۔،۔ تخت ِ شاہی ۔طارق حسین بٹ شانؔ -،۔
آج کی مہذب دنیا کا اصول ہے کہ سیاسی قیدیوں کے ساتھ ہمیشہ اعلی انسانی رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی سیاسی قیدی سابق وزیرِ اعظم ہو تو اسے مخصوص پروٹو کول مہیا کیا جاتا ہے تا کہ اس قوم کے اوصافِ حمیدہ کا ہر سو چرچا ہو۔جمہوری روح بھی یہی کہتی ہے کہ مخالف سیا سی قیدیوں کیلئے نفرت اور انتقام کا شائبہ نہیں ہونا چائیے اور نہ ہی انھیں قیدِ تنہائی کا شکار کیا جائے۔ان کے بنیادی حقوق کو کسی بھی حکومت کو طاقت کے بل بوتے پر سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔بلکہ یہ حکومت ِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سیاسی قیدیوں کیلئے اعلی جمہوری روایات قائم کریں۔حکومت کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سیاسی قیدیوں کو اذیتوں،جسمانی تکالیف اور ذہنی دباؤ کا شکار نہ کرے اور نہ ہی ان کے ساتھ سفاک اور بے رحمانہ رویہ اختیار کرے کیونکہ آنے والے کل میں انہیں بھی انہی زندانوں کی رونق بننا ہو تا ہے۔ پاکستان میں چونکہ تعصب،نفرت اور بدلے کا دور دورہ (مائنڈسیٹ)ہے اس لئے یہاں پر اپنے سیاسی مخالفین پر عرصہِ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے۔ انھیں مختلف قسم کی نا قابلِ برداشت اذیتیں دی جاتی ہیں تا کہ وہ حکومتِ وقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔ایسا غیر انسانی رویہ اپنایا جاتا ہے کہ اپنے بھی توبہ توب کر اٹھتے ہیں۔مجھے بتا یا جائے کہ ایسا کون سا فرد ہے جو ظلم و ستم کی تحسین کرے گا؟ کون ہے جو جبر کی ستائش کرے گا؟ کون ہے جو جسمانی اذیتوں پر شاداں ہو گا؟کون ہے جو جورو جفا پر خوشی کے ڈنکے بجائے گا؟انسان ہمیشہ اعلی انسانی رویقں اور جرات مندانہ انداز کو پسند کرتا ہے۔ کمینی اور گری ہوئی حرکات کبھی بھی انسانوں کے دلوں کے اندر جگہ نہیں بنا سکتیں۔ بہادروں سے بہادری سے لڑا جائے تو کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔لیکن اگر کسی مخالف کو ریاستی جبر سے قابو کیا جائے تو عوا م الناس ایسے اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔ میں نے اس طرح کے مکروہ اور قبیح افعال جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں دیکھے تھے جب اس کیلئے ذولفقار علی بھٹو کو جان لیوا اذیتوں سے ہمکنار کرنا اس کی زندگی کا سب سے بڑا ہدف تھا۔(خون آشام زنجیروں میں اسے رکھا گیا تھا ایسے۔،۔آمرِ وقت کی نس نس میں اس کا خوف ہو جیسے)جنرل ضیا الحق نے ریاستی طاقت سے جسے جھکانے کے جتن کئے تھے اس نے جان کی بازی لگا کر ا س کے سارے مکروہ عزائم کو ناکام بنا دیا تھا۔شائد ایک بار پھر اسی تاریخ کودہرانے کی مشق ہو رہی ہے۔کتنی قیمتی جان تھی جو جنرل ضیا الحق کی ہٹ دھرمی اور نفرت کی بھینٹ چڑھی تھی۔ملک و قوم نے جو نقصان اٹھا یا وہ اپنی جگہ ہے لیکن ظالم کا جو انجام ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔پوری دنیا نے دیکھا کہ نا انصافی اور ظلم کا کھیل کھیلنے والے کا کیا حشر ہوا؟جلتے شعلوں میں فضا کی بے کرانیوں میں اس کی زندگی کا عبرت ناک انداز میں خاتمہ ہوااور کوئی اس کا نام لیوا باقی نہیں رہا لیکن جسے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیاتھا دنیا آج بھی اس کی جراتوں اور عظمتوں کو سلام پیش کرتی ہے(ہر سو میرے چاہنے والے،پل پل ناز اٹھانے والے۔،۔اپنے دل کی دھڑکن میں میرا نام سجانے والے)یہ سچ ہے کہ جنرل ضیاالحق کی سیاسی میراث کے حاملین ایسا گھناؤنا کھیل رچائے ہوئے ہیں لیکن وہ جو ذولفقار علی بھٹو کی سیاسی بساط کے وارث ہیں ان کی عقلِ سلیم کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نہ صرف لب بمہر ہیں بلکہ سفاکیت میں ظالمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔(اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے) والا معاملہ ہے جوتھمنے کا نام نہیں لے رہا۔،۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کوئی حکمران جب ظلم و جور اور تشدد پر بضد ہو جاتا ہے تو اسے تختِ شاہی سے کیسے اتارا جائے؟جمہوری دنیا میں ایسے فرد کو اتارنے کا ایک ہی طریقہ ہوتاہے کہ انتخابات میں اس کے خلاف بیلٹ پیپر پر مہروں سے اس کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے۔ڈولنڈ ٹرمپ جیسا امیر کبیر اور مضبوط انسان جو بائیڈن جیسے کمزور اور بوڑھے انسان سے ہار جاتا ہے کیونکہ امریکی ڈولنڈ ٹرمپ کی جگہ اسے زمامِ اقتدار سونپنا چاہتے تھے جو ان کے بنیادی حقوق کا بہتر انداز میں تحفظ یقینی بنا سکے۔ ہمارے ہاں بھی جب میاں محمد نواز شریف کو چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے ہمنواؤں نے تاج و تخت سے بے دخل کیا تو اس نا انصافی کے خلاف میاں صاحب نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیاجسے عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔جمہوری روح کی سر بلندی کیلئے عوام نے انھیں نئی مقبولیت عطا کی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا جھنوں نے اقتدار سے بڑی بے رحمی سے بے دخل کیا تھا انہی کی چوکھٹ پر سجدہِ سہو ادا کر دیا۔ان کی ساری مقبولیت ہوا میں معلق ہو گئی اور انھیں فروری ۴۲۰۲ کے انتخا بات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ آج کل ووٹ کو عزت دو کہ نعرہ سے سنیاس لینے پر پچھتاوے کی آگ میں جل رہے ہیں اور خاموشی کی چادر اوڑھے ہو ئے ہیں۔پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی جمہوری جدو جہد کا شاہکار ہے لہذا یہاں پر جمہوریت کے خلاف سازش کرنے والوں کا انجام بہت عبرتناک ہوتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ اور میاں برادران جب یک جان دو قلب بن گے تو ان کی سیاسی موت واقع ہو گئی کیونکہ یہ عوامی جذبات کے بالکل الٹ ہے۔عوا م کچھ اور سوچتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا اندازِ فکر دوسرا ہے۔مسلم لیگ (ن) کو جعلی اقتدار کو سونپ دیا گیالیکن میاں محمد نواز شریف سے عظمت و وقار روٹھ گیا۔وہ بڑے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن جتنی کوشش کرتے ہیں پانسہ اتنا ہی الٹ پڑ رہا ہے۔سمجھوتوں اور سازشوں کا انجام رسوائی ہی ہوا کرتا ہے۔جو کوئی بھی ایسا کر تا ہے ایک دن طشت از بام ہو جاتا ہے اور کرنے والاعوام کی نگاہوں میں بے وقعت ہو جاتا ہے۔،۔پاکستانی انتخابات میں کس نے جیتنا ہے اس کا علم صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہوتا ہے کیونکہ وہی آخری فیصلہ صادر کرتی ہے کہ کسے جتایا جانا ہے۔ خواجہ آصف ہار کر بھی جمہوریت کا غلغلہ بلند کرتا رہتا ہے۔جب قوم کے لیڈر بے شرم،بد دیانت اور بد طینت ہو جائیں تو پھروہ اپنی قوم کو اخلاقیات کا درس کیسے دے سکتے ہیں؟بچے بچے کو علم ہے کہ خواجہ آصف دھاندلی سے پارلیمان میں بیٹھا ہوا ہے تو پھر پہلا ردِ عمل جو یوتھ میں جنم لے گا وہ بد دیانتی،جھوٹ اور مکرو فریب کا ہوگا اور یوں قوم کا سفر بلندی کی بجائے تنزلی کی جانب شروع ہو جائے گا۔ووٹ کی پرچی کو سرِ عام رسوا کردیا جائے تو پھر آمریت کے پروردوں کو کیسے تحتِ شاہی سے اتارا جائے؟احتجاج،ریلیاں،جلسے جلوس اور گھیراؤ جلاؤ اسی نا انصافی کا اظہاریہ ہو تا ہے جسے ریاستی طاقت سے کچل دیاجاتا ہے۔ووٹ کی حرمت مجروع ہوئی تو نوجوان تشدد کا راستہ اپنا نا شروع کر دیتے ہیں جو دھیرے دھیرے پورے ملک میں پھیل جاتا ہے۔ ریاستی مشینری اور انتظامی قوت سے اسے دبانے کی کوشش ملک میں انتشار اور غیر یقینی صورتِ حال کوجنم دیتی ہے اور یوں ملکی معیشت کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے۔ ایک کھلی جنگ جس میں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ملکی وقار اور اس کی ترقی پس پِشت چلی جاتی ہے جبکہ ذاتی انا ہر شہ سے بلند ہو جاتی ہے۔آئی ایم ایف کا عطا کردہ بھیک کا کٹور ہ قومی نشان بن جاتا ہے کیونکہ ہمارے فیصلہ سازوں نے ذاتی مفادات کی خاطر عدل و انصاف کاخو ن کیا تھا جس نے ملکی نظا م کو فالج زدہ کر دیا تھا۔بقولِ شاعر(متاعِ دل سے خالی ہیں اورچاہت سے ہیں بے بہرہ۔،۔بھول چکے ہیں اک دن آخرآنی ان کی باری ہے) ۔،۔(آؤ اک دن جان کی بازی ہم بھی کھیلیں سارے۔،۔جاں کی بازی جاں کی بازی یہ بھلا کب ہاری ہے)۔،۔