کردار بھی ایسے ہی کرداروں میں سے ایک ہے جن کی جوانی کا لشکارا میں نے دیکھا ہے اب موت کی دہلیز پر سسکتے بھی دیکھا یہ نازیہ باجی کی ساس اقبال بیگم کی کہانی ہے جس نے مجھے ہمیشہ کی طرح لرزا کر رکھ دیا ہے اقبال بیگم جوانی سے بڑھاپے کا سفر کرتے کرتے اب موت کی وادی میں اترنے کے لیے آخری سانسیں لے رہی ہیں لیکن موت اُن سے روٹھ چکی ہے نازیہ باجی پچھلے دو ماہ سے مجھے تقریبا روزانہ کال کر کے ایک ہی سوال کرتی ہیں بھٹی صاحب میری ساس چھ ماہ سے بستر پر موت کا انتظار کر رہی ہیں کبھی بے ہوش کبھی ہوش میں جھول رہی ہیں آپ بتائیں یہ کب آخری سانسیں لیں گی یعنی اِن کو موت کب آئے گی میں ہر بار پریشان ہو جاتا کہ اب میں اِن کو کیا بتاؤں ایک دن میں نے پو چھا باجی آپ بار بار کیوں اِن کے مرنے کی بات کرتی ہیں تو وہ کہنے لگی میرے بیٹے کی شادی قریب آرہی ہے میں نے موسم کے مطابق بہت سارے کپڑے تیار کر انے ہیں اگر یہ شادی سے چند دن پہلے مرتی ہیں تو ہماری شادی لیٹ ہو جائے گی دوسرا میرے خاندان کے بہت سارے لوگوں نے باہر کے ملکوں سے پاکستان آنا ہے سب کی ٹکٹیں بک کروانی ہیں وہ بار بار پوچھتے ہیں کہ ہمیں ٹکٹیں کینسل کر انی پڑیں تو ہمار ابہت سارا پیسہ برباد ہو جاتے گا ہم نے شادی ہال کی بکنگ کروا رکھی ہے اگر وہ بدلنی پڑی تو بہت نقصان ہو جائے گا یہ بوڑھی مائی کب مرے گی کب ہماری جان چھوٹے کی میرے خاوند کو تو اِس وقت بھی ماں سے شدید محبت ہے وہ پیسے پر پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ سب ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے بیماریوں اور بڑھاپے نے ساس صاحبہ کا جسم کھالیا ہے اب وہ لاش ہیں لیکن فرشتہ پتہ نہیں اُن کے جسم کو آزاد کرنے کیوں نہیں آرہا تو مجھے انسانوں کی بے رحمی کا شدت سے احساس اور اقبال بیگم کی جوانی طاقت دولت کروفر یاد آگیا جب وہ اپنے بیٹوں کے لیے رشتوں کے لیے میرے پاس آتی تھیں تو ان کی ایک ہی ڈیمانڈ ہوتی تھی کہ لڑکی خوبصورت پڑھی لکھی اور امیر خاندان کی ہونی چاہیے تو میں دبے لفظوں میں کہتا آنٹی جی آپ بڑھاپے کی طرف بڑھ رہی ہیں خوف خدا کریں کسی غریب خاندان کی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی بہو کے طور پر لے آئیں وہ آپ کی خدمت بھی کرے گی اور غریب والدین آپ کو دعائیں بھی دیں گے تو وہ ہر بار کہتیں غریبوں کی لڑکیاں اپنے گھروں کو بھرتی رہتی ہیں خاوند کی دولت اپنے میکے والوں کو دیتی ہیں اِس لیے میں کبھی بھی غریب لڑکی نہیں لاؤں گی دوسرا بڑھاپے میں خدمت کے لیے نوکر چاکر بہت ہوتے ہیں وقت کا بے راس گھوڑا دوڑتا چلا گیا تیس سال گزر گئے اقبال بیگم اپنے تین امیر زادوں کے لیے اپنی مرضی کی امیر خاندانوں کی بہوئیں بھی لے آئیں جوانی سے بڑھاپے کا دو ر شرو و ہوا تو بیماریوں نے بھی جسم میں سرنگیں بنانی شروع کر دیں امیر خاندانوں نے اپنی بیٹیوں کو پلاٹ دیے تھے جن پر گھر بھی بنا دئیے تو ہر بیٹا اپنی بیگم کے ساتھ نئے گھر میں شفٹ ہوتا چلا گیا اب تینوں بہوؤں نے ایک ایک دن کی باری باندھ لی ہر اپنی باری پر آتی حال پوچھ کر چلی جاتی اقبال بیگم کا خاوند فوت ہو گیا اب اقبال بیگم اپنے تین بیٹوں کے ہوتے ہوئے پرانی کوٹھی میں اکیلی رہتی تھی عدم توجہ اور بڑھاپے سے بیمار ہو تی چلی گئیں آخر بستر سے چپک کر رہ گئیں کو یہ غریب بہو ہو تی تو اچھا سلوک کر تیں تو وہ خوف خدا سے اِن کا خیال بھی کرتی یہاں تو امیر خاندانوں سے آئی تھیں جو آنے کی ڈرل کرتیں اور چلی جاتی دن رات ساس کے مرنے کی دعائیں کر رہی ہیں جبکہ موت کا فرشتہ روٹھ سا گیا یہ ہے انسان کی اصل حقیقت جب فرشتہ دار مرنے کی دعائیں کرتے ہیں۔
0