0

۔،۔وی آئی پی قبر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔وی آئی پی قبر۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔
د دن پہلے اہل پاکستان کی نظروں سے ایک ایسی تصویر گزری جس میں صدر پاکستان اپنی بہن کے ساتھ اپنے والدین کی قبر وں پے قالین بچھائے آرام دہ گداز صوفوں پر بیٹھ کر والدین کے لیے فاتحہ خانی کر رہے ہیں پروٹوکول کے لوگ درباری بنے کھڑے ہیں تو یہ تصویر دیکھ کر مجھے چند سال پہلے قطب مینار دہلی کے سائے میں ہندوستان کے مشہور فاتح بادشاہ علاؤ الدین خلجی کا شکستہ اینٹوں کا انبار ٹوٹا پھوٹا قبر یا مزار یاد آگیا جس کو صدیوں کی کروٹوں اور موسموں نے اینٹوں کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا تھا وہ علاؤ الدین خلجی جس نے چوراسی سے زیادہ جنگوں میں حصہ لیا جس نے چنگیزی لشکروں کے منہ کھٹے کئے جس نے زندگی بھر کبھی ہار کا منہ نہ دیکھا ہندوستان بھر کی دولت خزانے بشمول کوہ نور ہیرا بھی حاصل کیا سونا اِس قدر اکٹھا کیا خزانے کے تجوریاں ابل پڑیں یہاں تک کہ کمرے بھر گئے تو سوئمنگ پول کے حوض میں سونا پگھلا کر بھر دیا یعنی نہانے کو حوض سونے سے بھر دیا عیاش اور دولت مند اِس قدر کے اگر پتہ چلتا فلاں راجے کی بیگم بہت خوبصورت ہے تو لشکرجرار لے کر اُس ریاست پر حملہ آور ہوکر اُس کو شکست دے کر اُس کی خوبرو رانی کو اپنے حرم یا عیش کدے میں شامل کرلیتا اقتدار دولت خزانے لشکر جرار کہ خدا بننے اور نیا مذہب بنانے کا شوق بھی آگیا لیکن عقل مند مشیروں نے اِس کام سے روکا تو رک گیا اب اُس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا خزانہ تھا گردش زمانہ کے ساتھ جب جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بڑھاپے کی وادی میں داخل ہوا تو احساس ہو ا کہ ایک دن دوسرے انسانوں کی طرح وہ مر بھی جائے گا یعنی اُس نے عجیب فیصلہ کیا اپنا مزار تیار کرایا اور حکم یہ جاری کیا کہ پانچ سو حفاظ کو بھرتی کیا جائے جو دن رات میری قبر پر قرآن مجید کی تلاوت کیا کریں گے یعنی دولت کے بل بوتے پر وہ ثواب خریدنے پر تُل گیا کہ دن رات جب حفاظ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے تو میں قبر میں آرام سے رہ پاؤں گا لیکن ایسا نہ ہو سکا صدیوں کے غبار نے مقبرے کو کھنڈر میں بد ل ڈالا چند سال پہلے میں جب قطب مینار دیکھنے گیا تو علاؤ الدین خلجی کے ٹوٹے پھوٹے مزار جس کی اب چھت اور دیواریں بھی نہیں ہے قبر بھی شکستی کا شکار نہ مدرسہ رہا نہ تلاوت کرنے والے حفاظ اور نہ ہے درباری مزارے مراسیوں کا لشکر جو دن رات بادشاہ کے قصیدے پڑھتے تھے یہاں پر چمگاڈروں کا راج اور پرندوں کا جو اپنے معدے صاف کر کے غلاظت پھیلاتے ہیں دوسری طرف ساتھ ہی چند گز کے فاصلے پر چشتی سلسلے کے مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کا مزار پر انوار اور اُس کے سامنے بے شمار اولیاء کرام کی قبور جہاں پر دن رات قرآن مجید کی تلاوت ورد درود پاک کی صدائیں اللہ ھو کی محفلیں عرق گلاب خوشبوؤں اگر بتیوں گلاب کے پھولوں کے ٹوکرے نمازیں نوافل عبادتیں مزار رنگ و نور کا مرقع سے ہوتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے زندگی بھر خدمت خلق کی لو انسانوں سے پیار کیا تو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں رب تعالیٰ آنے والے انسانوں کے قلوب کو ان کے لیے فتح کر دیتا ہے اُسی دہلی میں سے حضرت امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیاء ؒ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ حضرت مظہر جانِ جاں حضرت عبدالرحمن قادریؒ اور بے شمار خواجے اولیاء اللہ جن کی محبت کو صدیوں کا غبار بھی دھندلا نہ کر سکا دنیا بھر سے دیوانے لاکھوں روپے خرچ کر کے اِن کی قبر پر حاضری اور سلام پیش کر تے ہیں آج اِن اولیاء کی اولادوں کا نام نشان باقی نہیں لیکن کرہ ارضی پر کروڑوں دلوں کی دھڑکن یہ اولیاء اللہ آج بھی ہیں اِن کی شہرت دوام کیوں ملتی ہے اِس لیے کہ یہ ساری زندگی الہہ رنگ میں خدمت خلق کر کے گزار دیتے ہیں جب اِن کی زندگی کا ہر سانس خدا کی اطاعت اور محبت میں گزرتا ہے ساتھ میں اپنی زندگی کے سارے وسائل دولت خدمت خلق میں لگاتے ہیں تو اِن کی یہ عبادت خدا کو پسند آجاتی ہے اِس لیے پھر حق تعالیٰ اِن اولیاء کرام کو قیامت تک شہرت کے ساتویں آسمان پر چاند بنا کر روشن کر دیتا ہے یہ لوگ نہ تو اشتہار بازی نہ ہی گروینگ نہ ہی سفارشیں نہ ہی قبر پر خود قالین بچھاتے ہیں نہ ہی علاؤ الدین خلجی کی طرح حفاظ کی فوج کو بھرتی کرتے ہیں لیکن صدیوں پر صدیاں پڑتی چلی جاتی ہیں گردش ماہ و سال اِن پر غفلت کی چادر نہیں ڈالتے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اِن کی شہر ت اور محبوبیت میں اضافہ ہو تا چلا جا تا ہے لوگوں کا دل کر تا ہے انہیں اِن کے مزارات پر جاکر سکون ملتا ہے میں جب شاہ اجمیر ؒ کے مزار پر اجمیر شریف حاضر تھا تو اپنے میزبان ہندو سے پوچھا یہاں پر ستر فیصد نان مسلم آ تے ہیں کیا وجہ ہے تو وہ بولا ہمیں یہاں پر آکر سکون ملتا ہے دل کی بے چینی ختم ہو جاتی ہے اُس سکون خوشی کی تلاش میں ہم غلاموں کی طرح یہاں حاضر ہو تے ہیں اگر لوگ دیوانہ وار اِن دوستوں سے پیار کرتے ہیں تو حق تعالی اِن کے دلوں کو مسخر کر دیتا ہے وی آئی پی قبر سے مجھے ایک اور قبر یاد آگئی پچھلے سال امریکہ سے آئی ایک عورت تین دن مسلسل میرے پاس آئی کہ میری امی کی قبر پر دعا کرے میرے ساتھ چلیں میں نے بہت کہایہاں ہی کر دیتا ہوں لیکن وہ بضد کہ میرے ساتھ قبر تک جائیں تو میں اُس کے ساتھ قبرستان گیا تو حیران رہ گیا قبر پر شاندار کمرہ بنا تھا جس میں قالین اے سی صوفہ فریج پڑی تھی میں نے پوچھا یہ کیا تو بولی جب میں پاکستان آتی ہوں تو یہاں بہت گرمی ہو تی ہے آرام سے بیٹھا نہیں جاتا اِس لیے اے سی لگوایا صوفہ رکھا پھر یہاں بیٹھ کر ٹھنڈا پانی بھی پیتی ہوں اُس عورت نے دو ملازم رکھے تھے جو دن رات قبر کی چوکیداری کرتے تھے دعا کے بعد میں عورت سے بولا دیکھیں آپ نے لاکھوں روپے لگا دیے اِس خرچے کا امی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو وہ بولی امی کو کیسے ہو گا تو میں بولا کسی خیراتی ہسپتال میں وارڈ بنا دیں کوئی مدرسہ بنا دیں مسجد بنا دیں ڈسپنسری یا غریبوں کا علاج یتیم بچوں کی کفالت یتیم بچیوں کی شادی غریبوں کی مدد راشن تو وہ مان گئی کہ میں ایساضرور کروں گی تاکہ میری امی کو سکون اور ثواب ملے پاکستان میں دولت مند لوگ قبروں پر لاکھوں روپیہ لگا دیتے ہیں جس کا مرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں اگر انسانوں کی فلاح پر لگائیں تو قبروں میں اُن کو سکون ملے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں