۔،۔ کھوپڑیوں کے مینار۔ جاوید چوہدری۔،۔
1750تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں کا نیا طبقہ جنم لے چکا تھا‘ فرنچ غلاموں کی تجارت کی فیلڈ میں تاخیر سے داخل ہوئے تھے لیکن انھوں نے بہت جلد اس شعبے میں مناپلی قائم کر لی‘ اس کی بڑی وجہ افریقہ تھا‘ یہ افریقہ کے ایسے حصوں پر قابض ہو گئے تھے جہاں سے تنومند غلام پکڑ کر امریکا پہنچانا اور بیچنا آسان تھا چناں چہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے غلاموں کی تجارت میں نمبر ون ہو گئے جس سے پیرس میں دولت کی فراوانی ہو گئی۔پیسے میں اضافہ ہوا تو بڑے شہروں بالخصوص پیرس میں دھڑادھڑ محلات‘ فارم ہائوسز اور عمارتیں بننے لگیں‘ تعمیرات نے روزگار کے نئے ذرایع پیدا کر دیے جس کی وجہ سے لوگ دیہات سے شہروں میں شفٹ ہونے لگے یوں شہروں پر آبادی کا دبائو بڑھ گیا‘ 1780 تک ملک تین طبقوں میں تقسیم ہو چکا تھا‘ مڈل کلاس‘ یہ ورکنگ کلاس تھی اور ملک کا 10فیصد تھی‘ حکمران طبقہ‘اس میں شاہی خاندان‘ بیوروکریسی اور فوج شامل تھی یہ بھی دس فیصد تھی اور کسان‘ یہ لوگ 80 فیصد تھے‘ یہ طبقہ مفلوک الحال تھا اور اس کا گزارا 20 فیصد لوگ چلاتے تھے۔شہروں کی توسیع اور تعمیرات میں اضافے کی وجہ سے کسانوں کی ایک بڑی تعداد گائوں اور کھیتی باڑی چھوڑ کر شہروں میں آ گئی اور روزگار کی فراوانی کی وجہ سے یہ بھی مطمئن زندگی گزارنے لگے لیکن پھر غلاموں کی تجارت پر پابندی بھی لگ گئی‘ افریقی ملکوں کے اندر بیداری بھی شروع ہو گئی‘ یورپ میں تجارتی کساد بازاری کا دور بھی آ گیا اور امریکا میں سول وار بھی شروع ہو گئی جس کی وجہ سے فرانس کا معاشی پہیہ رک گیا‘ صنعت اور تعمیرات کے شعبے زوال پذیر ہو گئے‘ بے روزگاری بڑھنے لگی اور اس کے اثرات کسانوں پر پڑے۔شاہی خاندان‘ بیوروکریسی اور فوج کے اخراجات جوں کے توں تھے چناں چہ حکومت ٹیکس میں اضافے اور اس کا دائرہ کار بڑھانے پر مجبور ہو گئی یوں فرانس میں پہلی بار کسانوں اور مزدوروں پر ٹیکس لگ گیا اور ان دونوں نے احتجاج شروع کر دیا‘ یہ لوگ بھی اب کیوںکہ شہروں میں رہتے تھے اور اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے محلات‘ فارم ہائوسز اور عمارتیں دیکھتے تھے لہٰذا یہ سوچنے لگے ہماری غربت کی وجہ اشرافیہ ہے۔بادشاہ‘ فوج اور بیوروکریسی نے ملک کو تباہ کر دیا ہے اور اگر یہ لوگ ختم ہو جائیں گے تو ہم بھی امیر ہو جائیں گے‘ اس صورت حال سے انقلابی لیڈروں نے جی بھر کر فائدہ اٹھایا‘ یہ آگے بڑھے اور پیرس شہر میں تقریریں اور احتجاج شروع ہو گیا۔انقلاب کی اس فضا نے ایک انقلابی لیڈر میکسی میلن روبس پیری (Maximilien Robespierre) کو جنم دے دیا‘ وہ بلا کا مقرر اور طلسماتی شخصیت کا مالک تھا‘ وہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں مقبول ہو گیا‘ وہ لفظوں کا شہنشاہ تھا چناں چہ وہ غریب طبقے کی امیدوں کا مرکز بن گیا ’’روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لو‘‘ یہ واقعہ بھی روبس پیرس نے ایجاد کیا تھا‘ وہ کہتا تھا ملک کے تمام وسائل پر چور حکمران اور ظالم فوج قابض ہے‘جب تک یہ لوگ ختم نہیں ہوتے اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرے گا‘ لوگ اس کی بات پر یقین کرتے تھے لہٰذا وہ اکٹھے ہوتے چلے گئے اور روبس پیری انھیں لیڈ کرتا رہا‘ امریکا کی سول وار اس دوران بڑھ گئی۔فرنچ بادشاہ لوئس کی امریکا میں بہت سرمایہ کاری تھی‘ وہ امریکی سول وار میں شامل ہو گیا‘اس کی وجہ سے فرانس کا مالیاتی بحران مزید سنگین ہو گیا اور یہ ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ گیا یوں 5 مئی 1789 کا دن آیا اور فرانس میں انقلاب کی کارروائیوں کا آغاز ہو گیا‘ انقلابی گروپوں نے سرکاری املاک پر حملے شروع کر دیے۔حکومت نے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی لیکن سرکاری عہدیدار بھی ایک ایک کر کے انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور وہ جان بچانے کے لیے اپنے افسروں‘ سرکاری عہدیداروں اور شاہی خاندان کی مخبریاں کرنے لگے‘ ان مخبریوں کے نتیجے میں انقلابی لوگ افسروں‘ تاجروں اور شاہی خاندانوں کے گھروں اور محلات پرحملے کرنے لگے‘ انقلابیوں نے اشرافیہ کو سزا دینے کے لیے گلوٹین ایجاد کر لی تھی‘ یہ ایک ایسی بڑی سی ٹوکا مشین تھی جس کا بلیڈ تیزی سے نیچے گرتا تھا اور مجرم کا سر تن سے جداہو جاتا تھا۔انقلابیوں نے یہ مشینیں ملک کے مختلف حصوں میں لگا دیں‘ وہ لوگوں کو پکڑتے‘ عوامی عدالت میں پیش کرتے‘ جج سزائے موت سناتا‘ وہ گلوٹین سے اس کا سر اتارتے‘ اسے ہجوم میں پھینک دیتے اور ہجوم سر کا فٹ بال بنا لیتا‘ یہ سلسلہ 1789 سے 1799 تک دس سال چلا‘ ان دس برسوں میں ایک لاکھ 17 ہزار لوگ مارے گئے یا غائب ہو گئے‘ 16 ہزار 600 لوگوں کے گلوٹین کے ذریعے سر اتارے گئے اور تین لاکھ لوگ گرفتار ہوئے‘ سرکار کا پورا اسٹرکچر ختم ہو گیا۔پولیس‘ ڈاک‘ ٹرانسپورٹ‘ عدالت‘ انتظامیہ اور فوج سب کچھ برباد ہو گیا‘ اسپتال جلا دیے گئے اور ڈاکٹرز قتل کر دیے گئے‘ ملک بھر میں ملیشیا بنے‘ اسلحے پر قبضہ ہوا اور ملک 14 حصوں میں تقسیم ہو گیا‘ آخر میں انقلابی آپس میں بھی لڑ پڑے جس سے پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا‘ روبس پیری نے 1793میں بادشاہ لوئس اور ملکہ میری انٹونیٹ کے سر گلوٹین سے اتار دیے تھے‘ اس واقعے کے ایک سال بعد 1794میں ہجوم نے روبس پیری کو گلوٹین کے نیچے لٹا کر اس کا سر بھی تن سے جدا کر دیا یوں بادشاہ اور انقلاب کا بانی دونوں ایک ہی انجام کا شکار ہو گئے۔آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے فرانس میں انقلاب کی بنیاد سات لیڈروں نے رکھی تھی‘ وہ تمام لیڈرز بعدازاں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے اور لوگوں نے ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا‘ خانہ جنگی کا یہ دور دس سال جاری رہا‘ تاریخ اس کو رین آف ٹیرر (Reign of Terror) کہتی ہے یہاں تک کہ 1793میں تولون شہر میں ایک کرنل نے فوج کے ایک دستے کی کمان سنبھالی‘ توپوں سے تولون شہر فتح کیا۔شہر کے خزانے سے فوج کی تعداد میں اضافہ کیا پھر وہ اس فوج کو مصر لے گیا‘ مصری خزانہ لوٹا اور پھر اس رقم سے فرانس کی تتر بتر یونٹوں کو اکٹھا کیا‘ فوج کا سائز بڑھایا‘ 1797میں پیرس واپس آیا‘ نام نہاد حکومت کا تختہ الٹا‘ تاحیات قونصل اور پھر وہ 1804میں فرانس کا بادشاہ بن گیا‘ اس شخص کا نام نپولین بونا پارٹ تھا۔نپولین بونا پارٹ نے تگڑی فوج کے ذریعے فرانس سے ملیشیا اور انقلابی ختم کیے‘ سسٹم بحال کیا اور ڈکٹیٹر شپ کی مدد سے ملک میں ڈسپلن قائم کر دیا لیکن وہ روبس پیری سے بڑا پاگل تھا‘ اس نے آگے چل کر پورے یورپ کی مت مار دی‘ یورپ کو برباد کیا اور پھر 1812میں چار لاکھ فوج لے کر روس پر چڑھ گیا اور سینٹ پیٹرز برگ سے لے کر ماسکو تک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ اس کی فوج روس میں برف باری میں پھنس کر تباہ ہو گئی‘ وہ چند ہزار فوجیوں کے ساتھ واپس آیا‘ گرفتار ہوا اور ایلبا کے جزیرے میں قید کر دیا گیا‘ وہاں سے فرار ہو کر دوبارہ پیرس آیا‘ پھر فوج بنائی اور یورپ فتح کرنے کا اعلان کر دیا۔