۔،۔ انمول خزانہ ۔طارق حسین بٹ شان۔،۔
یہ دور میڈیا کا دور ہے، آزادیوں کا دور ہے اور تکریمِ انسانیت کا دور ہے۔کوئی لاکھ بد گمانی رکھے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج کا انسان آزادیوں کا دلدادہ ہے وہ اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت برداشت کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔اس کی ایک پرائیویٹ لائف ہے جس میں اسے کسی دوسرے کی دخل اندازی قطعا پسند نہیں ہے۔اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اپنے شب و روز کے معمولات میں کسی دوسرے کو مداخلت کی اجازت مرحمت فرمائے گا۔وہ آئین و قانون،عدل و انصاف اور معاشرتی ضوابط کے سامنے تو سرِ تسلیم خم کرتا لیکن کسی غیر کو اپنی ذاتی آزادی،حریت اور سرگرمیوں پر قدغن لگانے اور ان پر بے سرو پا وار کرنے کا اذن نہیں دیتا۔اس طرح کی سوچ کا اسلامی شعائر یا مستقل اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب سے اس کا رشتہ جوڑا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی ایک دنیا سجا ئے ہوئے ہے جو اسے اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہے۔در اصل جمہوریت نے دنیا بھر کا کلچر بدل کر دکھ دیا ہے جس سے انسان کاوقار اور اس کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہما رے ہاں کچھ تنگ نظر اور متعصب سوچ کے حامل افراد اپنے مخالفین کو اب بھی ناکردہ گناہوں کی پاداش میں آہنی سلا خو ں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔یہ سلاخیں کیا انسانی جرات،ہمت،، بہادری، جی داری اور بسالت و جوانمردی کو شکست دے پائی ہیں،نہیں بالکل نہیں (جن کو ڈھنگ ہو مرنے کا وہ بھلا کب جھکتے ہیں۔،۔منہ زور طوفانوں کی مانند کب کسی سے رکتے ہیں)۔،۔(عشق جواں اور قوی ہو تو آگ کے شعلوں کے اندر۔،۔عاشق زندہ رہتے ہیں اور پھول کی مانند کھلتے ہیں) انسانی تاریخ کے صفحات انسانوں کی بے خوفی اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہم ہیں کہ ریاست کی اندھی طاقت کے نشے میں کسی دوسرے کی بات سننے سے عاری ہو جاتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا تو ابھی کل کی بات ہے؟ کیا اٹھائیس سالوں کی زندانی اس کے نظریات کو شکست دے پائی تھی؟یہ جو مالکِ کون و مکاں ہے یہ انسانی عظمت کو آشکار کرنے کیلئے ایسے نادر کردار روئے زمین پر بکھیر دیتا ہے تا کہ انسان اس کی تخلیق شدہ کا ئنات میں اس کے اعلی و ارفع ہونے کا یقین کر لے لیکن جو اندھے ہوں انھیں یہ سب کہاں دکھائی دیتاہے؟(شمع کا شعلہ جب بھی بھڑکے پروانے کو ہے آنا۔،۔آتشِ عشق کی مستی میں اس کو ہے جل جانا)۔،۔(کون کہے پروانہ اس کو آگ سے جو نہ کھیلے۔،۔ شمع کی لو سے پروانے کو لوٹ کے کب ہے جانا)۔،۔ غلامی کا طوق گلے میں سجانے والے انسان اپنی ذات کے حصار کو توڑ کر آدم گری کی اعلی و ارفع مسند پر برا جمان ہو جائیں تو سمجھ لو سماج بدل گیا ہے۔اسلام نے انسان کو جس طرح کی بلندی عطا کی تھی وہ اسلامی دنیا میں تو نظر نہیں آتی البتہ مغرب نے اس کا اپنے ہاں اطلاق کر کے انسان کو نیا تقدس عطا کر دیا ہے(جام و سبو بھی ہے، ہے میکدہ بھی باقی۔،۔ پر رنگِ میکدہ نہیں میکدہ میں باقی)۔،۔(قلب و نظر میں خمارجس کی نظر سے تھا۔،۔وہ دلنواز ساقی نہیں میکدہ میں باقی) علامہ اقبال انسانی عظمت کی اسی سوچ کا ہمنوا ہے (احمراں بہ اسوداں امیختند)۔ ترجمہ۔یعنی کالوں کو گوروں کے ساتھ یک جان کر دیا) اور انسانی عظمت کی انتہا اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ (با غلامِ خویش بر یک خواں نشست)۔ ترجمہ۔وہ اپنے غلام کو اپنے ساتھ ایک دستر خوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتا اور اس کی دلجوئی کرتا ہے)یعنی غلام کا اپنے آقا اور سردارکے ساتھ برابری کی سطح پر بیٹھنا کیا آج سے چودہ سو سال پہلے ممکن تھا؟بالکل نہیں تھا لیکن سرکارِ مدینہ ﷺ نے ایسا ممکن کر دکھایا تھااور انسانیت کو انسانی کی حقیقی عظمت سے آگاہ کیاتھا۔ انسانی حقوق کا وہ چارٹر جسے دنیا اپنی دانش و حکمت اور عقل ِ سلیم کی عظمت کا کرشمہ کہہ کر اپنی دانائی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہے اس کی بنیادیں تو چودہ سو سال قبل اس انقلا ب میں رکھ دی گی تھیں جو سرکارِ دو عالم ﷺ کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوا تھا۔ اس وقت ایفائے عہد،امانت، دیانت، عدل، انصا ف، سچائی اور برابری کا وہ سار انمول ا خزانہ مغرب کی ریا ستوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں پر انسان اپنے فرائض کی بجا آوری میں کسی شہ کو مانع نہیں ہونے دیتے۔ جھوٹ،بد دیانتی،ملاوٹ،حسد اور انتقام کے وہ سارے انسانیت کش جذبات جو سوسائٹی کو چلتی پھرتی دوز خ بنا ڈالتے ہیں ان کا کہیں نام و نشاں نہیں ملتا۔جاپان میں تو لوگ جھوٹ سے آشنا نہیں ہیں انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ دنیا میں جھوٹ نام کی بھی کوئی چیز بھی ہے؟ایسا کیسے ممکن ہوا کہ اس قبیح فکر کا وہاں گزر نہیں ہے (رخِ گل پہ نچھاور کسی نے تو لہو کیا ہو گا۔،۔ تب کہیں جا کر یہ سرخ رو ہوا ہو گا)۔،۔(شیوہِ عشاق ہے بارِ گراں اٹھا لینا۔،۔اہلِ زر کا یہاں سے کب گزر ہوا ہو گا)۔کیا مغرب میں دولت نہیں ہے،کیا مغرب میں لعل و زرو جواہر کے انبار نہیں ہیں، کیا وہاں پر انسانوں کے رہنے سہنے اور بودو باش کے انداز شاہانہ نہیں ہیں؟ جن کی پیروی پوری دنیا ہ کرتی ہے ان کے انداز تو قابلِ تقلید ہی ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ کوشش کرتے ہیں کہ انسانوں کو ان کے مقامِ بلند سے سے نیچے نہ کھینچا جائے۔(آؤ جمہور کی طاقت کا جگ میں سب کو رنگ دکھائیں۔،۔پیارو محبت والا گیت مل کر آج سارے گائیں)۔،۔(ایسی بستی کریں آبادجس پر ہو انصاف کا پہرہ۔،۔تمیزِ بندہ و آقا کو اس دھرتی سے سدا مٹائیں)۔،۔حرص و طمع اور لالچ نے امانت و دیانت کے پیکروں اور اعلی اقدار کے حاملین کے اذہان پر کبھی منفی نقوش ثبت نہیں کئے۔ دنیا کی ظاہری چمک دمک اور سودو زیاں کا جھگڑا ان کی فکر کو زنگ آلود نہیں کر پاتا۔ان کی زندگیوں کا سارا نقطہ ماسکہ یہی ہے کہ بنی نوعِ انسان کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں،انھیں برابر کا انسان سمجھا جائے اور ان کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کی جائے۔صوفی کا مسلک بھی تو یہی ہے کہ وہ جو پستی میں ہیں،وہ جو معاشرتی گراوٹ میں ہیں،وہ جو غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں، وہ جھنیں معاشرہ نظر انداز کر دیتا ہے،وہ جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہو تا،وہ جو درد آشنا اورغمگسار سے محروم ہوجا تے ہیں،وہ جھنیں کوئی بھی محبت کی نظر سے دیکھنے کا روادار نہیں ہوتا اور جو اس بھری دنیا میں بالکل تنہا ہو جاتے ہیں ایک سچے صوفی کی نظرِ التفات انھیں سینے سے لگا تی ہے،انھیں محبت بھری نگاہ سے دیکھتی ہے،میٹھے بولوں سے اس کی دلجوئی کرتی ہے،انھیں جینے کا حوصلہ بخشتی ہے اورانھیں اپنے سامنے بٹھا کر ان کی پیٹھ تھپتھپا تی ہے۔شاہراہِ دنیا پر اسے اس کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہے اور اس کی نگاہوں میں جینے کی امنگ بیدار کر دیتی ہے(عظمت والا تاج کسی کو وقت ہے جب پہنائے۔،۔اس کی خودی کاجلوہ توسب کو نظر ہے آئے)۔،۔(مستیِ مہ کی بات نہیں یہ بات ہے ساری ساقی کی۔،۔ہدفِ تیر اس ہاتھ میں ہے جو ہے اسے چلائے)۔مسلمان جس کے معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں ان کے ہاں اخلاقی قدروں کا قحط ہے۔قتل و غا رت گری، لوٹ مار اور ظلم و جور کا کلچر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ قدروں کی آماجگاہ دل کا جھروکہ ہوا کرتا ہے لیکن ہم نے اس دل کو ہی داغدار کر لیا ہوا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ ہم نے دل کی قیمتی آماجگاہ کو اپنے ہی معنی پہنا رکھے ہیں حا لا نکہ اس کا واحد مقصدحق و صداقت اور سچائی کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ دل ڈوب جائے یا پرا گندہ ہو جائے گا تو سب کچھ اس کے ساتھ ہی بہہ جاتا ہے۔بقولِ غالب ؔ(عرضِ نیاز ِ عشق کے قابل نہیں رہا۔،۔ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا)۔،