-,-آبادی میں تشویشناک اضافہ- صابر مغل-,-
چند روز قبل دنیا بھر میں عالمی یوم ابادی منایا گیا ماضی کی طرح اس روز پاکستان سمیت ہر مقام پر یہ موضوع ڈسکس ہوا۔ملکی سربراہوں نے بیان دے کر اپنا اپنا فرض ادا کیا پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا۔دنیا میں ایک جانب بڑھتی ہوئی آبادی کی لہر دوسری طرف غذائی قلت۔ غربت میں بے پناہ اضافہ۔ مہنگائی کا، عروج انتہائی تشویشناک عوامل ہیں مگر ہزار کوشش کے باوجود بڑھتی آبادی کا گراف تیزی سے بلندی کی جانب گامزن ہے حال ہی میں ادارہ شماریات کی جانب سے پاکستان کی ساتویں مردم شماری پر ڈیجیٹل فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان کی اس وقت آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 90 ہزار کی حد تک پہنچ چکی ہے اور پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح خطے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ 2۔ 5 ریکارڈ کی گئی ہے مہنگائی کی شرح بھی اس خطے میں سب سے زیادہ ہے مگر ابادی میں پھر بھی تشویشناک حد تک اضافہ جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ تناسب سے اضافے کے باعث 2050 تک پاکستان کی آبادی دگنی ہونے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے جبکہ دیگر ماہرین کے مطابق یہ دو گنا اضافہ یقینی ہے۔ 2017 کے بعد 2023 میں ابادی کی گروتھ بڑی ہے۔ پاکستان میں 61 فیصد لٹریسی ریٹ ریکارڈ ہوا جس میں مرد 68 اور خواتین کی تعداد 53 فیصد ہے دو کروڑ 53 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں پنجاب 96 لاکھ۔ سندھ 78 لاکھ خیبرپختونخواہ 49 لاکھ اور بلوچستان میں یہ تعداد 50 لاکھ رپورٹ ہوئی معذور افراد کی شرح بھی خطرناک حد 10۔3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی 2۔ 8 ارب تک جا پہنچی ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ مطابق 2037 تک 9 بلین 2050 7۔9 ارب 2058 تک 10 ارب نفوس ہو گی 10 ارب ابادی کا تخمینہ پہلے 2080 تک کا تھا۔سب سے زیادہ اضافہ جمہوری جمہوریہ کانگو۔ مصر۔ ایتھوپیا۔ نائجیریا۔ پاکستان۔ فلپائن اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ ممالک میں ریکارڈز کیا گیا 1980 سے 2022 کے درمیان 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد 77 کروڑ جو 2050 تک 6۔ 1 ارب تک پہنچ جائے گی چین وہ واحد ملک ہے جس نے ابادی کنٹرول کرنے پرسب سے زیادہ توجہ دی اس کی شرح کو کم کیا ماہرین کے مطابق آنے والے برسوں میں بھارت آبادی کے لحاظ سے چین سے آگے نکل جائے گا 2050 تک بھارت کی متوقع آبادی 67۔1 ارب ہے اقوام متحدہ نے اس مسلے پر سوچ بچار کے بعد 1989 میں 11 جولائی کو ورلڈ پاپولیشن ڈے مقرر کیا اور تمام ممالک کو اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کو کہا بڑھتی آبادی کا اندازہ اس بات بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 2023 میں عالمی ابادی 8 ارب تھی جو 2024 میں 2۔ 8 تک پہنچ گئی۔ صدیوں قبل گروتھ ریٹ 05۔ 0 سالانہ تھا 1800 سے 1930 مطلب 130برسوں میں ایک ارب۔ 1930سے 1960تک 2 ارب۔ 1960 سے 1974 4 ارب۔ 1974 سے 1987 تک 5 ارب نفوس تک پہنچ گئی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق 91۔ 0 فیصد اضافہ سے 73 ملین ابادی سالانہ کی بنیاد پر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ٹاپ 10 ممالک میں بالترتیب بھارت۔ چائنا۔ امریکہ۔ انڈونیشیا۔ پاکستان۔ نائجیریا۔ برازیل۔ بنگلہ دیش۔ روس اور میکسیکو ہیں۔ 5ویں نمبر ہر پاکستان جلد چوتھے نمبر تک پہنچ جائے گا اور انڈیا پہلے نمبر پر۔دنیا کی کل ابادی کا ایک چوتھائی حصہ انتہائی غربت کا شکار ہے پاکستان جیسے ملک میں یہ شرح 50 فیصد سے بھی زائد ہے۔ دنیا کی آدھی ابادی شہروں میں منتقل ہو چکی اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی اس سے کہیں زیادہ شرح سے بھوک ننگ۔ افلاس۔ تنگ دستی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے دنیا کی آدھی آبادی علاج معالجے ادویات اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے آمدن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تمام ترقی پذیر ممالک میں 60 سے 70 فیصد افراد روزانہ 2 ڈالر سے کم کماتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے لیے یہ مسلہ گھمبیر سے گھمبیر تک ہوتا جا رہا ہے۔ جیسے آبادی میں اضافہ اسی طرح دگنے جانور کی بھی ضرورت ہے کیا ایسا ہو جائے گا بڑھتی آبادی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہیں ترقی یافتہ ممالک تو اپنی عوام کو ہر سہولت فراہم کر رہے ہیں ہم کیا کریں گے ہم سے تو پہلے ہی روٹی کیا نوالا تک چین چکا ہے۔ اس بارے حکومت صرف تشہیری مہم تک محدود رہتی ہے حقیقت میں سیمینارز اور آگاہی ہر زور دیا جائے کیونکہ ایسے مسائل شعور سے ہی حل ہوتے یا کئے جاتے ہیں تب ممکن ہے آبادی میں اضافے کا رجحان مناسب حد تک رہے۔ یہ قانون فطرت ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر ہم اشرف المخلوقات ہیں ہمیں ہی اپنی عقل و فہم سے ان مسائل کا بھی ادراک کرنا ہو گا۔