یورپ اس وقت تک اس سے تنگ آ چکا تھا چناں چہ برطانیہ اور روس نے مل کر اسے واٹر لو میں چھیل کر رکھ دیا‘ فرانس کی پوری فوج کا قیمہ بنا دیا گیا‘ نپولین کو گرفتار کر کے سینٹ ہلینا (جزیرہ) میں قید کر دیا گیا اور وہ وہاں 1821 میں 52 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے فوت ہو گیا یوں یورپ نے سکھ کا سانس لیا۔ نپولین کے بعد فرانس میں جمہوریت بحال ہوگئی‘ فرانس میں امن بھی قائم ہو گیا لیکن فرنچ فوج عملاً ختم ہو گئی‘ اس کا نتیجہ جنگ عظیم اول اور دوم میں فرانس کی تباہی کی شکل میں نکلا۔فرانس کو فوج کی کمی کی وجہ سے اپنی تمام نوآبادیات سے بھی ہاتھ دھونا پڑگیا اور اس کی سلامتی بھی دائو پر لگ گئی‘ دوسری جنگ عظیم میں اگر امریکا اپنی فوج فرانس نہ بھجواتا تو ہٹلر اسے قبرستان بنا دیتا بہرحال امریکا نے فرانس کو بچا لیا لیکن فرانس آج تک امریکا کو اس احسان کا بدلا چکا رہا ہے‘ آپ شاید اس حقیقت سے واقف نہ ہوں امریکا کا ’’اسٹیچو آف لبرٹی‘‘ 1885میں فرانس سے لایا گیا تھا۔مجسمہ آزادی دریائے سین کے کنارے نصب تھا‘ فرانس نے یہ دے کر آئفل ٹاور بچا لیا تھا کیوں کہ امریکا نے آئفل ٹاور پسند کر لیا تھا‘ فرنچ نے مجسمہ آزای دے کر آئفل ٹاور بچا لیا‘ انقلاب فرانس کو آج 235 سال گزر چکے ہیں لیکن اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں‘ یورپ میں آج بھی سب سے زیادہ احتجاج اور مارا ماری فرانس میں ہوتی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ انقلاب کے اثرات فرنچ لوگوں کے ڈی این اے میں پیوست ہیں اور یہ اثرات کب تک قائم رہتے ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ہمارے لوگ بھی آج کل انقلاب فرانس تلاش کر رہے ہیں‘ہمیں یہ انقلاب ضرور لانا چاہیے مگر ہمیں اس سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کیا ہم لوگ گلیوں میں دس پندرہ لاکھ لاشیں افورڈ کر سکتے ہیں؟ کیا ہم بجلی‘ گیس‘ پانی‘ تعلیم‘ اسپتال‘ سڑک‘ گاڑی‘ پٹرول‘ پانی‘ سیوریج‘ مارکیٹوں اور کرنسی کے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں؟ کیا ہم ملک کو 28 حصوں میں تقسیم دیکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم کچے کے ڈاکوئوں کی طرح سو دو سو ’’وار لارڈز‘‘ کے سامنے ناک سے لکیریں نکال سکتے ہیں؟ کیا ہم دس پندرہ سال قحط میں زندہ رہ سکتے ہیں؟کیا ہم دوسرے کا گوشت کھا سکتے ہیں اور کیا ہم ان عالمی فوجوں کی مار کھا سکتے ہیں جو ایٹم بم کی تلاش میں ہم پر یلغار کریں گی اور ہمارے ملک کا پورا انفرااسٹرکچر تباہ کر دیں گی اگر ان تمام سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر بسم اللہ کریں‘ انقلاب فرانس زیادہ دور نہیں ہے لیکن آپ یہ یاد رکھیں وہ انقلاب جس دن آ گیا اس دن پہلے عوام مریں گے اور پھر ساری انقلابی قیادت عوام کے ہاتھوں پھانسی چڑھے گی اور اس کے بعد ملک میں قبروں کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔چناںچہ میرا مشورہ ہے آپ اس دن سے پہلے ایک بار عقل کو ہاتھ مارلیں اور ان سب انقلابیوں کو اکٹھا بٹھالیں اور جو نہ بیٹھے اسے جوتے ماریں یا پوری زندگی جیل میں بٹھائیں‘ یہ ملک پھر بچے گا ورنہ فرانس تو انقلاب کے دس سال سہہ گیا تھا‘ ہم ہفتہ بھی انقلاب برداشت نہیں کر سکیں گے‘ لوگ لوگوں کو کھا جائیں گے‘ یہ سڑکوں پر کھوپڑیوں کے مینار بنا دیں گے اور ان میناروں کی چوٹی پر ان لوگوں کے سر ہوں گے جو اس وقت فرما رہے ہیں ’’ہم طاقت وروں کے علاوہ کسی سے بات نہیں کریں گے‘‘۔
0