0

۔،۔شرم نہیں آتی حصہ دوئم۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

0Shares

۔،۔شرم نہیں آتی حصہ دوئم۔پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی۔،۔

ستر سالہ بوڑھا پیر اپنی بیس سالہ نو جوان خوبصورت مریدنی کے ہمراہ میرے سامنے بیٹھا تھا اور مجھ سے فرمائش کر رہا تھا کہ اِس کو شادی کے لیے راضی کریں اور ساتھ ہی نکاح کے انتظامات بھی کریں میں حیرت سے کبھی بوڑھے پیر صاحب کو اور کبھی خوبرو جوان مریدنی کو دیکھ رہا تھا پیر صاحب پچھلی چند ملاقاتوں میں روحانیت تصوف عشق الٰہی کے بہت بڑے دعوے دار تھے آج ان کے اندر کا بھیڑیا سامنے آگیا تھا پیر صاحب ہوس بھری نظروں سے اپنی مرید کو دیکھتے کبھی میری طرف میں پیر صاحب سے کسی ایسے عمل کی بلکل بھی توقع نہیں کرر ہا تھا جوان لڑکی سے چالیس سال بڑا بوڑھا پیر شادی کا تقاضہ کر رہا تھا پیر صاحب کے انگ انگ سے ہوس بد کرداری چھلک رہی تھی میں تنقیدی نظروں سے پیر صاحب اور رحم بھری نظروں سے جوان معصوم لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس کو پیر صاحب نے اپنی لچھے دار باتوں میں خوب الجھا کر شادی کے لیے راضی کیا تھا پیر صاحب بتانے لگے کہ یہ لڑکی لاہور کے کالج میں زیر تعلیم ہے ہاسٹل میں رہتی ہے اِس کے تمام اخراجات میں پورے کر تا ہوں اِس طرح لڑکی بیچاری پیر صاحب کی احسان مند بھی تھی یہی مجبوری تھی جو پیر صاحب کیش کرانے پر اُتر آئے تھے میں جو پیر صاحب کی کمپنی اور گفتگو کو پہلے انجوائے کیا کرتا تھا آج مجھے پیر صاحب سے گھن آرہی تھی کہ یہ بھی بد کردار نکلا ایک معصوم جوان بچی کو ٹریپ کر کے میرے پاس لے آیا ہے پیر صاحب فرمانے لگے لڑکی کو روحانیت تصوف کا بہت شوق ہے میں نے اِس کو آپ کی کتابیں بھی دی ہیں اِس کو آپ سے ملنے کا بہت شوق تھا میں نے اِس کو آپ کا موبائل نمبر بھی دے دیا ہے یہ آپ کو کال کر لیا کرے گی آپ نے اِس کے سوالوں کے جوا ب دینے ہیں اور اگلے مہینے ہمارے نکاح کا بندوبست کریں بہت ساری باتیں کرنے کے بعد پیر صاحب چلے گئے لیکن میرے دماغ کو سوالوں کی فیکٹری بنا گئے بلکہ میں بہت افسردہ ہو گیا تھا کہ یہ بھی بد کردار عورت باز ہی نکلا ساتھ ہی میرے دل میں یہ خواہش بار بار جنم لے رہی تھی کہ کسی طرح اِس معصوم بچی کو پیر کے پنجرے سے بچانے کی کو شش کرو اگلے دن پیر صاحب کا مجھے فون آیا پروفیسر صاحب آپ ہمارے یار ہیں آپ کے ذمے جو کام لگایا ہے اِس کو ایمانداری سے پورا کرنا ہے تو میں تجسس بھرے لہجے میں بولا پیر صاحب آپ ستر سال کے بوڑھے شخص وہ جوان لڑکی آپ کیسے اِیسی لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانستے ہیں تو پیر صاحب نے زور دار قہقہ لگایا اور بولے یار تم خشک مزاج ہو ابھی جوان بھی ہو تم تو بیکار زندگی گزار رہے ہو بھلا جوان لڑکی کے بغیر بھی کوئی زندگی ہو تی ہے جب اللہ تعالی نے ہمیں مریدوں کی فوج دی ہے تو ہم کیوں نہ اِن سے فائدہ اٹھائیں پروفیسر صاحب آپ کو بھی وہ راز طریقہ بتاتا ہو ں جس کے ذریعے میں جوان لڑکیوں کو قابو کرتا ہوں میں حیرت سے بولا جی فرمائیں تو بوڑھا پیر بولا ہمارے پاس جو عورتیں آتی ہیں بہت ساری تو خود ہی راضی ہو جاتی ہیں جو راضی نہیں ہوتیں ان پر زور لگانا پڑتا ہے اُس کے بھی بہت سارے طریقے ہیں جو کبھی مل کر بتاؤں گا اِس لڑکی کا طریقہ یہ ہے کہ میرے مریدوں میں اگر کوئی لڑکی جو ابھی بچی ہو ئی ہے میں اُس کے خاندان کی کمزوری کو دیکھتا ہوں اگر وہ غریب ہیں تو کام آسان ہو جاتا ہے میں اپنی مرضی کا شکار دیکھ کر انہیں کہتا ہوں یہ بچی بہت