0

-,-پارہ چنار میں موت کا رقص -(پہلو۔صابر مغل) -,-

0Shares

-,-پارہ چنار میں موت کا رقص -(پہلو۔صابر مغل) -,-

شہر اقتدار سیجی ٹی روڈ پر پشاور کی طرف جائیں تو چند کلومیٹر بعد فتح جنگ سے دائیں جانب مڑنے والی سڑک این 5 پر 376 کلومیٹر دور براستہ چورہ شریف۔کیمل پور۔ جنڈ۔ کوہاٹ۔ہنگو سے ہوتے افغان بارڈر کے قریب تاریخی اعتبار سے تمام قبائل کی تمام ایجنسیوں کے شہروں سے بڑا دلکش خوبصورت سر سبز شہر پارا چنارہے کرم ایجنسی کا یہ شہر پشاور سے 250 کلومیٹر مغرب کی جانب کوہ سفید کے دامن میں واقع درہ سوار میں ہے پشاور روڈ پر حیدری چیک پوسٹ سے کرم ایجنسی کا آغاز اور وہاں سے 65 کلومیٹر دور پارا چنار ہے یہی راستہ چند کلومیٹر بعد افغانستان سے جا ملتا ہے۔افغانستان کا بادشاہ بچہ سقہ اسی شہر کا ماشکی تھا۔پہاڑوں اور پھل آور درختوں میں گھرا یہ بدقسمت شہر بارود۔ اسلحہ۔ قتل و غارت اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے شہر میں حفاظتی نقطہ نظر سے چھاونی کے ساتھ مختلف مقامات پر چیک پوسٹیں قائم ہیں یونیورسٹی۔ اے پی ایس۔ دینی مدارس۔ شاپنگ مالز۔ منڈیاں۔ بازار ہوٹلز۔ گراونڈز سب کچھ وہاں موجود ہے مگر پاکستان کا یہ واحد شہر ہے جس کا مجموعی علاقہ ایک تکون کی شکل میں افغانستان کے اندر جانب ہے جس کے تین اطراف میں افغانستان جبکہ صرف مشرق میں پاکستان ہے۔ افغان دارالحکومت کابل یہاں صرف 110 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے پکتیکا۔ لوگر اور ننگر ہار تو بہت قریب ہیں پاکستان علاقے چیر۔اورکزئی اور شمالی وزیرستان اس سے متصل ہیں۔ پشتو زبان کے اس شہر میں اورکزئی مینگل۔ غلزئی۔ سید۔ ہزاراہ۔ملک خیل۔ مقبل۔پارا مکانی۔ طور۔ بنگش۔ خوشی مسیح اور سکھ قبائل قابل ذکر ہیں بنگش قبائل افغانستان سے یہاں آ کر اباد ہوئے طوری اور بنگش خاندانوں کی وجہ سے اس کی زیادہ تر آبادی اہل تشیع ہے۔ برطانوی راج میں پہاڑوں یا دریاوں کے کنارے غیر آباد زمین کو شاملات کا نام دے کر اصول مرتب کئے گئے یہ زمینیں قبائل کی مشترکہ ہوتی ہیں جیسے جنگلات۔ چراگاہ۔ پہاڑ یا دریا کنارے غیر آباد زمین۔جناز گاہ اور قبرستان ہیں۔80 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران مجاہدین نے پورا چنار کو اپنا مزاحمتی مرکز بنائے رکھا 2005 میں دہشت گردی کی وجہ سے یہ راستہ افغانستان کے لیے 9 سال تک بند رکھا گیا چند روز قبل پاراچنار جو ماضی میں بھی بدترین فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ضلع کرم کے اس صدر مقام کے نواح بوشہرہ میں گلاب ملی خیل اور مدگی کلے قبیلے کے درمیان تیس خریب جو تقریبا سو کنال کے قریب زمین بنتی ہے کا برسوں پرانا تنازعہ ہے گلاب ملی خیل قبیلہ اہل تشیع ہے جبکہ ان کے متحارب گروپ مدگی کلے قبیلے کا تعلق اہل سنت فرقے سے ہیں گذشتہ سال12 جولائی میں انہی قبائل کے درمیان اسی زمین پر تصادم ہوا جس میں 7 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوئے اس وقت تنازعہ کے حل کے لیے کوہاٹ۔ اورکزئی اور ہنگو سے 30 رکنی جرگے نے بھی شرکت کرکے اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد گرینڈ جرگے اور سرکاری محمکہ کے افراد نے شرکت کرتے ہوئے اس زمین کو گلاب ملی خیل قبیلہ کی ملکیت قرار دیا اس علاقے کا یہ اصول ہے کہ ایسی متنازعہ زمین براہ راست دوسرے فریق کو نہیں دی جاتی تحریری معاہدے کے مطابق گلاب کلی خیل اس زمین کو ایک سال تک استعمال نہیں کر سکتا بلکہ ایک تیسرا قبیلہ اسے استعمال کرکے لگان طے شدہ مالک کو ادا کرے گا سال بعد وہ مالک اسے خود کاشت کرے یہ پٹہ پر دے یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے ایک سال بعد جب گلاب کلی خیل قبیلے نے زمین کا مطالبہ کیا تو تو تکرار نے باقاعدہ تصادم کی صورت اختیار کر لی مدگی قبیلے کے مطابق گلاب کلی خیل قبیلے نے بوشہرہ ہی میں واقع ایک گاوں پر حملہ کر دیا جس سے اہلسنت مشتعل ہو گئے شر پسند افراد نے مساجد میں اعلانات۔ افواہیں پھیلا کر کشیدگی پر تیل چھڑک دیا انہوں نے مدد کے لیے اہلسنت کو بلایا یوں یہ فرقہ واریت کی آگ بوشہرہ سے نکل کر پورے علاقہ میں پھیل گئی معلوم ہوا ہے کہ اہل سنت افراد نے سرحد پار سے بھی مدد حاصل کی پارہ چمکنی جہاں اہلسنت کی اکثریت ہے نے بلندی سے ہارا چنار کو بھاری اسلحے راکٹ لانچر۔ میزائلوں اور دیگر جدید اسلحہ سے نشانہ بنایا۔ زمین کے ٹکڑے پر شروع ہونے والی فرقہ وارانہ لڑائی کے نتیجہ میں 43 افراد 170 کے قریب زخمی ہوئے جن میں 32 افراد ابھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔اس خونریز تصادم کے ردوران پارا چنار پشاور شاہراہ بھی بند رہی۔بوشہرہ میں جنگ بندی کے بعد پولیس۔ ایف سی اور فوج کے تعینات جوانوں نے مورچے سنبھال لئے اس سے قبل ضلع کے دیگر مقامات پر بھی فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا. افغان سرحد کے قریب اہر کرم کے علاقے مکبل۔ تیری منگل۔ وسطی کرم میں پارہ چمکنی اور لوئر کرم میں بالش خیل کے علاقوں میں شیعہ سنی فسادات طویل عرصہ سے ہیں اپر کرم کے علاقے تری مینگل اور غوز گڑھی میں زیادہ تعداد اہلسنت جبکہ پیواز اور کونج علیزئ میں اہل تشیع اکثریت میں ہیں۔اس علاقہ میں صرف بوشہرہ میں ہی زمین کا تنازعہ نہیں بلکہ دیگر پرانے تنازعوں میں بیوار۔ کیڈو۔ کنج علی زئی۔ مقبل۔ بالش۔ ہر چمکنی حمزہ خیل شورکوبنگش اور نور حسن شامل ہیں جنہیں حل کیا جانا ازحد ضروری ہے کرم ایجنسی پہلے ہی کالعدم تنظیموں سے بری طرح خوفزدہ ہے اوپر سے یہ شعیہ سنی فسادات نے عوام کو جینا حرام کر رکھا ہے۔پ1987/88 میں ضیاء دور میں پارہ چنار کے رہائشی ممتاز شعیہ رہنما علامہ عارف حسین الحسینی جو امام خمینی کے شاگردوں میں سے تھے انہیں 5 اگست کو پشاور میں ٹارگٹ کرکے قتل کردیا گیا جس کے بعد فسادات پھوٹ پڑے کئی مساجد اور امام بارگاہیں مسمار کردی گئیں۔ اس موقع پر اہلسنت کو افغان مہاجرین کی بھی مدد حاصل تھی۔ اس سے قبل بھی 8 بڑے فسادات ہو چکے ہیں 2007 میں ہونے والے شعیہ سنی فسادات میں 5000 سے زائد افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ہم ہیں تو مسلمان مگر فرقہ واریت کے زہر نے ہمیں یوں ڈسا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ہی دشمن بن گئے ہیں مقامی اکابرین اور حکومت کو چاہیے تھا کہ ایسے فسادات کی روک تھام کے موثر اقدامات کرتی 6 دن تک یہ خونریز فسادات جاری رہے بھاری اسلحے کا استعمال ہوا مگر حکومتی رٹ کدھر تھی۔صوبائی حکومت جن کا ان علاقوں میں بہترین اثرورسوخ ہے خاموش کیوں رہی یا ایسا کردار ادا کیوں نہیں کیا جس سے موت کا یہ رقص تھم جاتا ان کے نزدیک انسانی خون اتنا ہی ارزاں تھا کہ وہ دیگر کاموں میں مصروف رہے ایک طرف بدترین خونریزی دوسری جانب اس کے تدارک یا کمی کے لیے کچھ نہیں کیا پارا چنار میں سنی شعیہ فسادات پہلی مرتبہ ہوئے ہیں کہ کوئی اپنا کردار ادا نہ کر سکا۔ سنی شعیہ فسادات کو ہوا دینے والے اصل میں امت مسلمہ کے دشمن ہیں ایسے فسادات تو اغیار کا ہمارے خلاف بہترین ہتھیار تھا جو ہم نے بننے میں دیر نہیں لگائی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں