۔،۔ لوٹ کھسوٹ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔
پاکستانی حکومت کا ہر عمل اپنی الگ دنیا رکھتا ہے۔حکومت نے آئی پی پی کے ساتھ جو معا ہدے کئے تھے ان کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔بجلی کی طلب ۵۲ ہزار میگا واٹ جبکہ سپلائی لائنوں کی استطاعت ۱۲ ہزار میگا واٹ۔ معاہدے ۳۴ ہزار میگا واٹ۔مالکان آئی پی پی اشرافیہ کے سرکردہ افراد ہیں جوکہ حکومتی عہدے بھی رکھتے ہیں اور حکو متی سربراہ کے ساتھ دوستی کا رشتہ بھی استوار کئے ہوئے ہیں۔ہر ایسا فرد جو حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں کا اسیر ہے وہی آئی پی پی کا سرمایہ کار ہے۔ آئی پی پی سے معاہدے بھی عجیب نوعیت کے ہیں،بجلی پیدا ہو یا نہ ہو سرمایہ کاروں کو مکمل ادائیگی کی جائیگی۔بڑی سادہ سی بات ہے کہ جب سپلائی لائنیں ہی موجود نہیں ہیں تو پھر بجلی کیوں پیدا کی جائیگی؟اکیس ہزار میگا واٹ کی استطاعت میں ۳۴ ہزارمیگا واٹ کے معاہدے اس بات کے غماز ہیں کہ ان معاہدوں کی غرض و غائیت دولت لوٹنے کی انتہائی خوبصورت واردات ہے۔ایک معمولی سمجھ بوجھ کا انسان بھی یہ سمجھ سکتاہے کہ جب سپلائی لائنیں ہی موجود نہیں ہیں اور ضرورت صرف پچیس ہزا میگا واٹ کی ہے تو پھر ۳۴ ہزار میگا واٹ کے معاہدے کرنے کی کیا تک ہے؟ ۳۴ ہزار میگا واٹ کے معاہدے کئے تھے تو ضروری تھا کہ سپلائی لائنوں کی استطاعت بھی بڑھائی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔کیا ہم اتنے گے گزرے ہیں کہ ہم اپنی موجودہ لائنوں کو اپ گریڈ نہیں کر سکتے یا نئی لائنیں بچھا نہیں سکتے؟کیا یہ اتنا مشکل کام ہے جوپاکستانی انجینئر سر انجام نہیں دے سکتے؟پاکستانی انجینئر تو فلک کی بلند یوں کو چھو سکتے ہیں سپلائی لائنیں بچھانا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔اگر ہم ا نتظا می لحاظ سے نئی لائنیں بچھانے سے نااہل ہیں تو پھر ۳۴ ہزار میگا واٹ کے معاہدوں کی کیا تک تھی؟ قومی مفاد، احساس اور درد زندہ ہوتا تو ابتدائی سطح پر ۵۲ ہزار میگا واٹ کے معاہدے کئے جا سکتے تھے تا کہ قومی خزانے کو ناجائز بوجھ برداشت نہ کرنا پڑتا۔اگر آئی پی پی سے کئے گے معاہدے بہتر نتائج کے حامل ہوتے تو پھرنئے معاہدے کئے جا سکتے تھے؟کیا نواز حکومت میں کئے گے معاہدوں کے بعد دنیا نے تباہ ہو جانا تھا جو انھیں ۳۴ ہزار کے معاہدوں کی فکر دامن گیر ہو گئی تھی۔ آئی پی پی کے مختلف سرمایہ کاروں کی پرفارمنس اور ان کے نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے نئے معاہدے کئے جا سکتے تھے جو قومی مفاد میں ہوتے۔ایسے معاہدے تو اب بھی ہو سکتے ہیں لہذا ماضی میں ۳۴ ہزار میگا واٹ کے معاہدے انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام تھا جن سے جان چھڑانی انتہائی ضروی ہے۔،۔اگر یہ معا ہدے پچیس ہزار میگا واٹ کے ہو تے تو پھر آئی پی پی کمپنیوں کیلئے بجلی پیدا کرنا لازمی تھا جو کہ وہ نہیں چاہتے تھے وہ تو قومی دولت کو لوٹنا چاہتے تھے اور وہ تبھی ممکن تھا جب معاہدے اتنی بڑی مقدار کے ہوں جن کا عملی پیداوار سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو۔ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے۔پاکستان کے اپنے بجلی گھر(تربیلا ڈیم منگلا ڈیم اور ایٹمی بجلی گھر وغیرہ) اپنی علیحدہ بجلی پیدا کرتے ہیں جن کا آئی پی پی سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے لہذاآئی پی پی کمپنیاں انتہائی کم بجلی پیدا کرتی ہیں اور یوں مفت میں پاکستانی دولت ہڑپ کر رہی ہیں۔ اب اکیس ہزار میگا واٹ اور ۳۴ ہزار میگا واٹ کا بظاہر فرق۲۲ ہزار (بائیس ہزار) میگا واٹ ہے لیکن حقیقت میں یہ فرق۴۳ ہزار میگا واٹ سے زیادہ ہے کیونکہ ۱۲ ہزار میں دوسرے ذرئع سے حاصل شدہ بجلی بھی شامل ہے۔یہ تو صریحا قومی دولت سے کھلواڑ ہے اور ہمارے حکمران اس لوٹ کھسوٹ کے ذمہ دار ہیں۔عوام کو بجلی کے نام پر ایک ایسا ٹیکہ لگایا جا رہا ہے جو ان کی جان نکال رہا ہے لیکن اشرافیہ لب بمہر ہے اور پیسے لوٹنے میں مگن ہے۔اب یہ تو بالکل واضح ہو چکا ہے کہ جو بجلی پیدا نہیں کی گئی اور جس کی قیمت ا شرافیہ کی جیبوں میں جا رہی ہے وہ اس ملک کے شہریوں کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ جو ہرایک شخص چیخ و پکار کر رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسے حرص و ہوس کی ماری اشرافیہ کی جیبوں کو بھرنا ہے۔ اشرافیہ بھی اتنی بے شرم اور ڈھیٹ ہے کہ وہ مفت میں پیسے بٹور رہی ہے۔اسے نہ تو وطن سے محبت ہے اور نہ ہی عوام کا احساس ہے۔وہ شب و روز نعرے تو غریب عوام کے لگا تی ہے لیکن عوام کا خون چوسنے میں ذرا تامل نہیں کرتی۔یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے۔غریب کیلئے دن رات مگر مچھ کے آنسو بہانے والے قائدین ہی قومی دولت کو لوٹنے کے مجرم ہیں۔ وہ کھلے عام عوام سے دھوکہ کر رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ خاموشی کی چادر اوڑھے ہو ئے ہیں۔بیوو کریسی،واپڈا، عدلیہ، فوج، پارلیمنٹیرین اوروزرا کو بجلی پر ملنے والی سبسڈی بھی غریب کی جیب سے ادا ہوتی ہے۔،۔قوم آہ و فغاں کر رہی ہے لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔آئی پی پی کے سرمایہ کار اپنی اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ انھیں ذرا شرم نہیں آ رہی کہ اس ملک کے شہری درد سے بلبلا رہے ہیں لیکن وہ ہیں کہ بجلی پیدا کئے بغیر اپنی رقم کھری کر رہے ہیں۔کیا دنیا کے کسی مہذب ملک میں ایسا ہو تا ہے کہ بغیر پرو ڈکشن کے اربوں روپے جھولی میں ڈال لئے جائیں۔دنیا اس وقت گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی ہے لہذا ہمارے سامنے پوری دنیا کی معیشت ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاروں سے کس نہج کے معاہدے رو بعمل لائے جاتے ہیں۔کیا ایسا ڈھونگ وہاں بھی رچایا جاتا ہے؟ نہ ہنگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چڑھے چوکھا کے مصداق مفت میں اربوں روپوں کا منافع پاکستان جیسے ملک میں ہی ممکن ہے۔اشرافیہ کی پانچوں انگلیا ں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے کیونکہ ان کے محبوب قائد نے انھیں نوازنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔وہ تو دھمالیں ڈال رہے ہیں کہ برس ہا برس سے مفت خوری کا یہ دھندا پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔انھیں دولت کی لوٹ کھسوٹ کرنی تھی اور ان کے محبوب قائد نے انھیں یہ سنہری موقعہ فراہم کر رکھا ہے۔حکومتِ پاکستان ہر سال آئی پی پی مالکان کو دو ہزار دو سو ارب (۰۰۲۲ارب) کی ادائیگیاں کرتی ہے جس کا سارا ٹیکس غریب عوام سے اینٹھا جا تا ہے۔ یہ رقم ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔عوام در اصل اس اضافی ادائیگی سے باغی ہیں جس کی رقم انھیں ہر ماہ بجلی کے بلوں میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اگر ۴۳ ہزار میگا واٹ کی اضافی رقم کو ٹوٹل کاسٹ سے منہا کر دیا جائے تو بجلی کی فی یونٹ کاسٹ اتنی کم رہ جائیگی جو عام شہری بخوشی ادا کر دے گا لیکن یہاں تو مفت بھری کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیا گیا ہے اورعوام کو بزورِ بازو اس پہاڑ کو سر کرنے کا حکم صادر کیا جا چکا ہے۔ قومی دولت کا لوٹنے کا جو ایک تصور ہے وہ آئی پی پی کی شکل میں رو بعمل ہے۔ اب عوام کس کو راہنما کریں کیونکہ یہاں تو راہنماؤں کے روپ میں راہزن چھپے بیٹھے ہیں۔اتنا ظلم تو زارِ روس بھی نہیں کرتا ہو گا جتنا ظلم ہماری حکومتیں کررہی ہیں۔ ستم بالائے ستم پنجاب کی وزیرِ اعلی ۴۱ روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کا اعلان کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ حکو متِ پنجاب نے ماؤنٹ ایورسٹ فتح کر لیا ہے۔ خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔دھمالیں اور بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں کہ (پا لیا۔،۔پالیا) جبکہ جس بات کا رونا تھا وہ تو وہی پر ہے۔ عوام۴۳ ہزار میگا واٹ کا اضافی بوجھ کسی بھی قیمت پر اٹھانے سے قاصر ہیں لیکن اس بوجھ کو ساقط کرنے کی بجائے ۴۱ روپے کا لالی پاپ تھما دیا گیا ہے۔ اسی کو تو کہتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کپیسیٹی چارجز ملکی خزانے سے کھلواڑ ہے جس کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ حکمران دولت لوٹ کر چلتے بنیں گے اور ہماری آئیندہ نسلیں ان کی لوٹ مار سے زندہ در گور ہو جائیں گی۔(۔اہلِ زر بتحتِ شہی پر یہاں آ کر بیٹھے۔،۔لوگ حیراں ہیں کہ یہ طرزِ حکومت کیا ہے)۔،۔