عقل مند ذہین ہے اِس کو خوب تعلیم دلاؤ لاہور یا ملتان میں اچھی یونیورسٹی کالج میں داخل کراؤ فیس اور ہاسٹل کا خرچہ میں دوں گا پھر اِس بچی کو پیسے دینے کے بہانے میں جا کر ملتا ہوں اُس کو تحفے کھانے کھلاتا ہوں بار بار مل کر اپنی لچھے دار باتوں سے قابو کر تاہوں یہ عورت کی فطرت ہے جو اُس کی بہت کیئرکرتا ہے اچھا رویہ اُس کی مدد خواہش پوری کرتا ہے یہ آٹو میٹک طور پر اُس شخص سے متاثر اور قریب ہو جاتی ہے اِس طرح میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہوں روپے کی مجھے کمی نہیں میں اپنی دولت کے بل بوتے پرجوان بچیوں کو تعلیم کا جھانسہ دے کر قابو کر تا ہوں پھر لونڈی ازم کنیز بنا کر اپنا من خوش کرتا ہوں جو لونڈی ازم پر تیار نہ ہو اُس کو نکاح کا ڈرامہ کر کے اپنی خواہش پوری کر تا ہوں پیر صاحب اپنی گندی بد کرداری والی باتیں اور طریقہ واردات بتا رہے تھے مجھے بہت دکھ کہ کس طرح یہ اپنے مریدوں کی غربت خرید کر اپنی ہوس پوری کر تا ہے میں نے فیصلہ کیا کہ جس لڑکی کو یہ میرے پاس لے کر آیا ہے اُس کو اِس کے چنگل سے آزاد کر انا ہے اِس کے لیے مجھے بار بار اُس لڑکی سے ملنا تھا اب میں اُس لڑکی کے فون کا انتظار کر نے لگا چند دن بعد ہی اُس بچی کا فون آگیا اُس نے کہا سر میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں تو میں نے کہابیٹی آپ میری بیٹیوں کی طرح ہو آجاؤ پھر وہ مقررہ وقت پر آگئی تو میں نے اُس کی تاریخ پیدائش جان کر پوری مہارت علم الاعداد دست شناسی کو استعمال میں لاتے ہوئے اس کی شخصیت کے بارے میں فطرت مزاج کے بارے میں بتایا تو وہ قائل ہو گئی کہ مجھے تھوڑی بہت روحانیت آتی ہے دوسرا میں نے اُس پہلی ملاقات میں ہی کہہ دیا کہ تم میری بیٹی ہو میں تمہاری بہت عزت احترام کرتا ہوں چند ملاقاتوں کے بعد ہی لڑکی کا دماغ بدلنا شروع ہو گیا اُسے اصل اور نقل روحانیت کا فرق واضح ہو گیا تو ایک دن میں نے اُسے کہا دیکھو بیٹی تم پیر صاحب کے جال سے نکل آؤ تو وہ بولی میں پہلے بھی اُس کے قابو میں نہیں آئی تھی لیکن اپنے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے چپ تھی تو میں نے کہا اللہ تمہارے اخراجات پورے کرے گا تم اُن کی فکر نہ کرو اِس طرح لڑکی نے پیر صاحب کو مکمل انکار کر دیا پیر صاحب نے اُس کو بہت قابو کر نے کی کو شش کی اِس دوران پیر صاحب کو شک پڑگیا کہ میں نے لڑکی کا دماغ صاف کیا ہے لہذا آج پیر صاحب اپنی ناکامی اور لڑکی کے انکار کا غصہ مجھ پر نکالنے آگئے تھے جب پیر صاحب خوب آگ اگل چکے تو میں بولا پیر صاحب ہمیں شرم نہیں آتی کہ یہ مرید لوگ غلاموں کی طرح ہماری خدمت کرتے ہیں بہترین چیزیں ہمیں گفٹ دیتے ہیں والدین سے زیادہ ہماری عزت کرتے ہیں سر جھکائے غلاموں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اللہ رسول ؐ کے بعد ہمیں عزت اور مقام دیتے ہیں لیکن ہمیں بلکل شرم نہیں آتی اِن کی دولت کو تو لوٹتے ہیں اِن کی عزتوں کو بھی اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر استعمال میں لاتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ رب کائنات کا یہ نظام ہے کہ یہاں جو کاشت کرو گے وہی کاٹو گے ہمیں شرم نہیں آتی آپ پیر صاحب چلے جائیں آج کے بعد میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں تو پیر صاحب ناراض ہو کر چلے گئے تو میں نے لمبے لمبے سانس لئے آسمان کی طرف دیکھا اور التجا کی اے میرے رب تم ناراض نہ ہونا مجھے کسی کے ناراض ہونے کی فکر نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں