۔،۔مست زندگی۔ محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
میرے موبائل کی سکرین بار بار شیخ راشد کے نام سے روشن ہو رہی تھی جو ایک خدا ترس رحم دل مخلوق کا درد محسوس کر نے والاشخص جس کو اللہ نے خوب خوب خدمت خلق کا موقع عطا کیا میں نے مسکرا کر گرین بٹن سے موبائل کو آن کیا اور شیخ صاحب کی زندگی سے بھرپور نعرے مارتی آواز سماعت سے ٹکرائی وہ بہت خو ش تھے بولے پروفیسر صاحب میرا ڈپریشن خوف سب دور ہو گئے ہیں جوساری ساری رات بے چینی سے کروٹیں لیتا تھا نیند کی دیوی سالوں سے مُجھ سے روٹھ چکی تھی پرسکون میٹھی نیند بلکل بھی نہیں آتی تھی اللہ کا شکر ہے اب میں پر سکون بھرپور میٹھی نیند کے مزے لیتا ہوں آپ کا مشورہ نصیحت کام کر گئی فارمولا بلکل ٹھیک رہا میں دنیاوی طور پر تو کامیاب ہو ا ہی ناممکن ترین ٹینڈر میرے حق میں نکلتے جا رہے ہیں جس کو میں اللہ کے فضل سے کامیابی سے مکمل کر تا جارہاہوں ساتھ میں میرے اندر جو ہر وقت خوف کے زلزلے آتے تھے کربلا سی مچی رہتی تھی سب کچھ ہونے کے بعد خوف پریشانی اضطراب بے چینی بے کیفی جاتی نہیں تھی اللہ کے شکر سے اب میں ناامیدی ڈپریشن خوف کے تاریک اندھیروں سے نکل کر زندگی سے بھرپور رنگوں خوشیوں سے بھرپور زندگی جی رہا ہوں اب تو قبر اور موت کا خوف نہیں رہا بلکہ موت کا فرشتہ اگر آئے گا توخوشدلی سے خوش آمدید کہوں گا پروفیسرصاحب زندگی کی مستی سرور لطف کو انجوائے کررہا ہوں میں پہلے زندگی کی مستی سرور سے بلکل بھی واقف نہیں تھا ہر وقت اضطراب کی لہریں میرے قلب و روح کو بے چین کئے رکھتی تھیں لیکن اب تو مستی کے ساتویں آسمان پر ہوں یہ زندگی کی مستی جو ہے یہ بہت قیمتی ہے اِس مادیت پرستی کے دور میں جب اخلاقی قدریں مردہ ہو چکیں ہیں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اوپر سے مہنگائی کے ہوشربا عفریت نے سفید پوشوں کو بھی ہڑپ کر نا شروع کر دیا ہے لوگوں کا زندہ رہنا محال ہو گیا ہے دولت کو حاصل کر نے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں آج کر ہر انسان شامل اندھا دھند دوڑے چلا جا رہا ہے مہنگائی اِس قدر کے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے چند دن پہلے ایک سفید پوش دوست اپنے دو بچوں کو لے کر آیا تو میں نے دیکھا بچے کمزور ہو گئے ہیں بلکہ خاموش سے لگ رہے تھے وہ پہلے جب بھی آتے خوب ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے لیکن آج زرد کمزور چہروں کے ساتھ خاموش بیٹھے تھے بچوں کی فطری شرارتیں چہروں کا سرخ رنگ رخصت ہو چکا تھا میں نے دوست سے پوچھا کیا بات ہے تمہارے بچے کمزور سے ہو گئے ہیں تو وہ سرگوشی میں بولا مہنگائی روٹی آٹا اِس قدر مہنگے ہو گئے ہیں کہ ہم نے کھانابڑی مشکل سے دو وقت سے ایک وقت کا کر دیا ہے اور روٹی بھی ایک کر دی ہے وہ دیر تک مہنگائی کی باتیں کر تا رہا اور میں معصوم بچوں کے چہروں پر غربت مہنگائی کی لہریں محسوس کر تا رہا میں اٹھا اندر گیا بہت سارے پھل ٹافیاں لے آیا ان کے سامنے رکھ کر دوست سے باتوں میں مصروف ہو گیا ساتھ ہی تھوڑی دیر میں چکن بریانی بھی آرہی ہے بریانی کے نام سے بچوں کے چہرے کھل اُٹھے میرا دوست تو کھانا کھا کر اور جو کچھ میں کر سکا وہ چلا گیا لیکن مہنگائی کے اِس خوفناک دور میں پتہ نہیں کتنے گھروں میں لوگوں نے کھانا آدھا کر دیا دودھ انڈے گوشت عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہو گئے پھل تو عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا پاکستان کے حکمرانوں کی نان سٹاپ عیاشیوں لوٹ مارکے بعد ہمارا ملک مہنگائی کے آخری کنارے پر پہنچ چکا ہے جہاں عام آدمی گندم کے دانے دانے کو ترس رہا ہے اوپر سے بجلی کے بلوں نے تو انسان کو ادمویا سا کر دیا ہے ایک بل ادھار پکڑ کر ادا کر تے ہیں تو دوسرا بل اوپر سے گیس کا آجاتا ہے پہلے لوگ سردیوں میں پیسے جوڑ کر موسم گرما میں بجلی کے مہنگے بل ادا کر دیتے تھے لیکن اِس دفعہ گورنمنٹ گیس کے بل کا ایٹم بم بھی پھوڑ دیا ہے اب گیس کا بل بھی ہزاروں میں آتا ہے اب لوگوں کو سانس لینے کا موقع نہیں ملتا کہ دوسرا بل اب سردیاں گرمیاں برابر ہو گئیں ہیں سال تو لوگ بل کے پیسے دیں یا پھر کھانا ادھا رکر دیں مجبور لوگ کم کھانا کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ایسے اب میں شیخ راشد کی طرف آتا ہوں جو چند ماہ پہلے میرے پاس جب آیا تو خوف ڈپریشن میں ڈوبا ہوا کنجوس ایک ایک پیسے کے لیے ترسنے والا تو میں نے کہا اگر زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہو اور ڈپریشن سے نکل کر حقیقی خوشی بلکہ مست زندگی گزارنا چاہتے ہو تو اپنے رزق میں لوگوں کو ضرورت مندوں کو شامل کر لو تو دیکھو کس طرح اللہ تعالی تمہارے رزق میں برکت ڈالتا ہے شیخ صاحب نے مجھ سے مشورہ مانگا تو چند ضرورت مند خاندانوں کے ایڈریس دے کر کہا لوگ روٹی روٹی کو ترس رہے ہیں اڈوں پر مزدور ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں دوپہر کے بعد جب ان کو کوئی لے کر نہیں جاتا تو یہ خالی ہاتھ گھروں کو جاتے ہیں اِن کو روٹی پر حلیم لگا کر اوپر روٹی رکھ کر زیادہ تعداد میں دیا کرو تاکہ وہ گھروں کو بھی لے جا سکیں شیخ صاحب کو میرا مشورہ پسند آیا اب شہر کے مختلف اڈوں پر روٹی حلیم بانٹنا شروع کر دی ضرورت مندوں کے گھروں پر راشن ڈالنا شروع کر دیا جب وہ دکھی مایوس لوگوں کو حلیم لگا کر روٹیاں دیتے ساتھ گھر کے لیے بھی تو مردہ چہروں پر زندگی رقص کر نے لگتی شیخ صاحب کی روح بھی مست ہو کر جھومنے لگتی آج شیخ صاحب نے اپنی خوشگوار زندگی مست زندگی کے بارے میں بتایا تو بولے پروفیسر صاحب اللہ کے بندے مختلف طریقوں سے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں یہ فرشتہ نما انسان غربت کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل رہے ہیں اور بتایا میں ایک تندور سے سینکڑوں نان روٹیاں لیتا ہوں ووہاں پر روٹی اور نان کا سائز ڈبل ہے اور روٹی نان سستا بھی میں نے تندور والوں سے پوچھا تو انہوں نے خاص جواب دیا کہ ایک نیک دل انسان اُس نے شہر میں پانچ مختلف جگہوں پر اِسی طرح کے تندور لگا رکھے ہیں وہاں پر سستے داموں نان روٹی بڑے سائز کی بیچتا ہے خدمت خلق کے لیے ملازموں کو تنخوائیں اپنی جیب سے دیتا ہے وہ مالک کا ارادہ ہے کہ اِس طرح کے تندور اور جگہوں پر بھی کھولے جائیں گے جہاں پر سستی بڑے سائز کی روٹی لوگوں کو آسانی سے ملے گی شیخ صاحب بولے جناب پروفیسر صاحب آپ نے مجھے مست زندگی کا راز بتا دیا ہے کہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرو خاموشی سے تشہیر کے بغیر تو آپ کے اندر سے مستی کے فوارے پھوٹتے ہیں اور آپ خدا کے نیک بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں محترم قارئین یہ کامیاب آزمودہ فارمولا ہے آپ بھی آزما کر مست زندگی کو انجوائے کریں۔
0