0

۔،۔آہ حسن نصراللہ شہید۔اے آراشرف۔،۔

0Shares

۔،۔آہ حسن نصراللہ شہید۔اے آراشرف۔،۔
مجاہدِ اسلام علامہ حسن نصراللہ کی شہادت کوئی معمولی سانخہ نہیں اُنکی شہادت پرپورا عالم اسلام سوگ منا رہا ہے وہ جس قوت ایمانی اور جذبہ حریت کے ساتھطاغوتی یلغار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح سینہ سُپرہو کرمقابلہ کر رہے تھے اُس پر پوری اُمت اسلامیہ فخرکرتی ہے وہ اسقدربہادر اورصابر تھے کہ ۷۹۹۱ میں انکا اٹھارہ سالہ بیٹا محمد باری جنوبی لبنان میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہو گیا تھا اور اسکی لاش ٹکروں میں بٹ گئی تھی اسرائیل نے ٹکڑوں کو واپس کرنے کی پیشکش کی تھی مگر حسن نصراللہ نے یہ پیشکش رد کر دی تھی اور اسرائیل کو سن دوھزار میں جنوبی لبنان سے پسپا ہونا پڑا۔ محروم اتحاد بین المسلمین کے داعی اورزبردست حامی تھے اُنہوں نے جسطرح تمام فرقہ بندی اور مسلکی اختلافات کی نفی کرکے عالم اسلام کو متحدکرنے کی خاطراپنے آقا امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام کی سیرت کا اتباع کرتے ہوئے اپنے مسلم بھائیوں جو مسلک کے لحاظ سے شیعہ نہیں اہلِسنت ہیں میری مراد فلسطین کے بیکس و مظلوم مسلمانوں کی مددمیں اُنکے شانہ بشانہ ہو کر صیہونیت کے مقابل اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے عالم اسلام کوپیغام دیا ہے کے دشمنان اسلام کو یہ غرض نہیں کہ مسلمان کا کس مسلک یا فقہ سے تعلق ہے وہ تو صرف دین اسلام اور مسلمانوں کی بربادی چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے ہر ملک و قوم میں اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں جو مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر فقی اور مسلکی مسائل کو ہوا دیکر آپس میں پھوٹ ڈالواکر فسادات کرواتے ہیں اور اس حدف کے حصول کے لئے اُنکے نزدیک تمام اسلامی ممالک اُنکی نظرمیں سب سے آسان اور اہم حدف ہیں جہاں ناسمجھ اور نادان لوگ ان دشمنان اسلام کی سازشوں کا شکار ہو کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانے اورایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے نہائت قابل اخترام بھائی مخترم آزاد حسین نے مسلم اُمہ سے سوال کیا ہے کہ اسوقت مسلم ممالک میں صرف ایک ایران ہی ہے جس میں غیرت ابھی باقی ہے اور باقی ابھی تک سوالیہ نشان ہیں؟؟؟اُنکا سوال ہرلحاظ معقول اور حق کی آواز ہے تو میں اپنے مخترم بھائی سے یہی عرض کرؤنگا کے ہم مسلمانوں میں اگر غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی تو آج ہم دنیا بھر میں اسقدر رسوا نہ ہورہے ہوتے۔آپ کے سوال کے جواب کا کسی شاعر نے کیا خوبصورت جواب دیا ہے وہ ہشعر پیش خدمت ہے کہ۔۔تیر کھا کردیکھا جو کمین گاہ کی طرف۔۔تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔۔ ایران کے روحانی پیشوا اور رہبر معظم آیت اللہ عظمیٰ سید علی حامنہ ای نے کیاخوبصورت بات کی ہے کہ۔شیعہ اور سُنی اگر آپس کی نفرتیں مٹا کر ایک ہو جائیں تو یہ اتحادامریکہ اور اسرائیل کے اُوپرایٹم بم گرانے سے کم نہیں۔اُنہوں نے گزشتہ دنوں جمعہ کے خطبہ میں ملت اسلامیہ کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیاانہوں کہا مسلمانوں کا دشمن ایک ہی ہے لیکن ہر ایک کے ساتھ دشمنی کے طریقے مختلف ہیں اگر مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھیں تو ان پر اللہ کی رحمت نازل ہوگی دشمن کی یہ پالیسی رہی ہے کے مسلمانوں میں اختلافات پیدا کر دے ہمیں اپنے دفاع کیلئے تیار رہنا چاہیے غزہ کے عوام کی مزاحمت نے صیہونیوں کی کمر توڑ دی ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ ہم سب کوتمام تر نفرتوں کو بھلا کرایک دوسرے کو برداشت کرنے کاجذبہ پیدا کرنا ہوگااور اپنے مسلمان بھائیوں کے ہر دکھ میں ساتھ دینا ہوگا۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں اقوام عالم میں تین اسلامی ممالک۔