۔،۔قومی امنگوں کی ترجمان۔ طارق حسین بٹ شان۔،۔
پاکستان کی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے۔یہاں آئین و قانون کی بجائے ذاتی انا،پسند اور منشاء کے مطابق فیصلے صادر کئے جاتے ہیں۔ذاتی رنجش اور اختلاف انا کی بے مہار ی کی وجہ سے ذاتی دشمنی میں بدل جاتا ہے اور پھر انتقام کا ایک ایسا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کہیں پر بھی رکنے کا نام نہیں لیتا۔کوئی کسی کا ہاتھ نہیں روک سکتا کیونکہ طاقتور کا ہاتھ کمزور عوام نہیں روک سکتے۔ طاقت اپنے فیصلے خود صادر کرتی رہتی ہے اور ان پر عمل در آمد بھی ہوتا رہتا ہے کیونکہ طاقت اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ذاتی دشمنی کا شاخشانہ تھا۔جنرل ضیا الحق نے اپنے زورِ بازو پرفیصلہ حاصل کیا تھا اور ایک عظیم سیاستدان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔عالمی راہنماؤں کی مداخلت اور عوامی ردِ عمل بھی اس فیصلے کو روک نہ سکا کیونکہ ذاتی دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی تھیں۔زمانہ حاضر میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔کوئی ایک جماعت دوسری جماعت کے وجود کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں پی ٹی آئی کی موجودگی کو تسلیم کرنے کیلئے ہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کاپاور بیس ہے اوروہ اپنا پاور بیس اپنے کٹر دشمن کے ہاتھوں میں کیسے دے سکتی ہے؟مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا محور پنجاب ہے جسے پی ٹی آئی نے فتح کر لیا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اسے تسلیم نہیں کر رہی؟ اس کی سیاست ہی پنجاب سے جڑی ہوئی ہے وہ اسے بچانے کیلئے کسی بھی حد تک چلی جائیگی۔ پی ٹی آئی کی جیت کو تسلیم کرنا بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے کے مترادف ہے اور مسلم لیگ (ن) ایسا کبھی نہیں کرے گی۔یہ جو فارم ۵۴ اور فارم ۷۴ کی لڑائی ہے یہ زیادہ تر پنجاب تک محدود ہے کیونکہ وزیرِ اعظم کا فیصلہ پنجاب نے ہی کرنا ہو تا ہے۔بی بی شہید نے پی پی پی کو پنجاب کی مقبول جماعت بنا کر رکھا ہوا تھا تبھی تو وہ دفعہ وزارتِ عظمی کا منصب جیتنے میں کامیاب ہو سکی تھیں۔بی بی شہید کی شہادت کے ساتھ ہی پنجاب سے پی پی پی کا صفایا ہو گیا اور یوں وزارتِ عظمی کا جھگڑا پنجاب کی دو بڑ ی جماعتوں کے درمیان وجہِ نزاع بن گیا۔اسٹیبلشمنٹ کی در پردہ حمائت اور عدلیہ کی بے جا مداخلت سے مسلم لیگ (ن) کی حکو متیں تو قائم ہو تی رہیں لیکن لڑائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔پنجاب ۹ سالوں کیلئے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں میں چلا گیا۔چوہدری پرویز الہی اس کے کرتا دھرتا قرار پائے اور پھر ۴ سالوں تک پی ٹی آئی کے بزدار صاھب کا طوطی بولتا رہا اور یوں مسلم لیگ (ن) دفاعی پوزیشن پر چلی گئی۔فروری ۴۲۰۲ کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کا مکمل صفایا کر دیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ سب وارا نہیں کھاتا تھا اسلئے فارم ۷۴ کا نیا تجربہ کیا گیا۔الیکشن ٹربیونلز کے سامنے بے شمار مقدمات ہیں جن کا جلد فیصلہ ہونا بعید از قیاس ہے۔اسٹیبلشمنٹ اس وقت پی ٹی آئی سے کسی مصالحت کے موڈ میں نہیں ہیں اس لئے کمپنی ایسے ہی چلے گی۔پی ٹی آئی شور شرابہ کرتی رہے گی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کر تی رہے گی۔حکومتی رٹ اور کا رکردگی کو کمزور کرتی رہے گی اور یوں اگلے انتخابات تک مسلم لیگ (ن) کاپنجاب سے مکمل صفایا ہو جائے گا۔،۔میرے سامنے اے این پی کا مقدمہ ہے۔یہ جماعت باچہ خان اور ولی خان کے زمانے سے کے پی کے کی سب سے مقبول جماعت تھی لیکن پی ٹی آئی کی مقبولیت کے بعد کے پی کے سے اس کا صفایا ہو گیا ہے۔ یہی حال سندھ میں ایم کیو ایم کا ہے اسے بھی پی ٹی آئی نگل گئی تھی۔ پی پی پی کا پنجاب سے مکمل اخراج پی ٹی آئی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔اب مسلم لیگ (ن) کی باری ہے اور ایک دفعہ پنجاب ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کئی دہائیاں اس کی واپسی میں لگ جائیں گی۔یہ مسلم لیگ (ن) کیلئے آخری موقع ہے کہ وہ خود کو سنبھال لے لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ لٹ چکا ہے۔اب مسلم لیگ (ن) کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا دی جائے تا کہ پنجاب میں اس کی موجودگی بے اثر ہو جائے۔ کیا ایسا ہو جائے گا یا یہ فیصلہ مسلم لیگ (ن) کی تباہی کا پیش خیمہ بن جائے گا؟کچھ لوگ تو اسے خود کشی سے تشبیہ دے رہے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی نے فروری ۴۲۰۲ میں اس نے پی ٹی آئی کی بجائے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور مسلم لیگ (ن) اس کی مقبولیت کے وار کو سہہ نہیں پائی تھی۔پابندی کا فیصلہ خود کشی کا فیصلہ ہوگاکیونکہ پی ٹی آئی مظلومیت کا کارڈ کھیل کر مسلم لیگ (ن) کو چاروں شانے چت کر د یگی۔اس نے پہلے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور جیت گئی تھی لہذا وہ اب بھی الیکشن میں آزا دانہ حیثیت میں جائیگی اور نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ حیران کن ہو گا۔در اصل پی ٹی آئی جماعت نہیں بلکہ عمران خان کا نام ہے۔پاکستان کا نوجوان اس وقت کسی کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔اس کی سوچ دن بدن تلخ ہو تی جا رہی ہے جسکا نقصان مسلم لیگ (ن) کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ ہو رہا ہے۔قوم ایک مخصوص جماعت کے خلاف یک طرفہ کاروائیوں سے انتہائی غصہ میں ہے۔اس نے جس جماعت کو ووٹ دیا تھا ا س کے خلاف ریاستی کاروائیاں اسے مشتعل کر رہی ہیں۔وہ ان کاروائیوں کو اپنی ذات پر حملہ تصور کرتا ہے۔لہذا ریاست کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے ملک کو اسی طرح چلانا ہے یا اپنی قوم کے نوجوانوں کے جذبات کا خیال رکھنا ہے اور اس کی سوچ کو احترام سے نوازنا ہے۔سیاسی قلا بازیاں تو ہوتی رہتی ہیں لیکن اگر نوجوانوں کی سوچ کسی مسئلے پر پختہ ہو جائے تو اسے کئی دہائیوں تک بدلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی جو کھیل کھیل رہی ہیں وہ انتہائی خطرناک ہے اور ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر رہا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔بجٹ کا خسارہ (۰۰۸۷)ارب ہے جو اگلے بجٹ میں مزید بڑھ جائیگا۔،۔ اندرونی انتشار اور غیر یقینی کیفیت معاشی بد حالی کومزید ہوا دے رہی ہے۔اسٹیبلشمنٹ ہی اس آگ کو ٹھنڈ ا کر سکتی ہے۔وقت کے ہاتھوں بڑے بڑے پہلوان خاک میں مل گے کیونکہ سب کو ایک دن جانا ہو تا ہے۔ دانش کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ جن کے ہاتھوں میں طاقت مرتکز ہے وہ قومی مفاد کو پیشِ نظر رکھیں۔کسی ایک جماعت کی حمائت قومی مفاد کے پیشِ نظر ہو نی چائیے۔کسی پر پابندی لگانا یا کسی جماعت کو غدا ر اور ملک دشمن قرار دینا پاکستان کی اصولی سیاست سے مطابقت نہیں رکھتا۔وہ جسے مئی ۸۱۰۲ میں خود اپنے ہاتھوں سے اقتدار سونپا تھا آج وہ جماعت کیسے غدار اور ملک دشمن ہو گئی؟کروڑوں لوگوں نے اس جماعت کو ووٹ دئے تھے لہذا وہ جماعت اس وقت قومی امنگوں کی ترجمان ہے۔اس کے مینڈیٹ سے رو گردانی نے ہی ساری کیفیت کو جنم دیا ہے۔اگر طاقتورحلقے آج یہ فیصلہ کر لیں کہ انتشارکا خاتمہ کرنا ہے تو یہ انتشار آج ہی ختم ہو جائیگا۔ایسا کرنے کی بنیاد آئینِ پاکستان ہے۔آئیے آئین کا احترام کریں اور مسئلے کو حل کریں۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جس پر چند سال قبل حکومت نے خود ہی پابندی لگائی تھی آج خود ہی اس سے مذاکرات کر رہی ہے۔ یہاں سب کچھ ذاتی ہوتا ہے۔کئی اہم جماعتوں پر پابندی لگی لیکن پھر وہ قومی دھارے میں شامل ہو گئیں۔سب سے بڑی مثال عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)کی ہے جو پابندی سے پہلے نیپ کے نام سے قائم تھی لیکن پابندی کے بعد اس کا نام بدل دیا گیا ورر ۸۰۰۲ میں اس نے پی پی پی کی حمائت سے کے پی میں اپنی حکومت بنا لی۔پی پی پی نے ہی نیپ پر پابندی لگائی تھی اور پھر پی پی پی کی حمائت سے ہی اسے اسی صوبے کی حکومت سونپی گئی تھی۔ تو ثابت ہوا کہ اقتدار کی جنگ میں اصولوں کی بجائے ذاتی انا کی کارفرمائی بڑی واضح ہو تی ہے۔،۔