ترکی،مصراور پاکستان ایسے ہیں جنکی افواج کو مضبوط تصور کیا جاتا ہے ان میں سے۔ترکی اورمصر کے اسرائیل سے اچھے سفارتی اورتجارتی تعلقات ہیں وہ فلسطین کے ایشو پر صرف مذمتی قراردادسے آگے نہیں بڑھ پاتے تیسری مضبوط افواج پاکستان کی ہیں جواسلامی ایٹمی قوت بھی ہے اور شروع دن سے فلسطین کی کاز کا زبردست حامی بھی ہے لیکن وہ بھی آج تک مذمتی قراردادوں کے علاوہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی عملاََ کچھ مدد نہیں کرسکاباقی رہے عرب ممالک کے حکمران وہ امریکہ اور یورپ کے زرخرید غلام بن چکے ہیں اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں یہاں غیرت نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ تو برادر مخترم دنیا کے نقشے پر ستاون اسلامی ممالک ہیں اور انمیں وہ ممالک شامل ہیں جو تیل اور دوسرے وسائل کی دولت سے مالامال ہیں اور اُنکے حکمران عیاشی ولہوولعب کی تمام حدین عبور کر جاتے ہیں مگر اپنے ملک میں جدید تعلیمات کیلئے ایک یونیورسٹی تک بھی قائم کرنے کیلئے تیار نہیں جہاں نوجوان نسل کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم دیکر اسرائیل اور مغربی قوتوں کے مقابل لا سکیں یہ عقلی معاملات ہیں عقل کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے۔اصول کافی میں مولائے کائنات حضرت علیؑ نے فرمایاجب حضرت جبرئیلؑ زمین پر آئے تو حضرت آدمؑ سے کہا کہ مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں تمہیں تین چیزوں میں سے ایک کے لینے اور دو کے چھوڑنے کا اختیاردوں حضرت آدمؑ نے پوچھا وہ تین کیا ہیں حضرت جبرئیل نے کہا۔عقل،حیا اور دین ہیں۔حضرت آدم نے کہا میں نے عقل کو لے لیا۔حضرت جبرئیل نے حیا اور دین سے کہا واپس جاؤاور عقل کو چھوڑواُنہوں کہا اے جبرئیلؑ ہمارے لئے حکم یہ ہے کہ ہم عقل کے ساتھ رہیں جہاں کہیں بھی وہ رہے جبرئیلؑ نے کہا ٹھیک ہے اور وہ آسمان پر چلے گئے۔اس حدیث کے بیان کرنیکا مقصد یہ ہے ہمارے مسلمانوں کے اقتدار پر قابض حکمران لہوولعب میں اسقدر گم ہیں کہ وہ عقل کو استعمال کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کرتے جبکہ مسلمان ممالک میں اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور اسرائیل نے۰۸۹۱ سے یروشلم کو اپنادارالحکومت قرار دے رکھا ہے عالمی عدالت انصاف نے بھی دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کیمطابق یروشلم فلسطین کا حصہ تھا لیکن۷۶۹۱ میں اسرائیل نے اُس پر ناجائز قبضہ جما لیا دنیا کی اور حصوصاََ امریکہ اوریورپی ممالک کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ اسرائیل جارحیت اور بربریت سے اب تک بتالیس ہزار سے زائد مظلوم فلسطینی شہیدہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں اورخواتین کی ہے مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کی وہ تنظمیں جو کسی جانور کی موت پرشور مچا دیتیں تھیں اسرائیل کی اس بربریت پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں دوسری جانب پاکستان کے حکمرانوں کو بھی داد دینی چاہیے کہ اس نازک موقع پر ذاکر نائیک جیسے نام نہادملاں کواسلام کی تعلیم کیلئے بلا لیا جو فتنہ برپا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتا مجال ہے اُسنے اپنی خطابت کے دوران غزہ پر ہونے والی بربریت کا بھولے سے بھی ذکر کیا ہوان حالات کے پیش نظر اگر ایران اپنے فلسطینی بھائیوں کی امداد کے لئے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی بربریت کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتا ہے تو تمام عالم اسلام کوایران کے اس اقدام کی کھل کر حمائت کرنی چاہیے ورنہ یہ ازدھا ایک ایک کرکے سب کو نگل جائے گاتمام اسلامی ممالک کو غور کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ مسلم اُمہ کی ہدائت فرمائے آمین ثم آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں